إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٨٩﴾
(9-التوبة:88، 89)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ہمراہ ایمان لائے ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے سب بھلائیاں ہیں، اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾
(59-الحشر:10)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى:فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٣٧﴾
(2-البقرة:137)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو، تو یقیناً وہ ہدایت پاگئے ، اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں ( پڑے ہوئے ) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہو جائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾
(48-الفتح:29)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کو نیل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی ، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تا کہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔“
حدیث 1
عن ابن عمر ، أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الناس بالجابية ، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقامي فيكم ، فقال: استوصوا بأصحابى خيرا ، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم ، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليبتدء بالشهادة قبل أن يسألها ، فمن أراد منكم بحبحة الجنة فليلزم الجماعة ، فإن الشيطان مع الواحد ، وهو من الاثنين أبعد ، لا يخلون أحدكم بامرأة، فإن الشيطان ثالثهما ، ومن سرته حسنته وساءته سيئته ، فهو مؤمن
مسند احمد : 18/1، رقم : 114 ، مستدرك حاكم : 113/1۔ حاکم نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
”سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے” جابیہ“ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے کہا: ایک دفعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے ، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں، اور آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ان کے بعد ہوں گے اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ( تابعین) کے بعد ہوں گے، (ان سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں )، اس کے بعد جھوٹ اس قدر عام ہو جائے گا کہ ایک آدمی گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دینے لگے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا التزام کرے، کیونکہ شیطان ہر اس آدمی کے ساتھ رہتا ہے جو اکیلا ہو، اور وہ شیطان دو آدمیوں سے ذرا دور ہو جاتا ہے، تم میں سے کوئی آدمی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ علیحدگی اختیار نہ کرے، کیونکہ ایسے دو افراد کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس آدمی کو نیکی کر کے خوشی اور گناہ کر کے پریشانی ہو وہ مومن ہے۔“
حدیث 2
وعن كعب رضي الله عنه قال: إني أجد فى التوراة مكتوبا محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، لافظ ، ولا غليظ، ولا سخاب فى الاسواق، ولا يجزي السيئة بالسيئة ، ولكن يعفو ، ويصفح أمته، الحمادون يحمدون الله فى كل منزلة ، ويكبرونه على كل نجد، يأتزرون إلى أنصافهم ، ويوفتون أطرافهم ، صفهم فى الصلاة وصفهم فى القتال سواء ، مناديهم ينادى فى جو السماء لهم فى جوف الليل دوي كدوي النحل، مولده بمكة ، ومهاجره بطابة، وملكه بالشام
سنن دارمی، رقم : 5 شرح السنة، رقم الحديث : 3628۔ محقق نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تورات میں لکھا ہوا پایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہوں گے، نہ تیز مزاج نہ ترش رو، بازاروں میں شور وشغب کرنے والے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ معاف کرنے والے اور درگزر کرنے والے ہوں گے۔ اُن کی امت بہت زیادہ حمد و ثنا کرنے والی ہوگی۔ ہر جگہ وہ اللہ کی حمد وثنا بیان کریں گے۔ ہر اونچی جگہ پر ( چڑھتے ہوئے) اللہ اکبر کہیں گے۔ اُن کے تہ بند پنڈلیوں تک ہوں گے، اپنے اعضاء کا وضو کریں گے، نماز اور قتال کے لیے ایک ہی طرح صف بنائیں گے۔ اُن کا منادی (یعنی موذن ) کھلی فضا میں اذان دے گا۔ آدھی رات کے وقت اُن کے اذکار کی آواز شہد کی مکھیوں کی طرح آہستہ ہوگی۔ اس رسول کی جائے پیدائش مکہ ہوگی، جائے ہجرت طابہ (یعنی مدینہ منورہ) اور اُس کی حکومت کی سرحدیں شام تک پہنچیں گی۔“
حدیث 3
وعن أنس قال: كان بين خالد بن الوليد وبين عبد الرحمن بن عوف كلام ، فقال خالد لعبد الرحمن: تستطيلون علينا بأيام سبقتمونا بها ، فبلغنا أن ذلك ذكر للنبي صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال: دعوا لي أصحابي ، فوالذي نفسي بيده، لو أنفقتم مثل أحد أو مثل الجبال ذهبا ما بلغتم أعمالهم
مسند احمد : 366/3، رقم : 13812 ، الأحاديث المختارة، رقم : 2046۔ شعیب نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سید نا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سید نا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مابین کچھ تلخ کلامی سی ہوگئی، سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا: تم ہمارے اوپر محض اس لیے زبان درازی کرتے ہو کہ تم ہم سے کچھ دن پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب اس بات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے لیے ہی میرے صحابہ کو کچھ نہ کہا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم احد پہاڑ یا کٹی پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کر دو تم ان کے اعمال یعنی درجوں تک نہیں پہنچ سکتے۔“
حدیث 4
وعن أبى موسى قال: صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قلنا: لو انتظرنا حتى نصلى معه العشاء، قال: فانتظرنا فخرج إلينا ، فقال: ما زلتم هاهنا ، قلنا: نعم، يا رسول الله قلنا: نصلى معك العشاء ، قال: أحسنتم أو أصبتم . ثم رفع رأسه إلى السماء قال: وكان كثيرا ما يرفع رأسه إلى السماء ، فقال: النجوم أمنة للسماء ، فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابي ، فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون ، وأصحابي أمنة لأمتي ، فإذا ذهبت أصحابي أتى أمتي ما يوعدون
مسند احمد : 398/4 ، رقم : 19066 – صحيح ابن حبان، رقم : 7249۔ ابن حبان اور شیخ شعیب رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مغرب کی نماز ادا کی، پھر ہم نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ ہم کچھ انتظار کر لیں اور آپ کی معیت میں عشاء کی نماز ادا کر کے جائیں۔ چنانچہ ہم انتظار کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: کیا تم یہیں ٹھہرے رہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول ! بس ہم نے سوچا کہ ہم عشاء کی نماز بھی آپ کی معیت میں ادا کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے اچھا کیا۔ پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر آسمان کی طرف سر اٹھایا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘یہ ستارے آسمان کے امین (نگران و محافظ ) ہیں، جب یہ تارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان پر وہ کیفیت طاری ہو جائے گی، جس کا اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے، یعنی آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ میں بھی اپنے صحابہ کے لیے اسی طرح امین ہوں، جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ فتنے اور آزمائشیں آجائیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ بھی میری امت کے لیے امین اور محافظ ہیں، جب میرے صحابہ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو میری امت پر ان فتنوں کا دور شروع ہو جائے گا، جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ “
حدیث 5
وعن عبد الله بن بسر رضي الله عنه صاحب النبى صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : طوبى لمن رآني ، وطوبى لمن رأى من رأني، ولمن رأى من رأى من راني وأمن بي
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم الحديث : 1254 .
” اور حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مبارک ہو جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی ) اور مجھ پر ایمان لایا، اور مبارک ہو اُسے جس نے اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے (یعنی تابعی) اور ایمان لایا، اور مبارک ہو اُ سے جس نے صحابی کو دیکھنے والے ( یعنی تبع تابعین ) کو دیکھا اور ایمان لایا۔“
حدیث 6
وعن أبى سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لا تسبوا أصحابي، فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه
صحیح مسلم، رقم : 221/254 ، مسند احمد : 11/3، رقم : 11079 .
”اور سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے صحابہ کو سب وشتم نہ کرنا، کیونکہ ان کا مقام تو یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی جبل احد کے برابر سونا خرچ کرے، تو وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مدیا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ “
حدیث 7
وعن طارق بن أشيم أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: بحسب أصحابي القتل
مسند احمد 472/3، رقم : 15876 ، مصنف ابن ابي شيبة : 92/15۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور سید نا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کا شہید ہو جانا ہی کافی ہے۔ “
حدیث 8
وعن واثلة بن أسقع رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تزالون ما دام فيكم من رأنى وصاحبني، والله لا تزالون بخير ما دام فيكم من رأى من راني وصاحب من صاحبني، والله لا تزالون بخير ما دام فيكم من رأى من راني وصاحب من صاحب من صاحبني
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم الحديث : 3283.
”اور حضرت واثلہ بن استقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مجھے دیکھا اور میری صحبت پائی (یعنی صحابی ) جب تک وہ شخص تمہارے درمیان موجود رہے گا تم ہمیشہ خیر پر رہو گے۔ اللہ کی قسم! جس نے میرے صحابی کو دیکھا اور اُس کی صحبت پائی (یعنی تابعی ) جب تک وہ تمہارے درمیان موجود رہے گا تم لوگ ہمیشہ خیر پر رہو گے۔ اللہ کی قسم! جس نے تابعی کو دیکھا (یعنی تبع تابعی ) اور اُس کی صحبت پائی جب تک وہ تمہارے درمیان موجود رہے گا تم لوگ ہمیشہ خیر پر رہو گے۔“
حدیث 9
وعن عبد الله بن مسعود، قال: إن الله نظر فى قلوب العباد ، فوجد قلب محمد خير قلوب العباد ، فاصطفاه لنفسه ، فابتعثه برسالته ، ثم نظر فى قلوب العباد بعد قلب محمد صلى الله عليه وسلم ، فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد ، فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه، فما رأى المسلمون حسنا، فهو عند الله حسن ، وما رأوا سيئا، فهو عند الله سى
مسند احمد : 379/1، رقم : 3600 ، معجم كبير للطبراني ، رقم : 8582 ۔ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے قلوب میں بہتر پایا، اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور ان کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اس نے اس دل کے انتخاب کے بعد باقی بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلوب کو تمام انسانوں کے قلوب سے بہتر پایا، اس لیے اس نے انہیں اپنے نبی کے وزراء ( اور ساتھی ) بنا دیا، جو اس کے دین کے لیے قتال کرتے ہیں۔ پس مسلمان جس بات کو بہتر سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بہتر ہی ہوتی ہے اور مسلمان جس بات کو برا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بری ہی ہوتی ہے۔ “
حدیث 10
وعن أبى سعيد الخدري عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يأتى على الناس زمان ، يغزو فتام من الناس ، فيقال لهم: فيكم من رأى رسول الله ؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم ، ثم يغزو فتام من الناس ، فيقال لهم: فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون: نعم ، فيفتح لهم، ثم يغزو فتام من الناس فيقال لهم: هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون: نعم ، فيفتح لهم
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل صحابة ، ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، رقم : 6467 .
” اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ان کے لشکر جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا آدمی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو (یعنی صحابی رضی اللہ عنہم ) ؟ وہ کہیں گے، ہاں، تو اس کی برکت سے فتح ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں کئی جماعتیں جہاد کریں گی اور ان سے پوچھا جائے گا، کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟ وہ کہیں گے ہاں۔ چنانچہ اس کی برکت سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ آئے گا جب جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا۔ تمہارے درمیان کوئی ایسا آدمی ہے جس نے تابعی کو دیکھا ہو؟ وہ کہیں گے ہاں۔ چنانچہ اس کی برکت سے انہیں فتح حاصل ہوگی۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا
حدیث 11
وعن ابن عباس يقول: وضع عمر بن الخطاب على سريره، فتكنفه الناس يدعون ويثنون ويصلون عليه ، قبل أن يرفع ، وأنا فيهم، قال: فلم يرعني إلا برجل قد اخذ بمنكبي من ورائي، فالتفت إليه فإذا هو على ، فترحم على عمر وقال: ما خلفت احدا احب إلى ، ان القى الله بمثل عمله ، منك، وايم الله إن كنت لا ظن أن يجعلك الله مع صاحبيك ، وذاك أني كنت أكير أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: جئت أنا وأبو بكر وعمر، ودخلت أنا وأبو بكر وعمر ، وخرجت أنا وأبو بكر وعمر ، فإن كنت لارجو، اولاظن أن يجعلك الله معهما
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6187.
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے (جسد خاکی) کو چارپائی پر رکھا گیا تو (جنازہ) اٹھانے سے پہلے لوگوں نے چاروں طرف سے ان کو گھر لیا، وہ دعائیں کر رہے تھے، تعریف کر رہے تھے، دعائے رحمت کر رہے تھے، میں بھی ان میں شامل تھا تو مجھے اچانک کسی ایسے شخص نے چونکا دیا جس نے پیچھے سے (آکر) میرا کندھا تھاما۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لا رہے تھے ، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا: آپ نے کوئی ایسا آدمی پیچھے نہ چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر اس بات میں مجھے محبوب ہو کہ میں اللہ سے اس کے جیسے عملوں کے ساتھ ملوں ۔ اللہ کی قسم ! مجھے ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا، آپ فرمایا کرتے تھے: میں، ابو بکر اور عمر آئے۔ میں ، ابو بکر اور عمر اندر گئے، میں، ابوبکر، اور عمر باہر نکلے۔ مجھے امید تھی، بلکہ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا کہ اللہ آپ کو ان دونوں کے ساتھ رکھے گا۔“
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دین
حدیث 12
وعن أبى سعيد الخدرك يقول: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون وعليهم قمص ، منها ما يبلغ الثدي، ومنها ما يبلغ دون ذلك ، ومر عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره قالوا: ماذا اولت ذلك؟ يا رسول الله قال : الدين
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6189.
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں سویا ہوا تھا: میں نے دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جا رہے ہیں، انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص چھاتی تک پہنچتی ہے، کسی کی اس سے نیچے تک پہنچتی ہے اور عمر بن خطاب گزرے تو ان پر جو قمیص ہے وہ اسے گھسیٹ رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: دین۔ “
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا علم
حدیث 13
وعن عبد الله بن عمر بن الخطاب عن أبيه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا أنا نائم إذ رأيت قدحا أتيت به ، فيه لبن، فشربت منه حتى إنى لارى الرئ يجرى فى أظفارى ، ثم اعطيت فضلى عمر بن الخطاب. قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال: العلم
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6190 ۔
” اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ایک پیالہ دیکھا جو میرے پاس لایا گیا۔ اس میں دودھ تھا۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ مجھے محسوس ہوا کہ سیرابی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر اپنا بچا ہوا دودھ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ (حاضرین نے) کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ؟ آپ نے ارشادفرمایا: علم۔ “
حدیث 14
وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا أنا نائم أريت أنى أنزع على حوضى أسقي الناس ، فجآئني أبو بكر فأخذ الدلو من يدى ليروحني، فنزع دلوين ، وفي نزعه ضعف، والله يغفر له ، فجاء ابن الخطاب فأخذ منه ، فلم ار نزع رجل قط أقوى منه ، حتى تولى الناس ، والحوض ملآن يتفجر
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6195 ۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں سویا ہوا تھا تو مجھے خواب میں دیکھایا گیا کہ میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں، پھر ابو بکر آئے اور انہوں نے مجھے آرام پہنچانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، انہوں نے دو ڈول پانی نکالا، ان کے پانی نکالنے میں کچھ کمزوری تھی ، اللہ ان کی مغفرت کرے! پھر ابن خطاب آئے تو انہوں نے ان سے ڈول لے لیا، میں نے کسی شخص کو ان سے زیادہ قوت کے ساتھ ڈول کھینچتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگ ( سیراب ہو کر ) چلے گئے اور حوض پوری طرح بھرا ہوا تھا (اس میں سے ) پانی امڈ رہا تھا۔ “
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا جنت میں محل
حدیث 15
وعن جابر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: دخلت الجنة فرأيت فيها دارا او قصرا، فقلت: لمن هذا؟ فقالوا: لعمر بن الخطاب ، فأردت ان ادخل ، فذكرت غيرتك، فبكى عمر وقال: أى رسول الله! او عليك يغار ؟
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6198.
