غسل و وضوء کے وقت مصنوعی دانتوں سے متعلق 5 شرعی احکام
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 376

مسئلہ: غسل اور وضوء کے وقت مصنوعی دانتوں کا نکالنا ضروری نہیں

سوال:

اگر کسی شخص نے مصنوعی دانت لگوائے ہوں یا آہنی یا سونے کی تاروں سے دانتوں کو مضبوط کیا ہو تو کیا وضوء اور غسل کے وقت ان کو نکالنا ضروری ہے؟ اور اگر دانتوں کی بھرائی ہڈی، پلاسٹک یا دیگر مواد سے کی گئی ہو، تو کیا وضوء و غسل کے وقت ان کو نکالنا لازم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مصنوعی دانتوں اور دانتوں کی بھرائی کے متعلق حکم:

وضوء اور غسل کے وقت مصنوعی دانت نکالنا واجب نہیں ہے۔

ان صورتوں میں کلی کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔

جن دانتوں کی بھرائی ہڈی، پلاسٹک وغیرہ سے کی گئی ہو، ان کے اندر پانی پہنچانا لازم نہیں۔

ان کا حکم بدن کے داخلی حصوں کی طرح ہے، جہاں پانی پہنچانا فرض نہیں ہوتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل:

سونے کی تاروں سے دانتوں کو مضبوط کرنا حدیث سے ثابت ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے بندھے دانتوں کو نکالنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سنن (2/796) میں باب باندھا ہے:

"باب ھذا الاسنان بالذھب”

اکابر علماء کے فتاویٰ:

مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ (فتاویٰ رشیدیہ: 2/32) فرماتے ہیں:
"یہ مجبوری کے تحت آتا ہے اور اس کا نکالنا بہت زیادہ دشواری کا باعث ہے۔”

"شریعت میں حرج معاف ہوتا ہے، اس لئے بغیر نکالے اس کا دھونا درست ہے۔”

"فقہاء کے اقوال موجود ہیں کہ سونے کا دانت لگانا اور سونے کی تاروں سے دانت مضبوط کرنا جائز ہے۔”

"اگر یہ وضوء و غسل کی صحت کے لیے مانع ہوتا، تو فتوٰی اس کے برخلاف دیا جاتا۔”

امام ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ (فتاویٰ ابن عثیمین: 4/140) فرماتے ہیں:
"اگر انسان کا دانت جڑا ہوا ہے تو اس کا نکالنا واجب نہیں۔”

"یہ انگوٹھی کی مانند ہے، جسے وضوء کے وقت نکالنا افضل تو ہے، مگر واجب نہیں۔”

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے، اور کہیں منقول نہیں کہ آپ نے وضوء کرتے وقت انگوٹھی نکالی ہو۔”

"حالانکہ انگوٹھی نکالنا بعض افراد کے لیے دانت نکالنے سے زیادہ آسان ہے۔”

"یہ سب شریعت کی طرف سے دی گئی آسانیوں میں شامل ہے۔”

نتیجہ:

وضوء اور غسل میں مصنوعی دانتوں کو نکالنے کی ضرورت نہیں۔

دانتوں کی بھرائی یا سونے کی تاروں سے بندھے دانت کے اندر پانی پہنچانا واجب نہیں۔

شریعت میں دشواری کو رفع کرنے کے اصول کے تحت یہ تمام چیزیں معاف ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1