عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کے دلائل
(1) ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾
”اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالو، اور انہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، اس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں. “ (سورت ابراہیم، آیت 5)
(2) ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ﴾
”(اے رسول) کیا آپ نے اُنکو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کا انکار کیا اور ( اس انکار کی وجہ سے) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتارا۔“
(سورت ابراهیم آیت 28 )
( 3 ) ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾
”اور جو تمہارے رب کی نعمت ہے اُس کا ذکر کیا کرو۔ “ (سورت الضحی، آیت 11)
(4) ﴿قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾
مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اسکانازل ہونا) ہمارے لئیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے ۔ (سورت المائدہ، آیت 114)
(5) ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾
( اے رسول) کہو ( یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ( سے ہے) لہذا اس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( ان چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے۔ (سورہ یونس آیت 58)
( 6 ) سورت الصف کی آیت نمبر 6 کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اسی طرح عید میلاد کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔
(7) اپنے طور پر اپنے اس کام کو سنت کے مطابق ثابت کرنے کے لئیے خود کو اور اپنے مریدوں کو دہوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی، خو د ولادت پر خوشی منانا ہے ۔
( 8 ) کہتے ہیں کہ ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا اور اُس کے اس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے، پس اس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعث ثواب ہے ۔
( 9 ) کہتے ہیں کہ میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے ، اور یہ کام تو صحابہ بھی کیا کرتے تھے ، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا؟
( 10 ) کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں ان کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں، اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کوئی محبت نہیں ، وہ محروم ہیں۔
( 11 ) اللہ کے فرمان ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ کی تفسیر میں عبد اللہ ابن عباس اور عمر رضی اللہ عنہم کے ایک قول کو دلیل بنایا جاتا ہے ، اور کس طرح بنایا جاتا ہے وہ جواب میں ملاحظہ فرمائیے،
ابھی گذشتہ سطور میں جو باتیں آپ نے پڑھی ہیں وہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ‘ منانے والوں کے دلائل میں سے سب سے اہم اور طاقتور ہیں ، اب ترتیب وار اُن کے جوابات لکھتا ہوں، ان شاء اللہ تعالی ایک ایک دلیل کا مفصل اور تحقیقی جواب لکھا جائے گا، سب پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ تحمل مزاجی ، انصاف پسندی، اور سکون و غور کے ساتھ پڑہیں اور روایتی مناظرہ بازی سمجھ کر نہیں تحقیق سمجھ کر پڑھیں، اور سب دلائل کے جوابات پورا ہونے تک بار بار پڑھیں، اور غور کریں کہ قران و حدیث کو کسی طرح سمجھا جانا چاہئیے ، اور کس طرح سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو وہ جاننے اور سمجھنے اور ہمت اور دلیری کے ساتھ اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو اُس کے اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے ہوں ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل
عید میلاد منوانے اور منانے والے ہمارے کلمہ گو بھائی سورت ابراہیم کی آیت 5 کے ایک حصے کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ﴾ یعنی اور انہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ، کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے (ان کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں۔
جواب:
مکمل آیت یوں ہے :
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾
اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالو ، اور انہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، اس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں ۔
اگر اس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم پر کیسے عمل کیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائیں یا عید منانے کا حکم دیا ؟ اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو ان لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہو جاتا ہے۔
امام محمد بن احمد جو امام القرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر ” الجامع لاحکام القرآن ” میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقد تسمى النعم الأيام
نعمتوں کو بھی ایام بھی کہا جاتا ہے۔
اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا:
بوقائع الله فى الأمم السالفة
” اللہ کی طرف سے سابقہ امتوں میں جو واقعات ہوئے۔ ”
اور سعید بن جبیر نے عبد اللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبی بن کعب ( رضی اللہ عنہم) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ إنه بينما موسى عليه السلام فى قومه يذكرهم بأيام الله وأيام الله نعماؤه وبلاؤه ایک دفعہ موسی (علیہ السلام) اپنی قوم کو اللہ کے دن یاد کروا ر ہے تھے ، اور اللہ کے دن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں۔ صحیح مسلم /کتاب الفضائل / باب من فضل الخضر علیہ السلام، اور یہ (حدیث) دل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تفسیر میں امام مجاہد اور امام قتادہ کا قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا:
﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ أي: بأياديه ونعمه عليهم، فى إخراجه إياهم من أسر فرعون وقهره و ظلمه وغشه، وإنجائه إياهم من عدوهم، وفلقه لهم البحر، و تظليله إياهم بالغمام، وإنزاله عليهم المن والسلوى، إلى غير ذلك من النعم : ﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ یعنی ان کو اللہ کی مدد اور نعمتیں یاد کر واؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعون کے ظلم سے نجات دی، اور اُن کے دشمن سے انہیں محفوظ کیا، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کیا، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کیا، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں ۔ ( تفسير القرآن العظيم لابن كثير)
غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس آیت میں اللہ کے دنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں انہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟ میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالی کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔﴾ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُسکے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) سے آگے مت بڑ ھو اور اللہ ( کی ناراضگی) سے بچو بے شک اللہ سننے اور علم رکھنے والا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اونچی آواز میں بات کر وایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ سورت الحجرات/ آیت 1-2
پھر یہ لوگ اس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ﴾ یعنی ” اور انہیں اللہ کی نعمتیں یاد کراؤ” کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے۔”
جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اسرائیل اُس دن روزہ رکھا کرتے تھے جس دن اللہ تعالی نے انہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دن ، اور بنی اسرائیل اس دن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جس کا موسیٰ علیہ السلام نے انہوں حکم دیا ، ابھی ابھی اس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ ” اگر اس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم پر کیسے عمل کیا، اپنی قوم کو اللہ ک(14-إبراهيم:6)ی نعمتیں یاد کروائیں یا عید منانے کا حکم دیا ؟؟؟
ملاحظہ فرمائیے ، قارئین کرام، آیت نمبر 5 کی بعد کی آیات میں اللہ تعالی نے ہمیں یہ بتایا ﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ . وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ . وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ .﴾ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ( تاکہ انہیں لونڈیاں بنا کر رکھیں) اور اس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا ) اور ( یہ نعمت بھی یاد کرو کہ ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حکم دیا کہ اگر تم لوگ شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تم لوگوں کو (جان ، مال و عزت میں) بڑھاوا دوں گا اور اگر تم لوگ ( میری باتوں اور احکامت سے ) انکار کرو گے تو ( پھر یا د رکھو کہ ) بلاشک میرا عذاب بڑا شدید ہے ۔اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے، کفر کریں تو بھی یقینا اللہ تعالی ( کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ) غنی اور حمید ہے ۔ سورت ابراہیم
