عید گاہ میں عورتوں کی شرکت اور شرعی ہدایات
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم (سب عورتوں کو حتیٰ کہ) حیض والیوں اور پردہ والیوں کو (بھی) دونوں عیدوں میں (گھروں سے نکالیں) تاکہ وہ (سب) مسلمانوں کی جماعت (نماز) اور ان کی دعا میں حاضر ہوں۔ اور فرمایا:
"حیض والیاں جائے نماز سے الگ رہیں (یعنی وہ نماز نہ پڑھیں) لیکن مسلمانوں کی دعاؤں اور تکبیروں میں شامل رہیں، تاکہ اللہ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پائیں۔”
ایک عورت نے عرض کیا: اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو (تو پھر وہ کیسے عید گاہ میں جائے؟) فرمایا:
"اس کو اس کی ساتھ والی عورت چادر اڑھا دے (یعنی کسی دوسری عورت سے چادر عاریتاً لے کر چلے)۔”
(بخاری: صلاۃ، باب: وجوب الصلاۃ فی الثیاب: ۱۵۳۔ مسلم: صلاۃ العیدین، باب: ذکر إباحۃ خروج النساء فی العیدین إلی المصلی: ۰۹۸.)
بالغ لڑکیوں کے لیے عیدین کی نماز میں شرکت کا حکم
سیّدنا عبد اللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر بالغ لڑکی کا نماز عیدین کے لیے نکلنا واجب ہے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۰۴۲.)
تکبیرات عید کے بارے میں روایات
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بیان
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو صحیح ترین روایت مروی ہے، وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
صحابہ و تابعین سے مروی روایات
➊ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تکبیرات کا عمل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کے دن (۹ ذوالحجہ) کی فجر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۴۱۳ ح :۵۷۶۲) امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
➋ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت
وہ عید الفطر کے دن گھر سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۹۷۲) ۹۲۱۶، امام بیہقی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما موقوفاً محفوظ ہے.)
➌ امام زہری رحمہ اللہ کا بیان
امام زہری کہتے ہیں کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروں سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے، پھر امام کے ساتھ تکبیرات کہتے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۱/۸۸۴.۸۲۶۵)
➍ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ
وہ ۹ ذوالحجہ کو نماز فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ نماز عصر تک ان الفاظ میں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ وَأَجَلُّ، اللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ.‘‘
’’اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ صاحب جلال ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ ہی کے لیے ساری تعریف ہے۔‘‘
(ابن أبی شیبۃ: ۱/۹۸۴،۔ اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
➎ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کا طریقہ تکبیر
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ یوں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا.‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ۳/۶۱۳،۲۸۲۶.)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس بارے میں صحیح ترین قول سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔
➏ تابعی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت
وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ عرفات کے دن نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر یوں پڑھتے تھے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.‘‘
(مصنف ابی شیبہ:۲/۷۶۱، حدیث۹۴۶۵.)
➐ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تکبیر
وہ بھی ان الفاظ سے تکبیر کہا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۸۶۱، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا۔ (ارواء الغلیل ۳/۵۳۱.))