غسلِ چہرہ: گھنی و خفیف داڑھی کے 8 شرعی احکام

داڑھی دھونے یا خلال کرنے کے احکام

سوال

داڑھی کا دھونا بعض کا ہے یا مکمل؟ اور کیا گھنی اور غیر گھنی داڑھی کے حکم میں کوئی فرق ہے؟

الجواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

چہرہ دھونے کی فرضیت اور داڑھی کے بارے میں عمومی حکم

چہرے کا دھونا قرآن و سنت سے فرض ثابت ہے۔

سنت نبوی میں داڑھی کے گھنے یا ہلکے ہونے کا کوئی فرق بیان نہیں ہوا۔

البتہ علماء کی رائے میں گھنی داڑھی کے اندر تک پانی پہنچانا واجب نہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے وضوء کا طریقہ

صحیح بخاری (1/26) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

"انہوں نے وضوء کرتے ہوئے منہ دھویا، کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا، پھر چلو سے منہ دھویا، دایاں ہاتھ، بایاں ہاتھ، سر کا مسح، پھر دایاں اور بایاں پاؤں دھویا، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح وضوء کرتے دیکھا ہے۔”

احادیث سے وجوب کا استدلال اور شوکانی رحمہ اللہ کی وضاحت

منتقیٰ مع شرح النیل (1/182) میں یہ روایت بیان کی گئی اور شوکانی رحمہ اللہ نے (1/186) پر فرمایا:

اس باب کی احادیث قابلِ احتجاج اور استدلال کے لائق ہونے کے باوجود وجوب پر دلالت نہیں کرتیں، کیونکہ وہ افعال پر مشتمل ہیں۔

بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں: "مجھے اس طرح میرے رب نے حکم دیا ہے

لیکن یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہو سکتا ہے۔

اصولِ فقہ میں اختلاف ہے کہ کیا جو چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہو، وہ امت کے لیے عام ہوتی ہے یا نہیں۔

فرائض صرف یقینی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں۔

اگر کسی ایسی چیز پر وجوب کا حکم لگا دیا جائے جو اللہ نے فرض نہیں کی، تو یہ اللہ پر ایسا قول ٹھہرانا ہے جو اس نے نہیں فرمایا۔

گھنی داڑھی کے منہ دھونے اور خلال کے لیے ایک چلو کافی نہیں ہوتا۔

اس حقیقت کا انکار کرنا تکبر ہے۔

تاہم احتیاط اور یقین کی راہ اپنانا افضل ہے، بغیر وجوب کا حکم لگائے۔

المغنی کی تصریح

المغنی (1/116) میں ذکر ہے:

اگر داڑھی ہلکی ہو اور اس میں سے چمڑا نظر آتا ہو تو اندرونی حصہ دھونا فرض ہے۔

اگر داڑھی گھنی ہو تو اندر چمڑا دھونا فرض نہیں۔

یہی قول اکثر اہل علم کا ہے، لیکن عطاء اور ابو ثور رحمہما اللہ نے اندرونی حصہ دھونا بھی واجب کہا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کی کیفیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی گھنی تھی۔

یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کا باطن دھویا ہو۔

الفقہ الاسلامی کا مؤقف

الفقہ الاسلامی (1/216) کے مطابق:

اگر داڑھی گھنی ہو اور چمڑا نظر نہ آتا ہو:

تو اس کا ظاہر دھونا فرض ہے۔

باطن کا خلال سنت ہے۔

اندر پانی پہنچانا واجب نہیں، کیونکہ یہ مشکل ہے۔

صحیح بخاری (1/26) کی روایت میں بھی ہے کہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کرتے وقت ایک چلو سے منہ دھویا، جبکہ آپ کی داڑھی گھنی تھی۔

چہرے سے باہر نکلنے والے داڑھی کے بال

شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک:

جو بال چہرے کے دائرے سے باہر لٹکتے ہوں، ان کا دھونا فرض ہے۔

کیونکہ وہ محلِ فرض کے اندر آتے ہیں۔

مسلم (1/120) میں عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"جب بندہ منہ دھوتا ہے، جیسے اللہ نے حکم دیا، تو چہرے کی ساری خطائیں داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ گر جاتی ہیں۔

حنفیہ اور مالکیہ کے مطابق:

لٹکتے بالوں کا دھونا فرض نہیں، کیونکہ وہ چہرے کے مسمیٰ میں شامل نہیں۔

راوی کا تبصرہ: پہلا قول یعنی لٹکتے بالوں کو دھونا، زیادہ احتیاط پر مبنی ہے۔

دیگر فقہی کتب کی رائے

المجموع (1/374):

گھنی داڑھی کے ظاہر کو دھونا فرض ہے، اس پر کوئی اختلاف نہیں۔

باطن کو دھونا فرض نہیں، نہ ہی اس کے نیچے چمڑے کو۔

گھنی داڑھی وہ ہے جس سے چمڑا چھپ جائے، اور ہلکی داڑھی اس کے برعکس۔

مزید کتب:

البدائع والصنائع (1/3) المغنی (1/13)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 353

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1