غائبانہ نماز جنازہ سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، جنازے کے مسائل، جلد 1، صفحہ 256

سوال

آپ کے شہر گوجرانوالہ کے ایک مولانا صاحب ہمارے علاقے میں آئے اور کہا کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں، آپ قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی کریں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غائبانہ نماز جنازہ بالکل جائز ہے، چاہے وہ کسی شہید کی ہو یا کسی غیر شہید کی۔ اس مسئلے کے بارے میں سنتِ نبوی ﷺ سے واضح دلائل موجود ہیں، جن کی روشنی میں غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔

غائبانہ نماز جنازہ کی دلائل

➊ نبی اکرم ﷺ کا حضرت نجاشی کے لیے نماز جنازہ پڑھنا:

رسول اللہ ﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے انتقال کی خبر سن کر مدینہ میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی، حالانکہ نجاشی کا جسدِ خاکی وہاں موجود نہ تھا۔ یہ واضح دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بذاتِ خود غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔

➋ شہداء احد کی نماز جنازہ آٹھ سال بعد پڑھنا:

اسی طرح نبی ﷺ نے شہداء احد کی نماز جنازہ آٹھ سال بعد ادا فرمائی، جب کہ ان کی تدفین پہلے ہو چکی تھی اور وہ موقع پر موجود بھی نہیں تھے۔ یہ عمل بھی غائبانہ نماز جنازہ کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔

(بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ احد)

یہ دونوں روایات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ غائبانہ نماز جنازہ سنتِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے اور اس کا انکار درست نہیں۔

نتیجہ:

لہٰذا، غائبانہ نماز جنازہ کا جواز قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہے اور نبی کریم ﷺ کے عمل سے بھی یہ بالکل درست ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح نبی ﷺ نے حضرت نجاشی اور شہداء احد کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی، اسی طرح آج بھی کسی غیر موجود میت کی نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1