تو اللہ تعالٰی کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے ! ” عید ” نہیں منایا کرتے تھے،
اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو انہیں یہ غلط نہیں نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ روزہ ﴿وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ﴾ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے : آیے ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں،
(1) عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء فقال عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پوچھا کہ ما هذا ؟ : یہ کیا ہے ؟ قالوا هذا يوم صالح هذا يوه نعى الله بني إسرائيل من عدوهم فصامه موسى تو انہیں بتایا گیا کہ یہ نیک دن ہے ، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُنکے دشمن (فرعون) سے نجات دی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن روزہ رکھا ” ، قال تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا فأنا أحق بموسي مينكم میر احق موسیٰ پر تم لوگوں سے زیادہ ہے فصامه وأمر بصيامه اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس دن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔” ( صحیح البخاری / کتاب الصیام / باب صوم یوم عاشوراء)
(2 )عن أبى موسى رضى الله عنه قال كان يوم عاشوراء تعده اليهود عيدا ، قال النبى صلى الله عليه وسلم ابوموسی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ” دس محرم کے دن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا فصوموه أنتم تم لوگ اس دن کا روزہ رکھو (صحیح البخاری /کتاب الصيام / باب صوم یوم عاشوراء)
اس حدیث مبارک میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ خوشی کے مواقع کو اس طرح عید بنانا یہودیوں کی عادات میں سے ہے، جس پر انکار فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خوشی کے شکر کے طور پر اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے ، یہودیوں ہی کی طرح عیدیں بنانے اور منانے کی اجازت نہ دی۔
( 3 ) عن ابن عباس رضي الله عنهما قال ” ما رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره إلا هذا اليوم يوم عاشوراء وهذا الشهر يعني شهر رمضان” ( صحیح البخاری کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اس دس محرم کے روزے کو کسی بھی اور دن کے (نفلی ) روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کسی اور مہینے کو اس مہینے سے زیادہ ( فضیلت والا جانتے تھے ) یعنی رمضان کے مہینے کو ۔”
( 4 ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ ” خلیفہ دوئم بلا فصل امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عاشوراء ( دس محرم) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا احتسب على الله أن يكفر السنة الماضية میں اللہ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ (اس عاشوراء کے روزہ کے ذریعے) پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرما دے گا ۔ صحیح مسلم حدیث 1162 / کتاب الصیام / باب 36 ، صحیح ابن حبان / حدیث 3236
( 5 ) أم المؤمنین عائشہ ، عبد اللہ ابن عمر ، عبد اللہ ابن مسعود اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ :
(1) عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوما يصومه أهل الجاهلية فمن أحب منكم أن يصومه فليصه ومن كره فليدعه (صحیح مُسلم / کتاب الصیام / باب صوم یوم عاشوراء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یوم عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا ” اس دس محرم کا روزہ اہل جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔”
(ب) عن جابر بن سمرة رضى الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا بصيام يوم عاشوراء ويحثنا عليه ويتعاهدنا عنده فلما فرض رمضان لم يأمرنا ولم ينهنا ولم يتعاهدنا عنده (صحیح مُسلم /کتاب الصیام / باب صوم یوم عاشور اء)
رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے ، اور اسکی ترغیب دیا کرتے تھے ، اور اس کے بارے میں ہم سے عہد لیا کرتے جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں نہ اسکا حکم دیا، نہ اور نہ ہی اس سے منع کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں ہم سے کوئی وعدہ لیا ۔”
( 6 ) عن حميد بن عبد الرحمن أنه سمع معاوية بن أبى سفيان رضي الله عنهما يوم عاشوراء عام حج على المنبر يقول ” يا أهل المدينة أين علماؤكم ؟ ” سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وأنا صائم فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر صحیح البخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء
حمید بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے اُس سال میں جس سال میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، معاویہ رضی اللہ وعنہ کو عاشوراء کے دن منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” اے مدینہ والو تمہارے علماء کہاں ہیں؟ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا:
یہ دس محرم کا دن ہے اور اللہ نے تم لوگوں پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا، اور میں روزے میں ہوں، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار۔
(7)عن أبى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل (صحیح مسلم کتاب الصوم باب فضل صوم المحرم)
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے ۔
ان احادیث پر غور فرمائے، کہیں سے اشارہ بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی ، جیسا کہ اوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے ، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ روزہ ایام جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اس روزہ کو رکھا اور اسکے رکھنے کا حکم بھی دیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اسکی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے، رہا معاملہ اس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے ، لہذا ان کو بھی چاہیئے کہ یہ جس دن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دن مانتے ہیں ، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا، اِس کا ذکر آگے آئے گا ان شاء اللہ ، تو اپنی اس خام خیالی کی بنیاد پر ان کو چاہیے کہ یہ لوگ خود اور ان کے تمام تر مرید ان اس دن روزور کھیں۔
مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمائیے ، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر انہوں نے یہودیوں کو اِس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ ” یہ کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہجرت مدینہ سے پہلے اس دن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یوم نجات تھا، اور یہ حدیث اس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عالم غیب نہیں تھے ، خیر یہ ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔
اور بات بھی بڑی مزیدار ہے یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت ابراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے ، اور وہ ہیں آیت نمبر 28 ،29، 30، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے ، امام محمد بن علی الشوکانی کی تفسیر ” فتح القدیر ” اور امام محمد بن احمد القرطبی کی تفسیر ” الجامع لاحکام القرآن ”
تو جس آیت کو ہمارے یہ بھائی ” عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ” کی دلیل بنا رہے ہیں اور اس دلیل کی مضبوطی کے لیے یوم عاشورا کے روزے کا معاملہ اسکے ساتھ جوڑ رہے ہیں، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کا یوم عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ یہ آیت مکہ میں ءِ نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے، اور اس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش مکہ بھی رکھا کرتے تھے ، جیسا کہ اوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں بویں حدیث میں اس بات کا ذکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے ، فماذا بعد الحق إلا الضلال
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی دوسری دلیل اللہ
عید میلاد منوانے اور منانے والے ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ سورت ابراہیم کی آیت 28 کی تفسیر میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا گیا ہے کہ نعمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہیں ” ، اور پھر عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنیما کے اس قول کو بنیاد بنا کر ان لوگوں نے یہ فلسفہ گھڑ لیا کہ نعمت کا اظہار کرنا شکر ہے اور شکر نہ کرنا کفر ہے اور جب شکر کیا جائے گا تو خوشی ہو گی لہذا ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خوشی اظہارِ نعمت کی خوشی ہے ”
جواب:
سورت ابراہیم کی آیت 28 یوں ہے : ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ﴾ (اے رسول) کیا تم نے اُن کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کا انکار کیا اور ( اِس انکار کی وجہ سے) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لاتارا۔
اللہ جانے ان لوگوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہاں سے لیا ہے کیونکہ تفسیر، حدیث، تاریخ وسیرت اور فقہ کی کم از کم سوڈیڑھ سو معروف کتابوں میں مجھے کہیں بھی یہ قول نظر نہیں آیا، البتہ تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر نے یہ کہا ہے کہ :
وإن كان المعنى يعم جميع الكفار؛ فإن الله تعالى بعث محمدا صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين، ونعمة للناس، فمن قبلها وقام بشكرها دخل الجنة، و من ردها وكفرها دخل النار یہ بات ہر کافر کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام انسانوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا، پس جس نے اسکو قبول کیا اور اس پر شکر ادا کیا وہ جنت میں داخل ہو گا، اور جس نے اس کو قبول نہ کیا اور اس کا انکار کیا وہ جہنم میں داخل ہو گا ۔
اللہ جانے امام ابن کثیر کے اس مندرجہ بالا قول کو عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیان کردہ تفسیر قرار دینا ان کلمہ گو بھائیوں کی جہالت ہے یا تعصب، اگر بالفرض یہ درست مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ قول عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہا ہوا ہے ، تو کہیں تو یہ دکھائی کہ دیتا عبد اللہ ابن عباس یا اُنکے والد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ یا کسی بھی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دن کسی بھی طور پر ” منایا ” ہو ، اس طرح تو انکے ابھی ابھی اوپر بیان کر دہ فلسفے کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کفرانِ نعمت کیا کرتے تھے ؟
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم منانے والوں کی تیسری دلیل :
تیسری دلیل کے طور پر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورت الضحی کی آیت رقم گیارہ 11 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنی نعمتوں کے اظہار کا حکم دیا ہے اور اظہار بغیر ذکر کے ہو نہیں سکتا، اور اس آیت میں حکم ہے کہ اظہار کر و اب سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں اور یقینا ہیں بلکہ تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں تو پھر اسکا ذ کر کیوں نہیں ہو گا ۔
جواب:
اگر میرے یہ کلمہ گو بھائی سورت الضحی کو پورا پڑ ھیں تو پھر انہیں اس کی آیت رقم گیارہ ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ ”اور تمہارے رب کی جو نعمت ہے اُس کا ذکر کیا کرو “ سے پہلے کی آیات سے یہ سمجھ میں آجانا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دل جمعی فرماتے ہوئے انکو اپنی نعمتیں یاد کرواتے ہیں اور اپنی ان نعمتوں کو بیان کرنے کا حکم دینے سے پہلے دو حکم اور بھی دیتے ہیں کہ :
﴿فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ . وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ .﴾ ” پس جو یتیم ہے اُس پر غصہ مت کرو ۔ اور جو کوئی سوالی ہو تو اسے ڈانٹو نہیں ۔ “
ان دو حکموں کے بعد اللہ تعالی نے اپنی نعمتیں بیان کرنے کا حکم دیا،
اگر نعمتوں کا ذکر کرنے سے مراد عید میلاد النبی منانا ہے تو پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اور اُنکے بعد اُنکے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟
اس آیت کو اپنے فلسفے کی دلیل بنانے والے میرے کلمہ گو بھائی اگر قرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی احادیث یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار میں ڈھونڈنے کی زحمت فرمالیتے یا امت کے اماموں کی بیان کردہ تفاسیر میں سے کسی تفسیر کا مطالعہ کرتے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ جو منطق و فلسفہ یہ بیان کر رہے ہیں وہ نا قابل اعتبار اور مردود ہے، کیونکہ خلاف سنت ہے، جی ہاں خلاف سنت رسول صلی اللہ علیہ و علی آله و سلم، خلاف سنت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ، اور کچھ نہیں تو صرف اتنا ہی دیکھ لیتے کہ ان آیات میں موجود اللہ کے احکام پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کیسے عمل کیا ہے تو اس قسم کے فلسفے کا شکار نہ ہوتے ۔
کوئی ان سے پوچھے تو :کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُنکے بعد صحابہ رضی اللہ اجمعین اور اُنکے بعد تابعین، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کسی عالم کو کسی امام کو ، کسی مُحدّث ، کسی مفسر ، کسی فقیہ ، کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ اللہ کے حکموں کا مطلب عید میلاد النبی منانا ہے ؟ اور جس کو یہ تفسیر سب سے پہلے سمجھ میں آئی وہ تو پھر اِن سب سے بڑھ کر قرآن جاننے والا اور بلند رتبے والا ہو گیا ؟ انا لله وانا اليه راجعوان
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم منانے والوں کی چوتھی دلیل
چوتھی دلیل کے طور پر سورت المائدہ کی آیت 14 کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے عیسی علیہ السلام نے دُعا کی اے اللہ آسمان سے مائدہ نازل فرما جس دن کھانا نازل ہو گا وہ ہمارے لیے اور بعد والوں کے لیے عید کا دن ہو گا ، غور کریں کہ اِس آیت کا مفہوم یہ کہ جس دن کھا نا آئے وہ دن خوشی کا ہو اور اب تک عیسائی اس دن خوشی مناتے رہیں تو کیا وجہ ہے جس دن نبی پاک تشریف لائے کیوں نہ خوشی کریں ”
جواب:
سورت المائدہ کی آیت نمبر 114 مندرجہ ذیل ہے :
﴿قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اُسکا نازل ہونا) ہمارے لیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے ، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی ، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے ۔ (سورت المائدہ آیت 114)
اس آیت میں عیسائیوں کے لیے تو مائدہ نازل ہونے والے دن کو خوشی منانے کی کوئی دلیل ہو سکتی ہے ، مسلمانوں کے لیے ” عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ” منانے کی نہیں۔ انتہائی حیرت بلکہ دُکھ کی بات ہے کہ ان لوگوں کو اس بنیادی اصول کا بھی پتہ نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم سابقہ امتوں کے کاموں کو بنیاد بنا کر نہیں لیا جاتا سوائے اُس کام کے جو کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برقرار رکھا گیا ہو۔
(سابقہ شریعتوں کے احکام کے بارے میں میرے مضمون ”سابقہ شریعتوں کا شرعی حکم“ کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید ہو گا)
اور شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ اہل سنت والجماعت یعنی سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے مطابق عمل کرنے والوں میں سے کبھی کسی نے بھی گزری ہوئی اُمتوں یا سابقہ شریعتوں کو اسلامی کاموں کے لیے دلیل نہیں جانا ، سوائے اُس کے جس کی اجازت اللہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جس کام کی اجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات ‘ ”علم الاصول الفقۃ“ میں طے ہے کہ :
باب العبادات و الديانات والتقربات متلقاة عن الله و رسوله صلى الله عليه وسلم فليس لأحد أن يجعل شيا أعبادة أو قربة إلا بدليل شرعي ”یعنی عبادات ، عقائد ، اور (اللہ کا) قرب حاصل کرنے کے ذریعے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے ملتے ہیں لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز کو عبادت یا اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو ۔“ یہ قانون اُن لوگوں کی اُن تمام باتوں کا جواب ہے کہ جن میں انہوں نے سابقہ امتوں یارسولوں علیہم السلام کے اعمال کو اپنی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دلیل بنایا ہے ۔ اور اگر یہ لوگ اس بنیادی اصول کو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے آپ اور اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیتے ہیں تو یہ نہ جاننے سے بڑی مصبیت ہے ، تیسری کوئی صورت ان کے لیے نہیں ہے کوئی ان کو بتائے کہ عیسائی تو کسی مائدہ کے نزول کو خوشی کا سبب نہیں بناتے اور اگر بناتے بھی ہوتے تو ہمارے لیے اُن کی نقالی حرام ہے ، جیسا کہ ہمارے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میر اسب کچھ اُن پر فدا ہو ، نے فرمایا ہے : :
من تشبه بقوم فهو منهم ”جس نے جس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی (یعنی اُسی قوم )میں سے ہے۔“ سنن أبو داؤد / حدیث 4025/کتاب اللباس / باب لبس الشهرة –
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فیصلہ صادر فرمادیا ہے لہذا جو لوگ جن کی نقالی کرتے ہیں اُن میں سے ہی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غیر مسلموں کی ہر قسم کی نقالی سے محفوظ رکھے۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی پانچویں دلیل
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے اور منوانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کا کہنا ہے کہ سورت یونس کی آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ملنے پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے کیونکہ آیت میں امر یعنی حکم کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور حضور اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں لہذا ان کی پیدائش پر خوشی کرنا اللہ کا حکم ہے، اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں تو کیا غلط ہے ؟
جواب:
سورت یونس کی آیت نمبر 58 کا مضمون سابقہ آیت یعنی آیت نمبر 57 کے ساتھ مل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں آیات مندرجہ ذیل ہیں ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ . قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ .﴾ اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نصیحت آچکی ہے اور اور جو کچھ سینوں میں ہے اُسکی شفاء اور ہدایت اور ایمان والوں کے لیے رحمت ۔ ( اے رسول) کہیے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (سے ہے) لہذا مسلمان اس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے، لیکن ! سوال پھر وہی ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین یا تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً اور اُنکے بعد صدیوں تک اُمت کے اماموں میں سے کسی نے بھی اس آیت میں دیے گئے حکم پر ” عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ” منائی؟ یا منانے کی ترغیب ہی دی؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ملتی ہے ؟ اگر میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے کلمہ گو بھائیوں نے اس آیت کی تفسیر، کیسی معتبر تفسیر میں دیکھی ہوتی تو پھر یہ لوگ اس فلسفہ زدہ من گھڑت تفسیر کا شکار نہ ہوتے ،جس کو اچھی کاروائی کی دلیل بناتے ہیں،
امام البیہقی نے ” شعب الایمان ” میں مختلف اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ :
” قل بفضل الله و برحمته فبذلك فليفرحوا قال : فضل الله القرآن، ورحمته الإسلام قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا کے بارے میں کہا اللہ کا فضل قرآن ہے اور اللہ کی رحمت اسلام ہے۔ (شعب الایمان باب فصل فی التکثیر بالقر آن و الفرح به)
اور دوسری روایت میں ہے کہ :
فضل الله الإسلام، ورحمته أن جعلكم من أهل القرآن فضل الله إسلام ہے اور رحمت یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں قرآن والوں ( یعنی مسلمانوں) میں بنایا۔ (شعب الایمان باب فصل فى التكثير بالقرآن والفرح به)
اور ایک روایت ہے کہ : کتاب اللہ اور اسلام اُس سے کہیں بہتر ہے جس کو یہ جمع کرتے ہیں ۔
یعنی دُنیا کے مال و متاع سے یہ چیزیں کہیں بہتر ہیں لہذا دنیا کی سختی یا غربت پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ان دو نعمتوں کے ملنے پر خوش رہنا چاہیئے، امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو عراق سے خراج وصول ہوا تو وہ اپنے ایک غلام کے ساتھ اُس مال کی طرف نکلے اور اونٹ گننے لگے ، اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : الحمد لله تعالىٰ
تو ان کے غلام نے کہا :
یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے ۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :
تم نے جھوٹ کہا ہے ، یہ وہ چیز نہیں جس کا اللہ نے ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ ”( اے رسول) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ( سے ہے) لہذا اس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے۔ “ میں ذکر کیا ہے بلکہ یہ ﴿مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ ”جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں“ میں سے ہے۔
محترم قارئین ، غور فرمائیے اگر اس آیت میں اللہ کے فضل اور رحمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوتے اور خوش ہونے سے مراد اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی عید منانا ہوتی تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اسکا حکم دیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کام ہمیں قولاً و فعلاً ملتا، عمر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو مندرجہ بالا تفسیر بتانے کی بجائے یہ بتاتے کہ ﴿فَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ﴾ سے مراد یہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہیں اور اُن کی پیدائش کی خوشی یا عند منانا ہے ۔
اس آیت میں فلیفرحوا ﴿فَلْيَفْرَحُوْا﴾ کو دلیل بنانے کے لیے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی کچھ بات لعنت کی بھی لاتے ہوئے ﴿فَلْيَفْرَحُوْا﴾ میں استعمال کیئے گئے امر یعنی علم کے صیغے کی جو بات کرتے ہیں، آئیے اُس کا بھی لغتاً کچھ جائزہ لیں ، آیت میں خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے خوشی منانے کا نہیں ، اور دونوں کاموں کی کیفیت میں فرق ہے ، اگر بات خوشی منانے کی ہوتی تو ﴿فَلْيَفْرَحُوْا﴾ کی بجائے فليحتفلوا ہوتا ، پس خوش ہونے کا حکم ہے نہ کہ خوشی منانے کا۔
کسی طور بھی کسی معاملے پر اللہ کی اجازت کے بغیر خوامخواہ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ، چہ جائیکہ خوشی منانا اور وہ بھی اسطرح کی جس کی کتاب اللہ اور سنت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی۔
سورت القصص / آیت 76 میں قارون کی قوم کا اُس کو نصیحت کرنے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں ﴿لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ (دُنیا کے مال و متاع پر ) خوش مت ہو ، اللہ تعالیٰ خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
پس یہ بات یقینی ہو گئی کہ ہم نے کہاں اور کیسی بات پر اور کیسے خوش ہونا ہے اُس کا تعین اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اُن کے احکام مطابق کیا جائے گا، نہ کہ اپنی مرضی ، منطق logic اور فلسفہ سے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آیت 170 میں خوش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :
﴿فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ﴾ اللہ نے اُن لوگوں کو اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے اُس پر وہ خوش ہوتے ہیں ۔
اور ہماری زیر بحث آیت میں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے عطاء کر دہ چیزوں پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے، خوش ہو کر کوئی نیا عقیدہ یا کوئی نئی عبادت یا کوئی نئی عادت اپنانے کا حکم یا اجازت نہیں دی،
امام القرطبی نے ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ﴾ کی تفسیر میں لکھا کہ :
الفرح لذة فى القلب بإدارك المحبوب خوشی اس کیفیت کا نام ہے جو کوئی پسندیدہ چیز ملنے پر دل میں پیدا ہوتی ہے ۔
اور لغت کے اماموں میں سے ایک امام محمد بن مکرم نے ” لسان العرب ” میں لکھا کہ فرح ، هو نقيض الحزن خوشی اس کیفیت کا نام ہے جو غم کی کمی سے پیدا ہوتی ہے اور شیخ محمد عبد الرؤف المناوی نے ” التوقيف على مهمات التعریفات ” میں لکھا کہ الفرح لذة فى القلب لنيل المشتهى خوشی اس لذت کا نام ہے جو کوئی مرغوب چیز حاصل ہونے پر دل میں پیدا ہوتی ہے۔
صحابہ کی تفسیر اور لغوی شرح سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ خوشی دل کی کیفیت کا نام ہے کسی خاص دن کسی خاص طریقے پر کوئی عمل کرنا نہیں ، سوائے اُس کے جس کی اجازت اللہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جس کام کی اجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات ” علم الأصول الفقہ ” میں طے ہے ، جیسا چند صفحات پہلے اس کا ذ کر کیا گیا ہے۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی چھٹی دلیل
عید میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی، سورت الصف کی آیت نمبر 6 کے متعلق کہتے ہیں کہ ” اس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اسی طرح عید میلاد کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔
جواب:
سورت الصف کی آیت نمبر 6 یہ ہے:
﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ اور جب عیسی نے بنی اسرائیل کو کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تم لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے تورات میں ہے اور خوشخبری دینے والا ہوں اُس رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے اور اُس کا نام احمد ہے ، ( پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے آنے کے بعد بنی اسرائیل کے رویے کے بارے میں فرماتے ہیں) اور پھر جب یہ رسول ( أحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس آیا تو کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے .
خوشی منانے اور خوشی ہونے میں کیا فرق ہے اس کے متعلق پہلے کچھ بات ہو چکی ہے ، اور کسی بات کی خوشخبری دینا تو ان دونوں سے بالکل ہٹ کر مختلف کیفیت والا معاملہ ہے۔
اور پھر اس آیت میں بیان کردہ یہ واقعہ بھی، بہت سے اور واقعات کی طرح سابقہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات میں سے ایک ہے ، اور سابقہ امتوں یا انبیاء علیهم السلام کے واقعات کو دلیل بنانے کا حکم کیا ہے ؟ اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے ، اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ سابقہ امتوں یا انبیاء علیهم السلام کے ہر واقعہ کو دلیل بنایا جا سکتا ہے تو پھر بھی ! ! ! عیسی علیہ السلام کی اس بات میں کونسی دلیل ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی عید منائی جائے ؟ کیا اس میں اشارۃً بھی کہیں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے آنے کی خوشخبری کو اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کے بعد یا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد عید بنایا جائے ؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر وہی سوال دہراتا ہوں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین، تبع تابعین ، اُمت کے امام اور علۃ مسلمین کسی کو بھی صدیوں تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس آیت میں کس بات کی دلیل ہے اور اس آیت کی روشنی میں کیا کرنا چاہیئے ؟
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی ساتویں دلیل
عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی، اپنے طور پر اپنے اس کام کو سنت کے مطابق ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اس دن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی ، خود ولادت پر خوشی منانا ہے ۔
جواب :
ان کی اس بات کا ایک حصہ تو صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دن پیر یعنی سوموار ہے ، اور وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے ، اس بیچ سے انکار کفر ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث 1162 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان ملتا ہے :
ذاك يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل على فيه اس دن میں پیدا ہوا تھا اور اس دن مجھ پر وحی اتاری گئی تھی یا (یہ فرمایا کہ) اس دن مجھے مبعوث کیا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم /کتاب الصوم /باب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ )
لیکن یہ کہاں ہے کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یا کسی ایک صحابی نے ، یا تابعین نے یا تبع تابعین نے ، یا امت کے ائمہ میں سے کسی نے بھی کوئی عید منائی، اور یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ اُن کی پیدائش کی خوشی ہے عید میلاد منوانے والوں کی طرف سے خلاف حقیقت بات کیوں کی جاتی ہے اسکا فیصلہ ان شاء اللہ آپ لوگ خود بخوبی کر لیں گے ، جب آپ صاحبان کو پتہ چلے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس دن یعنی پیر کا روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟ ذرا توجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے یہ چندار شادات ملاحظہ فرمائیے :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا تعرض أعمال الناس فى كل جمعة مرتين يوم الاثنين ويوم الخميس فيغفر لكن عبد مؤمن إلا عبدا بينه وبين أخيه شحناه فيقال اتركوا أو اركوا هذين حتى يفينا پیر اور جمعرات کے دنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اس ایمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو ، سوائے اُنکے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے ( یعنی انکے معاملے میں کہا جاتا ہے ) انکو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں۔ ( صحیح مسلم /کتاب البر والصلة باب النهي عن الشحناء و التهاجر ، صحیح ابن حبان ، مجمع الزوائد)
اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ‘ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا : ”پیر اور جمعرات کے دن اللہ بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے سوائے ایک دوسرے کو چھوڑ دینے والوں کے ( یعنی ناراضگی
کی وجہ سے ایک دوسرے کو چھوڑ دینے والے تو ) اُن چھوڑ دینے والے کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں صلح کرنے تک کی مہلت دی جائے۔ “ سنن الدارمی/حدیث 1750 ، مصباح الزجاجه / حدیث 629 – امام احمد الکنانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اوپر بیان کردہ احادیث کے بعد کسی بھی صاحب عقل کو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پیر کے دن کا روزہ اپنی پیدائش کی خوشی میں نہیں بلکہ اس دن اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش ہونے کی وجہ سے رکھا ہے۔
اگر پیر کے دن نفلی روزہ رکھنے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش ہوتا تو کم از کم وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس کی ترغیب ہی دیتے، مندرجہ بالا دو احادیث کے بعد یہ حدیث بھی بغور ملاحظہ فرمائیے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الصيام / باب استحباب صيام ثلاثة ايام من كلِ شہر میں ابی قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اُن کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم غصے میں آگئے ( تو رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو غصے میں دیکھ کر) عمر ( رضی اللہ عنہ) نے کہا "ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر ، اور ہماری بیعت ، بیعت ہے ( یعنی جو ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیعت کی ہے وہ سچی پکی بیعت ہے)”۔
ابی قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے صیام الدہر ( ہمیشہ مستقل روزے میں رہنا ) کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا لا صامر ولا أفطر ایسا کرنے والے نے نہ روزہ رکھانہ افطار کیا ۔
پھر ابی قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ومن يطيق ذلك ایسا کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے ؟
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ليت ان الله قوانا لذلك کاش اللہ ہمیں ایسا کرنے کی طاقت دے دے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو ایک افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ذلك صوم اخي داؤد (عليه السلام) یہ میرے بھائی داؤد (علیہ السلام) کاروزہ ہے ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پیر (سوموار ) کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ذلك يوم ولدت فيه ويولد بعثت فيه اس دن میری پیدائش ہوئی اور اِس دن میری بعثت ہوئی (یعنی مجھے رسالت دی گئی ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا: صوم ثلاثة من كل شهر، و رمضان إلى رمضان صوم الدهر رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے یوم عرفات کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:يكفر السنة الماضية و الباقية ”ایک پچھلے سال اور رواں سال کے گناہ معاف کرواتا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دس محرم کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: يكفر السنة الماضية” پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کرواتا ہے ۔“
اس حدیث کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مختلف نفلی روزں کے بارے میں پوچھا گیا اور انہوں نے اُسکی وجہ بتائی اور آخر میں یہ فرمایا کہ ”رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے۔ “ یعنی سوموار کا روزہ رکھنے کی کوئی ترغیب بھی نہیں دی، کوئی اضافی ثواب نہیں بتایا ، جیسا کہ عرفات اور عاشوراء کے روزوں کا فائدہ بیان کرنے کے ذریعے اُن کی ترغیب دی ہے ، تو ، اس حدیث میں زیادہ سے زیادہ سوموار کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے ، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش منانے کا۔
میلا د منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کے بیان کردہ فلسفے کے مُطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ سب یعنی ان کے پیر اور مرید سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت کے مُطابق ہر سوموار کا روزہ رکھیں اور خاص طور پر جس دن کو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دن سمجھ رکھا ہے اُس دن حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ڈھول ڈھمکا، رقص و قوالی اور گانوں کے راگ لگا لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ذکر کرنے کی بجائے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے کی بجائے ، ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام پر چندوں کے ذریعے ہر کس و ناکس کا مال کھانے کی بجائے روزہ رکھیں اور پھر لوگوں کے مال پر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ کی حلال کمائی سے اُسے افطار کریں ، لیکن ! ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نفس پر بھاری ہے اور پہلے کام نفس کو محبوب ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام لے کر وہ کام پورے کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے ذاتی خواہشات پوری ہوں، جی، میلاد منوانے اور منانے والوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ان خرافات کو جائز نہیں کہتے، لیکن اپنی ہی سجائی ہوئی محفلوں میں کچھ نام ، اور کچھ انداز تبدیل کر کے کچھ اور طرح سے تسکین نفس کا سامان کر لیتے ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی آٹھویں دلیل
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا اور اُس کے اس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے ، پس اس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعث ثواب ہے ۔
جواب :
