سوال
کیا غسل سے پہلے وضوء کرنا فرض ہے؟ اگر کوئی شخص پانی میں داخل ہوکر صرف غسل کی نیت سے غوطہ لگاتا ہے اور وضوء نہیں کرتا تو کیا اس کا غسل صحیح ہوگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری (1/39) میں ایک باب قائم کیا ہے:
’’باب ہے غسل سے پہلے وضوء کرنے کا‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (1/186) میں فرماتے ہیں:
’’یعنی غسل سے پہلے وضوء کرنا مستحب (افضل) ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف:
امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام میں بیان کرتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے غسل کو مطلقاً فرض کیا ہے اور اس میں کسی ایسی چیز کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے پہلے کسی دوسرے عمل کو لازم قرار دیا گیا ہو۔ پس جو شخص بھی اس طرح نہا لیتا ہے کہ پورا بدن دھل جائے، تو وہ غسل کافی ہے۔‘‘
حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر:
غسل کے بارے میں بہتر اور واضح ترین بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، جس کا ذکر آگے تفصیل سے آئے گا۔
علی القاری رحمہ اللہ کی وضاحت:
المرقات (2/33) میں علی القاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جمہور علماء کے نزدیک غسل سے پہلے وضوء کرنا واجب نہیں ہے، داؤد ظاہری نے اسے واجب قرار دیا ہے۔ اور سر کا مسح کرنا ہی اس کے دھونے کے لئے کافی ہوتا ہے۔‘‘
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی رائے:
المغنی (1/250) میں درج ہے:
’’اگر کسی شخص نے ایک ہی بار پانی سر سمیت سارے بدن پر بہایا اور وضوء نہیں کیا تو، کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے ساتھ نیت کر لے، تو یہ غسل کفایت کر جائے گا، لیکن وہ افضل طریقے کو ترک کرنے والا شمار ہوگا۔‘‘
حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی روشنی میں:
السنن الکبری للبیہقی (1/177) میں ہے:
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور غسل جنابت کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے کہا: ہم ٹھنڈے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی ایک کے لیے تین چُلو پانی ڈالنا کافی ہے۔‘‘
اسی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ہے:
’’تیرے لیے کافی ہے کہ تو اپنے سر پر تین بار پانی ڈالے۔‘‘
ابن عمرؓ اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا قول:
السنن الکبری للبیہقی (1/178) میں روایت ہے کہ:
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’نہانا وضوء سے کفایت کرتا ہے، لیکن سنت یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضوء کیا جائے۔‘‘‘
نبی کریم ﷺ کا طریقہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری (1/39) میں روایت کرتے ہیں:
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو ہاتھ دھو کر ابتداء کرتے، پھر وضوء کرتے جیسا کہ نماز کے لئے وضوء کیا جاتا ہے، پھر پانی میں انگلیاں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے، پھر سر پر تین چُلو پانی ڈالتے اور آخر میں سارے بدن پر پانی بہاتے۔‘‘
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری (1/41) میں یہ روایت بھی لاتے ہیں:
’’میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا۔ آپ نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر دو یا تین بار پانی ڈالا، پھر استنجاء کیا، پھر ہاتھ زمین یا دیوار پر دو یا تین بار ملے، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، منہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سر پر پانی ڈالا، پھر سارا بدن دھویا، پھر وہاں سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔‘‘
’’پھر آپ کے پاس کپڑا لایا گیا، لیکن آپ نے کپڑا واپس کردیا اور اپنے ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔‘‘
خلاصہ کلام:
غسل سے پہلے وضوء کرنا سنت اور مستحب ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک غسل سے پہلے وضوء واجب نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص غسل کرتے وقت وضوء نہ کرے لیکن پورے بدن پر پانی بہا لے، کلی کرے، ناک میں پانی ڈالے اور نیت بھی کر لے، تو غسل صحیح ہے۔
وضوء ترک کرنے کی صورت میں وہ افضل طریقے کو چھوڑنے والا شمار ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب