عید کے متعلق 5 مسنون اعمال اور احادیث

عید کی نماز اور دیگر متعلقہ احادیث کا تفصیلی بیان

عید کی نماز اگلے دن ادا کرنا

ایک مرتبہ ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے گواہی دی کہ انہوں نے گزشتہ رات عید کا چاند دیکھا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ:

◈ وہ روزہ افطار کر لیں
◈ اور اگلی صبح عید گاہ کی طرف روانہ ہو جائیں

ابو داود: الصلاۃ، باب: إذا لم یخرج الإمام للعید من یومہ یخرج من العید: ۷۵۱۱
ابن حزم اور بیہقی نے اسے صحیح کہا ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے عید کی نماز کا وقت فوت ہو جائے تو اگلے دن نماز عید ادا کی جا سکتی ہے۔

عید کے دن جنگی کھیلوں کا مظاہرہ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

’’عید کے دن حبشی لوگ ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ’کیا تم یہ منظر دیکھنا چاہتی ہو؟‘
میں نے کہا: ’ہاں‘۔ تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، اور میں ان حبشیوں کا تماشا دیکھتی رہی جو عید کے دن مسجد میں جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘

بخاری: الصلاۃ، باب: أصحاب الحراب فی المسجد: ۴۵۴
مسلم: العیدین، باب: الرخصۃ فی اللعب: ۲۹۸

نکتہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے موقع پر خوشی اور تفریح کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اسلامی آداب کے مطابق ہو۔

نماز عید کا وقت

سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن نماز عید کے لیے گئے۔ جب امام نے نماز میں تاخیر کی تو انہوں نے فرمایا:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت تک نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے۔‘‘

راوی کہتا ہے کہ وہ وقت چاشت کا وقت تھا۔

ابو داؤد، الصلاۃ، باب: وقت الخروج الی العید: ۵۳۱۱
امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔

نتیجہ:
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عید کی نماز کا وقت جلدی ادا کرنا سنت ہے اور تاخیر مناسب نہیں۔

عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل کرنا

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن عیدگاہ جانے اور واپسی کے لیے راستہ تبدیل فرمایا کرتے تھے۔‘‘

بخاری: العیدین، باب: من خالف الطریق إذا رجع یوم العید: ۶۸۹

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن کسی راستے سے نکلتے تو واپسی پر کسی دوسرے راستے سے لوٹتے تھے۔‘‘

ابو داؤد، الخروج الی العید فی طریق، ویرجع فی طریق: ۶۵۱۱
ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الخروج یوم العید من طریق: ۱۰۳۱

حکمت:
اس عمل کی کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات ہو اور دونوں راستے گواہ بنیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1