یہ بات صحیح البخاری ، کتاب النکاح کے باب نمبر 20 کی تیسری حدیث کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اور یہ حدیث نہیں بلکہ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ و ثويبة لابى لهب وكان ابولهب اعتقها فارضعت النبى صلى الله عليه و على آله وسلم ، فلما مات ابو لهب أريه بعض اهله بشر حيبة ، قال له : ماذا لقيت قال ابولهب : لم الق بعدكم ، غير ان سقيت فى هذه بعتاقتى ثويبة
اور اس بات کو امام البیہقی نے سنن الکبری میں ، کتاب النکاح کے باب ” ما جاء فى قول الله تعالى و إن تجمعوا بين الاختین میں الفاظ کے معمولی سے فرق سے نقل کیا ہے اُن کے نقل کر دہ الفاظ یہ ہیں لم الق بعد كم رخاء ، غير اني سقيت فى هذه منى بعتاقتى ثويبة و اشار الي النقيرة التى بين الإبهام و التى تليها من الاصابع
اور امام ابو عوانہ نے اپنی مسند میں ” مبتداء كتاب النكاح و ما يشاكله ” کے باب تحريم الجمع بين الاختين و تحریم نکاح الريبة التي هي تربية الرجل و تحريم الجمع بين المراة وإبنتها میں ان الفاظ کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا لم الق بعدكم راحة ، غير اني سقيت فى هذه النقيرة التى بين الإبهام والتي تليها بعتقى ثويبة
سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات حدیث نہیں، بلکہ ایک تابعی کی بات ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے بلا سند بیان کی ہے ، جسے تعلیق کہا جاتا ہے ، اور یہ بات مجھ جیسا معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ نے اپنی صحیح البخاری میں جو کچھ تعلیقاًر وایت کیا ہے وہ ان کی شرائط کے مطابق صحیح نہیں، چلیے قطع نظر اس کے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں صحیح تھی یا نہیں ، ذرا غور فرمائیے کہ اس بات میں سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے عذاب میں اپنی باندی آزاد کرنے کی نیکی کی وجہ سے کچھ نرمی کر دی، جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی کر دی گئی، اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ابو لہب کافر تھا، اور کفر کی حالت میں ہی مرا، اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے والی اپنی باندی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا تو اس لیے نہیں کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں، بلکہ اس خوشی میں کیا تھا اس کے فوت شدہ بھائی عبد اللہ بن عبد المطلب کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، اگر اسے اپنے بھتیجے کے رسول اللہ ہونے کی خوشی ہوتی تو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ ابو لہب پہلے ایمان لانے والوں میں ہوتا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بڑے مخالفین میں۔
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اس بات کی شرح کرتے ہوئے ” فتح الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھا السہیلی نے لکھا کہ یہ خواب عباس بن عبد المطلب ( رضی اللہ عنہ ) نے دیکھا تھا پھر چند سطر کے بعد لکھا یہ خبر مراسل ہے یعنی عروہ بن الزبیر نے یہ بیان نہیں کیا کہ انہوں نے یہ بات کس سے سُنی ، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر مرسل نہیں، پھر بھی اس میں بیان کیا گیا واقعہ ایک خواب ہے اور جس نے یہ خواب دیکھا ، خواب دیکھنے کے وقت وہ کافر تھا مسلمان نہیں ۔
اور میں یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے یہ خواب اسلام قبول کرنے کے بعد دیکھا تھا تو بھی خوابوں کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا فیصلہ یہ ہی ہے کہ خوابوں میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، یہ ایک دینی مسئلہ ہے اور ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق عقیدے اور عبادت دونوں سے ہے ، دین کے کسی بھی مسئلے کا حکم جاننے کے لیے مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک چیز کی دلیل کا ہونا ضروری ہے :
(1) قرآن (2) صحیح حدیث (3) آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ،
” اثر“ کا مطلب ہے نشانی ، یا نقش قدم ، اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اقوال و افعال کو ”مصطلح الحدیث “ یعنی علم حدیث کی اصطلاحات میں ”آثار“ کہا جاتا ہے ، اور کچھ محدثین ”آثار“ کا اطلاق ”حدیث“ پر بھی کرتے ہیں ، اور اسکا عکس بھی استعمال ہوتا ہے ، (4) اجماع (5) اجتہاد یا قیاس :
عبادت اور عقیدے کے مسائل میں اجتہاد یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں، اس کے لیے قرآن اور صحیح حدیث دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک میں سے نص صریح یعنی واضح دلیل کا ہونا ضروری ہے اگر قرآن اور حدیث میں سے کوئی صریح نص یعنی بالکل واضح جواب نہ مل سکے تو پھر اجماع اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف توجہ کی جاتی ہے ، اور ان تمام مصادر میں عید میلاد النبی منانے یا کرنے کی کوئی علامت تک بھی نہیں ملتی ، کسی بات کو اپنی مرضی کے معنی یا مفہوم میں ڈھالنے کی کوشش سے حقیقت نہیں بدلتی ، بات ہو رہی تھی دینی احکام کے مصادر کی ، اہل تصوف کی طرف الہام یا خواب کو بھی دینی حکم لینے کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اور دلیل کے طور پر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس فرمان کو پیش کرتے ہیں کہ الرويا الصالحة جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة” اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“ یہ حدیث یقینا صحیح ہے، لیکن ! یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟ اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟ آئیے ان سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامینِ مبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :
الرؤيا الصالحة جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ یہ حدیث یقینا صحیح ہے ، لیکن !
یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کسں کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟
اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟
آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا الرؤيا الحسنة من الرجل الصالح جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة ” کسی ایمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ “ صحیح البُخاری /حدیث 6983/کتاب التعبیر/ باب رقم 2 کی پہلی حدیث، اور فرمایا رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة کسی ایمان والے کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ صحیح مسلم ، حدیث 2263
ان دونوں احادیث میں ہمارے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات ہیں ، اور وہ یہ کہ نہ تو ہر کسی کا خواب مانے جانے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر خواب، بلکہ صرف پر ہیز گار، ایمان والے کا اچھا خواب ، کسی کافر، مشرک ، بدعتی ، یا بد کار مسلمان وغیرہ کا نہیں،
امام ابن حجر نے صحیح البخاری کی شرح فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں امام القرطبتی کا یہ قول نقل کیا سچا ، متقی ، پرہیز گار مسلمان ہی وہ شخص ہے جس کا حال نبیوں کے حال سے مناسبت رکھتا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے ذریعے نبیوں کو بزرگی دی اُن میں سے ایک چیز غیب کی باتوں کے بارے میں کوئی خبر دیتا ہے پس کسی بچے ، متقی، پرہیز گار مسلمان کو اللہ اس ذریعے بزرگی دیتا ہے ( یعنی اُس کو سچا خواب دکھاتا ہے ) ، لیکن ، کافر یا بدکار مسلمان یا جس کا حال دونوں طرف ملا جلا ہو، ایسا شخص ہر گز اس بزرگی کو نہیں پا سکتا، اگر کسی وقت کسی ایسے شخص کو سچا خواب نظر بھی آئے ، تو اُس کا معالمہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی انتہائی جھوٹا آدمی بھی کبھی سچ بول ہی دیتا ہے ، اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ ہر وہ شخص جو غیب کی کوئی بات بتاتا ہے اُس کی بات نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے ، جیسا کہ جادو گر اور نجومی وغیرہ باتیں کرتے ہیں۔
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی کافر، مشرک ، بدعتی ، یا بدکار مسلمان کا سچا خواب اُس کی بزرگی کی دلیل بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اُسے دین میں کسی عقیدے یا عبادت کی دلیل بنایا جائے ، سچے خواب تو یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھیوں اور اُس ملک کے بادشاہ نے بھی دیکھے تھے اور وہ تینوں ہی کافر تھے ، اب اللہ ہی جانے عباس رضی اللہ عنہ کا حالت کُفر میں دیکھا ہوا ایک خواب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ؟
اس خواب سے زیادہ سے زیادہ اس بات کی دلیل لی جاسکتی ہے کہ کسی کافر کو بھی اُس کے اچھے عمل کا آخرت میں فائدہ ہوگا، اور یہ درست ہے یا نہیں یہ ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں ، ہمارے لیے یہ بات صحیح احادیث کے ذریعے واضح ہو چکی ہے کہ کسی سچے ، متقی ، پرہیز گار ایمان والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر سچا خواب دکھایا جائے تو نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے ، اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ شریعت کے حکم لینے کے جن ذرائع پر ہمیشہ سے اہل سنت و الجماعت کا اتفاق رہا ہے اُن میں خوابوں یا الہامات کا کوئی ذکر نہیں۔
پچھلے چند صفحات میں ، میں نے کئی بار اہل سنت و الجماعت کے الفاظ استعمال کیئے ہیں، مختصراً ان کی وضاحت کرتا چلوں تا کہ پڑھنے والوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو ، انشاء اللہ ، ” اہل سنت والجماعت ” اُن کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت کے پابند ہوتے ہیں اور اُس طرح پابند ہوتے ہیں جس طرح کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت تھی ، اپنی من گھڑت عبادات یا اپنے من گھڑت عقائد یا اپنے من گھڑت افکار و تشریحات اختیار کرنے والے ” اہل سنت و الجماعت ” نہیں ہوتے ، اور نہ وہ ہوتے ہیں جو قرآن اور حدیث کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اُن کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کا راستہ نہیں اپناتے بلکہ اُن کے اپنے ہی امام اور پیران طریقت ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد اور تعصب کا شکار نہ ہوں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات و فرامین کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل کے مطابق سمجھیں ، اور جو کچھ اس کے مطابق نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں اُسے ترک کر دیں۔
عید میلادالنبی بد میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی نویں دلیل
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ ‘میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے اور یہ کام تو صحابہ بھی کیا کرتے تھے ، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟
جواب:
جی ہاں یہ درست ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدح کرتے تھے اور نعت کرتے تھے ، لیکن کیا کبھی میلاد منوانے اور منانے والے مسلمانوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کے دن کو خاص کر کے ایسا کرتے تھے ؟ یا کوئی خاص وقت اور طریقہ یا جگہ مقرر کیا کرتے تھے ؟ یا گانے بجانے والوں اور والیوں کے انداز بلکہ اُن کے گانوں کی لے و تال پر نعت گایا کرتے تھے ؟ یقینا صحابہ رضوان اللہ علیہم ایسا نہیں کیا کرتے تھے ، اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا نہیں کیا کرتے تھے تو ان لوگوں کا ایسا کرنا یقینا بدعت ہے ، رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نعت بیان کرنا تو اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت کرنے والا ہر مسلمان کرتا ہے ، لیکن شرک و کفر کے ساتھ نہیں، جیسا کہ کچھ کی نعت بازی میں نظر آتا ہے ، بر سبیل مثال یہ شعر ملاحظہ فرمائیے ، یہ بھی ایسی ہی ایک نعت کا حصہ ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے منہج کے خلاف ہو کر کی گئی ہے ، اپنی منطق اور اپنے فلسفے کے مطابق کی گئی ہے :
وہی جو مستویٰ عرش تھا خدا ہو کر ، اتر پڑا مدینے میں مصطفیٰ ہو کر
اور صرف اسی پر بس نہیں اور بھی ایسے کئی اشعار اور اقوال ہیں جو صریح کفرا و شرک سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ان کو لکھنے، پڑھنے ، سننے والے مسلمان بھائی اور بہنیں ان کی حقیقت نہیں جانتے ،
إنا لله وإنا إليه راجعون ، کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعریف و مدح اس طرح کیا کرتے تھے ؟ کہ انہیں اللہ بنا دیتے تھے؟
کیا میرے ان کلمہ گو بھائیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت زیادہ محبت ہے ؟
اگر ہاں، تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح سنت کی اتباع کیوں نہیں ہوتی، بلکہ ایسے کام کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت سنت میں ہے ہی نہیں، جیسا کہ اب تک کی بحث و تحقیق میں واضح ہو چکا، اور ان شاء اللہ ابھی مزید وضاحت آگے کروں گا۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی دسویں دلیل
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں انکی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کوئی محبت نہیں ، وہ محروم ہیں ‘، بلکہ اس سے کہیں زیادہ شدید الفاظ استعمال کرتے ہیں ، جن کو ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔
جواب :
دلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی پیدائش کی بہت خوشی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا دین ہم تک پہنچانے کے لیے انہیں مبعوث فرمایا، اور دین دنیا اور آخرت کی ہر خیر ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دنیا سے اُٹھا لیا، وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم وفات پاچکے، نزول و وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا، تو ساری خوشی رخصت ہو جاتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفات کا غم اُن کی پیدائش کی خوشی سے بڑھ کر ہے، کہ دل نچڑ کر رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں سے بنائے جن کی زندگیاں اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کی عین اتباع میں بسر ہوتی ہیں اور ہر بدعت سے ہمیں محفوظ فرمائے ، اُن سے نہ بنائے جنہیں بدعات پر عمل کرنے کی وجہ سے روز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حوض مبارک سے ہٹا دیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن کے لیے بد دعا کریں گے،
چلتے چلتے یہ حدیث مبارک بھی ملاحظہ فرمائیے ، اور بدعت حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اني فرحكم على الحوض من مرعى شرب ومن شرب لم يطباء ابد اليردن على أقوا ما أعرفهم ويعرفون ثم يحال بيني وبينهم فأقول إنهم منى ، فيقال إنك لا تدرى ما أحدثوا بعدك ، فأقول سحقا سحقا لمن غير بعدي میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے (پھر) بھی پیاس نہیں لگے گی ، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں انہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے (کہ یہ میرے امتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں) ، پھر اُن کے اور میرے درمیان کچھ (پردہ وغیرہ) حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے امتی ہیں ، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ) کہے گا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیئے ، تو میں کہوں گا دور ہو دور ہو ، جس نے میرے بعد تبدیلی کی ۔
و قال ابن عباس سحقا بعدا سحيق بعيد سحقة ، واسحقه أبعده اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سحقا یعنی دُور ہونا ، صحیح البخاری /حدیث 6583 ، 6584 / كتاب الرقاق / باب فى الحوض ، صحیح مسلم /حدیث 2290، 2291 / کتاب الفضائل / باب اثبات حوض نبینا صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم و صفاتہ ۔
محترم قارئین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ان فرامین پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیے ، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے ، اور اللہ تعالیٰ نئے کام کرنے والوں کو حوضءِ ، رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ہٹوائیں گے ، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر ، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی ” بدعت حسنہ ” کرنے والوں کو چھوڑ دیا جائے ، غور فرمائیے ، بدعت دینی اور بدعت دنیاوی ، یا یوں کہیئے ، بدعت شرعی اور بدعت لغوی میں بہت فرق ہے اور اس فرق کو سمجھنے والا بھی ”بدعت حسنہ اور سیئہ“ کی تقسیم کو درست نہیں مانتا،
بدعت کے موضوع پر الگ سے کچھ گفتگو ہو چکی ہے اور تحریری صورت میں بھی میسر ہے ، یہاں اس موضوع کو زیر بحث لاکر میں اپنی اس کتاب کے موضوع کو منتشر نہیں کرنا چاہتا ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے معاملے کو سمجھنے کے لیے اور اسی نوعیت کے ہر معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یقینا بدعت کے بارے میں وہ سب معلومات ضرور جاننی اور سمجھنی چاہیں،
کوئی ان سے پوچھے تو کیا معاذ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُن . ن اور اُن کے بعد تابعین، تبع تابعین اور چھ سو سال تک امت کے کسی عالم کو کسی امام کو ،نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت نہیں تھی ؟
کیا محبت کے اس فلسفہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم نہ سمجھ پائے تھے کہ وہ اس بات کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی عید مناتے ، یا تابعین یا تبع تابعین، یعنی سبحان اللہ عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کو محبت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا وہ مفہوم سمجھ میں آگیا جو درست ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین، تبع تابعین چھ ساڑ ہے چھ سو سال تک اُمت کے علما اور ائمہ رحمہم اللہ جمعیا بے چارے غلطی پر رہے
اور مزید کہتا ہوں کہ :
نہیں نہیں یہ عشق نہیں ہے ، جمع خرچ ہے زبانی : وہ کیا عشق ہوا، جس میں محبوب کی ہے نافرمانی
حب ووفاء کو دی صحابہ نے نئی تب و تاب جاودانی : اور تمہارا عشق ہے اُن کے عمل سے رو گردانی
( توجہ کیجیے گا کہ ، ان اشعار میں لفظ عشق کتاب کے موضوع کی مناسبت سے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اس کے لغوی مفہوم کی نسبت سے )
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی گیارھویں دلیل
