تکبیرات عیدین اور نمازِ جنازہ میں رفع یدین کا حکم
سوال:
کیا عیدین اور جنازہ کی تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح احادیث کی روشنی میں پانچ مواقع پر رفع یدین کا واضح ذکر ملتا ہے:
پانچ ثابت شدہ مقامات جہاں رفع یدین مشروع ہے:
- ➊ نماز کے آغاز میں تکبیرِ تحریمہ کے وقت
- ➋ رکوع میں جانے سے پہلے
- ➌ رکوع سے اٹھنے کے وقت
یہ تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ - ➍ دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہونے کے وقت
صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ - ➎ رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے ساتھ:
وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین فرمایا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد مع عون المعبود، ج1، ص263، حدیث 722 — حدیث صحیح)
یہ روایت سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہے۔ مزید اس کے دوسرے طرق مسند احمد (ج2، ص133-134) اور المستخرج لابن الجارود (حدیث 174) میں موجود ہیں۔
محدثین کا فہم اور استدلال:
امام بیہقی (ج3، ص292-293) اور ابن المنذر نے اس حدیث سے عیدین کی تکبیرات میں رفع یدین کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ کسی معروف محدث نے ان کی مخالفت نقل نہیں کی۔
اصولِ فقہ کا قاعدہ ہے:
"العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب”
یعنی الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، سببِ خاص کی بنیاد پر تخصیص جائز نہیں۔
امام ابن الترکمانی کی تائید
ابن الترکمانی نے امام بیہقی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے لکھا:
"ارادة العموم في كل تكبيرة تقع قبل الركوع ويندرج في ذلك تكبيرات العيدين”
یعنی: "اس حدیث میں ہر وہ تکبیر شامل ہے جو رکوع سے پہلے کہی جاتی ہے، اور اس میں عیدین کی تکبیریں بھی شامل ہیں۔”
(الجواہر الحنفی، ج3، ص293)
یہاں ابن الترکمانی کی تحریر میں کچھ اضطراب اور تخلیط نظر آتی ہے، مگر ان کا یہ کہنا کہ یہ حدیث صرف بقیہ سے مروی ہے، باطل دعویٰ ہے، کیونکہ ابن اخی الزہری نے بھی یہی روایت بیان کی ہے۔
(مسند احمد، ج2، ص133-134)
بقیہ کے بارے میں اہلِ علم کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ صدوق و حسن الحدیث ہیں بشرطیکہ سماع کی تصریح موجود ہو۔
آثار سلف سے تائید
تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کا ثبوت:
- ➊ امام اوزاعیؒ:
"تمام تکبیروں کے ساتھ (عیدین میں) رفع یدین کرنا چاہیے۔”
(احکام العیدین للفریابی، ص182، حدیث 132 — سند صحیح) - ➋ امام مالکؒ:
"تکبیراتِ عیدین کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہیے، لیکن میں نے اس بارے میں کچھ سنا نہیں۔”
(احکام العیدین، حدیث 137 — سند صحیح) - ➌ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ:
دونوں کا بھی یہی موقف ہے کہ عیدین میں رفع یدین کرنا چاہیے۔
(الامام، ج1، ص237 — مسائل احمد روایت ابی داؤد، ص59-60) - ➍ حنفیہ میں محمد بن الحسن الشیبانیؒ:
ان سے بھی یہی موقف منقول ہے۔
(الاوسط لابن المنذر، ج4، ص282 — الاصل، ج1، ص374-375)
نمازِ جنازہ میں رفع یدین کا ثبوت
ضعیف روایت:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ایک ضعیف روایت:
"كان عمر بن الخطاب يرفع يديه في كل تكبيرة من الصلاة على الجنازة وفي الفطر والأضحى”
(الاوسط لابن المنذر، ج4، ص282 — السنن الکبریٰ للبیہقی، ج3، ص293 — قال: ھذا منقطع)
سند کی کمزوریاں:
- ➊ ابو زرعہ اللخمی کی ثقاہت معلوم نہیں۔
- ➋ ابن لہیعہ مدلس ہیں اور "عن” سے روایت کر رہے ہیں۔
- ➌ سند منقطع ہے۔
راویوں کا تعارف:
- ➊ ابو زرعہ اللخمی: قسطنطنیہ پر حملہ آور مسلم جنرل۔
(مختصر تاریخ دمشق لابن منظور، ج28، ص325-326) - ➋ بکر بن سوادۃ: ثقہ فقیہ۔
(التقریب: 742) - ➌ ابن لہیعہ: اختلاط سے قبل صدوق و حسن الحدیث۔ اسحاق بن عیسیٰ کا سماع قبل از اختلاط ہے۔
(میزان الاعتدال، ج2، ص477)
نمازِ جنازہ میں رفع یدین کا مرفوع ثبوت:
امام دارقطنیؒ نے روایت کیا:
"ان النبي ﷺ كان اذا صلي على جنازة رفع يديه في كل تكبيرة واذا انصرف سلم”
(کتاب العلل للدارقطنی، ج13، ص22، حدیث 2908)
یہ روایت سنداً حسن لذاتہ ہے۔ امام دارقطنی اور یحییٰ بن سعید الانصاری دونوں تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔
(تاریخ بغداد، ج4، ص409؛ ج3، ص310-311)
آثار سلف میں ثبوت:
نمازِ جنازہ کی تکبیروں میں رفع یدین کا ثبوت درج ذیل شخصیات سے بھی ہے:
- ◈ عبداللہ بن عمر
- ◈ عمر بن عبدالعزیز
- ◈ عطاء بن ابی رباح
- ◈ محمد بن سیرین
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج3، ص292، 297 وغیرہ)
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب