عورت اور مرد کے کفن میں فرق؟ دلائل کے ساتھ مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل – جنازے کے مسائل، جلد 1، صفحہ 254

سوال

کیا عورت اور مرد کے کفن میں فرق ہے؟ اگر ہے تو دلیل کے ساتھ وضاحت کریں

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشہور کتاب "أحكام الجنائز” میں اس سوال کا جواب واضح انداز میں دیا ہے کہ مرد اور عورت کے کفن میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«وَالْمَرأَة ُ فِیْ ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ إِذْ لاَ دَلِيْلَ عَلَی التَّفْرِيْقِ»
(أحكام الجنائز، ص: 65)

یعنی:
"اس مسئلہ میں عورت مرد کی مانند ہے کیونکہ کفن میں فرق پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔”

ضعیف روایت کا ذکر

اسی مقام پر شیخ البانی رحمہ اللہ روایت کے ایک ضعیف پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

«وَأَمَّا حَدِيْثُ لَيْلٰی بِنْتِ قَانِفٍ الثَّقْفِيَّةِ فِیْ تَکْفِيْنِ ابْنَتِهِ (ﷺ) فِیْ خَمْسَةِ أَثْوَابٍ فَلاَ يَصِحُّ إِسْنَادُهُ لِأَنَّ فِيْهِ نُوْحَ بْنَ حَکِيْمٍ الثَّقْفِیَّ وَهُوَ مَجْهُوْلٌ کَمَا قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ وَّغَيْرُهُ ، وَفِيْهِ عِلَّةٌ أُخْرٰی بَيَّنَهَا الزَيْلعِیْ فِیْ نَصبِ الرَّايَةِ (۲/۲۵۸) ۔»

یعنی:
"لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ کی روایت، جس میں نبی کریمﷺ کی بیٹی کو پانچ کپڑوں میں کفن دینے کا ذکر ہے، اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں نوح بن حکیم ثقفی شامل ہے جو کہ مجہول راوی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر اور دیگر علماء نے بیان کیا ہے۔ نیز، اس روایت میں ایک اور علت (کمزوری) بھی ہے جس کو علامہ زیلعی نے نصب الرایہ (جلد 2، صفحہ 258) میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔”

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف

اگرچہ شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فتح الباری میں اس روایت کے ایک دوسرے پہلو پر روشنی ڈالی ہے:

"قَوْلُهُ : وَقَالَ الْحَسَنُ : اَلْخِرْقَةُ الْخَامِسَةُ الخ هٰذَا يَدُلُّ عَلٰی أَنَّ أَوَّلَ الْکَلاَمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ تُکْفَنُ فِیْ خَمْسَةِ أَثْوَابٍ ۔”

یعنی:
"قولہ ‘وقال الحسن’ اور حسن کا بیان کہ پانچواں کپڑا وغیرہ، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے۔”

ابن ابی شیبہ اور جوزقی کی روایت

مزید وضاحت کے لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"وَقَدْ وَصَلَهُ ابْنُ أَبِیْ شَيْبَةَ نَحْوَه ۔ وَرَوَی الْجَوْزَقِی مِنْ طَرِيْقِ إِبْرَاهِيْمَ بن حَبِيْبِ بْنِ الشَّهِيْدِ عَنْ هِشَامٍ عَنْ حَفْصَةَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ : فَکَفَنَّاهَا فِی خَمْسَةِ أَثْوَابٍ ، وَخَمَرْنَا هَاکَمَا يُخْمَرُ الْحَیُّ ۔ وَهٰذِهِ الزِّيَادَةُ صَحِيْحَةُ الْإِسْنَادِ ۔”

یعنی:
"ابن ابی شیبہ نے اس روایت کو موصول طریق سے بیان کیا ہے۔ اور جوزقی نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، جنہوں نے فرمایا: ہم نے نبی کریمﷺ کی بیٹی کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا، اور اس کے سر کو ایسے ڈھانپا جیسے زندہ کو ڈھانپا جاتا ہے۔ یہ اضافہ (روایت) صحیح الاسناد ہے۔”

خلاصۂ کلام

شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک عورت اور مرد کے کفن میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ فرق پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔

لیلیٰ بنت قانف کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض ایسی روایات کا ذکر کیا ہے جو عورت کے لیے پانچ کپڑوں میں کفن دینے کی تائید کرتی ہیں، جن میں بعض صحیح الاسناد ہیں۔

❖ لہٰذا، بعض علماء کے نزدیک عورت کے لیے پانچ کپڑوں کا کفن دیا جا سکتا ہے، جبکہ جمہور کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1