عید میلاد منوانے اور پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ تلاوت فرمائی۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں۔ (یوم جمعہ اور یوم عرفہ) ( مشکوۃ شریف صفحہ 121) مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کو بھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص خاص اس دن بطور یادگار عید منانا، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہو نا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہو نا واضح وظاہر ہو گیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا۔
جواب:
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا جو اثر یہ صاحبان ذکر کرتے ہیں، وہ واقعہ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا ہے جیسا کہ کتب ستہ، اور زوائد میں روایت ہے، اور عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات صرف ”سنن الترمذی“ میں روایت کی گئی ہے اور امام الترمذی نے خود کہا ہے کہ یہ روایت حسن غریب ہے،
اصولاً ہونا یہ چاہیے کہ جو روایت زیادہ صحت مند ہے اُس کو دلیل بنایا جانا چاہیے، لیکن کیا کہوں کہ ، صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو سرسری انداز میں” مرقات شرح مشکوۃ“ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے لکھنا، کیا ثابت کرنے کو کوشش محسوس ہوتی ہے !جبکہ صاحب مرقاۃ نے تو عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا والی روایت کے بعد پہلے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بخاری کے حوالے سے ذکر کیا ہے، اور پھر طبرانی کے حوالے سے ، لیکن ہمارے یہ بھائی بات کو کاٹ چھانٹ کر ، آگے پیچھے کر کے کیوں لکھتے ہیں ؟ دلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، جو نظر آتا ہے ہر صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے۔
قطع نظر اس کے کہ یہ واقعہ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا ہے یا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا، غور کرنے کی بات یہ کہ ، یہودی کے جواب میں کیا ان دونوں صحابیوں میں سے کسی نے بھی یہ کہا کہ ہاں ہم بھی اِس دن کو عید بنا لیتے ہیں ؟
کیا کسی نے بھی یہ سوچا یا سمجھا کہ اگر یوم عرفہ ، یوم عید ہو سکتا ہے تو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم والا دن بھی عید ہو سکتا ہے ، یا جس دن کوئی خوشی یا کوئی نعمت ملی ہو اُس دن عید منائی جا سکتی ہے ، تو خود سے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟
تیسری، چوتھی اور پانچویں دلیل کے جواب میں رحمت و نعمت ملنے پر عید منانے کے بارے میں پہلے بات کر چکا ہوں۔
قارئین کرام ، ان دونوں صحابیوں رضی اللہ عنہما کے جواب پر غور فرمائیے ، یہودی نے کہا اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے ۔ اُنہوں نے اس یہودی کو دن گنا کر بتایا کہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی لیکن ہماری عیدیں مقرر ہیں، ہم اپنی طرف سے کوئی اور عید نہیں بنا سکتے ۔
مزید یہ کہ جلیل القدر محدث ملا علی القاری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے لفظ ” عید ” ہر خوشی کے دن کے لیے استعمال ہونے کا ذکر کر کے اپنی عید میلاد کے لیے دلیل بناتا بڑا ہی عجیب و غریب معاملہ ہے۔
قطع نظر اس کے کہ لفظ ” عید ” کا لغوی اور شرعی مفہوم کیا ہے ؟
اور قطع نظر اس کے کہ دین کے کسی کام ،عبادت یا عقیدے کو اپنانے کے لیے اللہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے واضح حکم در کار ہوتا ہے، ، نہ کہ کسی کی کوئی بات، اور قطع نظر اس کے کہ عید ہونا اور عید منانا دو مختلف کیفیات ہیں، اور ان کا مختلف ہونا ہمیں لغت اور شریعت میں قولاً و فعلاً ملتا ہے ، یہ بحث پھر کبھی اِن شاء اللہ۔
میں یہاں صرف اس بات پر افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ عید میلاد منوانے والے بھائیوں نے کس طرح علامہ ملا علی القاری رحمہ اللہ علیہ کی بات کو نامکمل اور سیاق وسباق کے بغیر لکھ کر اپنی بات اور عمل کے جائز ہونے کی دلیل بنایا ہے،
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح / كتاب الصلاة / باب الجمعة فصل الثالث، میں علامہ ملا علی القاری رحمتہ اللہ علیہ نے عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا:
قال الطيبي فى جواب ابن عباس لليهودي إشارة إلى الزيادة فى الجواب يعني ما تخذناه عيدا واحدا بل عيدين و تكرير اليوم تقرير لاستقلال كل يوم بها سمي به واضافة يوم إلى عيدين كاضافة اليوم إلى الجمعة أى يوم الفرح المجموع والمعنى يوم الفرح الذى يعودون مرة بعد أخرى فيه إلى السرور قال الراغب العيد ما يعاود مرة بعد أخرى وخص فى الشريعة بيوم الفطر ويوم النحر ولما كان ذلك اليوم مجعولا للسر ورفى الشريعة كما نبه النبى بقوله أيام بعولاللسرور منى أيام أكل وشرب و بعال صار يستعمل العيد فى كل يوم فيه مسرة
یہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں جسے عید میلاد کی دلیل بنایا جائے ، اگر ایسا ہوتا تو علامہ علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ اِس کا ذکر کرتے ، نہ کہ لفظ ” عید ” کا معنی و مفہوم بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ، جبکہ علامہ صاحب 1014 ہجری میں فوت ہوئے اور اُس وقت عید میلاد کی بدعت مسلمانوں میں موجود تھی ، اور علامہ صاحب مسلکاً حنفی بھی تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہاں اس آیت اور عبد اللہ ابن عباس یا عمر رضی اللہ عنہم کے قول کو عید میلاد کی دلیل ہونے کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کیا ، افسوس صد افسوس، ضد اور تعصب میں اپنے ہی مسلک کے علماء پر یوں ظلم کیا جاتا ہے کہ اُن کی باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جس طرح انہوں نے نہیں کہی ہوتیں۔
علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا الفاظ کے کچھ حصے کو اپنی بات کی دلیل بنانے والے اگر پوری بات کو سامنے لائیں تو ان کے ہر پیروکار پر واضح ہو جائے کہ کس طرح علماء کی باتوں کو اپنی رائے اور بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے مسلمان بھائی، کم از کم یہ تو سوچیں کہ ، اگر اُن کی بیان کردہ منطق یعنی ہر خوشی اور نعمت والے دن کا عید ہوتا ، درست ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اور یہ علماء کرام رحہم اللہ ہر خوشی اور ہر نئی نعمت ملنے والے دن کی عید مناتے ، اور شاید اس طرح سال بھر میں سے آدھا سال عیدیں ہی رہتیں ، نبوت کے جھوٹے دعوی داروں کا خاتمہ ، زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والے کا قلع قمع، ہر نیا شہر ، ہر نیا ملک فتح ہونا ، فوج در فوج لوگوں کا مسلمان ہونا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہی تو تھیں ، غور تو کیجیئے کہ کتنی عیدیں ہو تیں ؟
لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین، تبع تابعین، صدیوں تک اُمت کے علماء و ائمہ رحمہم اللہ جمعیاً میں سے کس نے ایسی کوئی بھی عید منائی ؟
میں اس بات میں کوئی شک نہیں رکھتا کہ عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی اکثریت یہ سب بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں کرتی ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اُن کا ایک انتہائی نیک جذبہ غیر مناسب طور پر استعمال ہو رہا ہے ، اور انہیں اُس کا احساس نہیں ہو رہا۔
سوچیے تو ، محبت محبوب کی پسند کے مطابق اُس تابع فرمانی ہوتی ہے یا کچھ اور ؟
سوچیئے تو ، اگر روز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آپ سے پوچھیں کہ دین میں جو کام میں نے نہیں کیا ، میرے خلفاء راشدین نے نہیں کیا، میرے صحابہ میں سے کسی نے نہیں کیا، آپ نے وہ کام کیوں کیا ؟
اللہ کے احکام اور میری باتوں کو جو تفسیر و تشریح میں نے بیان نہیں کی ، نہ قولانہ عملاً ، نہ میرے صحابہ میں سے کسی نے بیان کی، آپ نے وہ تفسیر و تشریح کیسے قبول کر لی ؟
اللہ کے کلام کی تشریح کی ذمہ داری تو اللہ نے مجھے سونپی تھی اور اللہ کے حکم سے میں یہ ذمہ داری پوری کر آیا تھا ، پھر اللہ کے کلام کی نئی نئی تشریح اور عبادت کے نئے نئے طور طریقے آپ نے کہیں اور سے کیوں لیے ؟
کیا جواب دیں گے ، یا رسول اللہ ہمارے علما کہا کرتے تھے ، یا، ہماری کتابوں میں لکھا گیا تھا ، یا، ہم سوچا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں، اور کر لیا کرتے تھے،
یقین ماننے اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اس دنیا فانی سے واپس بلوایا گیا ، اور اُن کے بعد کیسی پر وحی نازل نہیں ہوئی، نہ ہی وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کوئی باطنی شریعت ، یا خاندانی شریعت چھوڑ کر تشریف لے گئے ، اللہ کا ہر حکم صاف اور واضح طور پر قولا و عملاً بیان فرما کر گئے ، اگر آپ اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور مجھے پوری اُمید ہے کہ یقینا ایمان رکھتے ہیں تو پھر عید میلاد منانا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں کہیں نہیں ہے ، تقاضاء محبت اطاعت و فرمانبرداری ہے ، جہاں جو بات ان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی موافقت رکھتی ہے قبول فرمائیے ، اور جو نہیں رکھتی ترک کر دیجئے یہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہے۔