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک گھر یا محل دیکھا، میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: یہ عمر بن خطاب کا (محل) ہے، میں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا، پھر مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ سے غیرت کی جاتی ہے! “
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر شیطان راستہ بدل لیتا
حدیث 16
وعن سعد قال: استأذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه، عالية اصواتهن ، فلما استأذن عمر قمن يبتدرن الحجاب ، فأذن له رسول الله ورسول الله لا يضحك، فقال عمر: أضحك الله سنك ، : يارسول الله! فقال رسول الله : عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندى فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب . قال عمر: فأنت يا رسول الله احق ان يهبن ، ثم قال عمر: أى عدوات أنفسهن أتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قلن: نعم، أنت أغلظ وافظ من رسول الله ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة رقم : 6202 ۔
” اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس ( بیٹھی ) آپ سے گفتگو کر رہی تھی بہت بول رہی تھیں، ان کی آواز میں بھی اونچی تھیں، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جانے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی، آپ اس وقت ہنس رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے ! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ تمہاری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اپنی جان کی دشمنو! مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو ؟ ان عورتوں نے کہا؛ ہاں ، تم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کبھی شیطان تمہیں کسی راستے میں چلتے ہوئے ملتا ہے تو تمہارا راشتہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
سید نا عمر رضی اللہ عنہ میں پہلی امتوں والی خصوصیت
حدیث 17
وعن عائشة عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه كان يقول قد كان يكون فى الأمم قبلكم محدثون فإن يكن فى أمتي منهم أحد فإن عمر بن الخطاب منهم
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6204.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے امتوں میں ایسے لوگ تھے جن سے بات کی جاتی تھیں، اگر ان میں سے کوئی میری امت میں ہے تو عمر بن خطاب انہی میں سے ہے۔ “
سید نا عمر رضی اللہ عنہ کی اللہ کے فرامین میں موافقت
حدیث 18
وعن ابن عمر قال: قال عمر: وافقت ربي فى ثلاث فى مقام إبراهيم ، وفي الحجاب، وفي أسارى بدر
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم : 6206.
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ، مقام ابراہیم ( کو نماز کی جگہ بنانے ) میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں ، ( کہ ان کو قتل کر دیا جائے)۔“
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا
حدیث 19
وعن عقبة بن عامر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو كان من بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب
مسند احمد، رقم : 17540.
”اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ۔ “
اے اللہ! عمر کے ذریعہ اسلام کو مضبوط کر
حدیث 20
وعن ابن عمر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب ، فكان أحبهما إلى الله عمر بن الخطاب
مسند احمد، رقم : 5696.
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یا اللہ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آدمی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ کو ان میں زیادہ محبوب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ “
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نیکی
حدیث 21
وعن أبى نوفل قال: قالت عائشة: إذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر
مسند احمد، رقم : 25667.
”اور ابو نوفل سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب صالحین کا تذکرہ کیا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یاد کیے جانے کے اہل ہیں۔ “
حق عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر نازل ہوا
حدیث 22
وعن عبادة بن نسي، عن غضيف بن الحارث ، أنه مر مر بن الخطاب فقال: نعم الفتى غضيف، فلقيه أبو ذر فقال: أى أخي استغفر لي ، قال: أنت صاحب رسول الله ، وأنت أحق أن تستغفر لي ، فقال: إني سمعت عمر بن الخطاب يقول: نعم الفتى غضيف، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله عز وجل ضرب بالحق على لسان عمر وقلبه – قال عفان: على لسان عمر يقول به
مسند احمد، رقم : 21620.
”اور غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے، انہوں نے کہا، غضیف ! اچھا آدمی ہے، پھر غضیف کی سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ غضیف نے کہا: آپ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے حق میں دعا کریں، انھوں نے کہا: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ غضیف اچھا آدمی ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی دل و زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی
حدیث 23
وعن أبى وائل قال: قال عبد الله: فضل الناس عمر بن الخطاب بأربع ، بذكر الأسرى يوم بدر أمر بقتلهم ، فأنزل الله عز وجل: ﴿لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيم﴾ وبذكره الحجاب أمر نساء النبى صلى الله عليه وسلم أن يحتجبن ، فقالت له زينب : وإنك علينا يا ابن الخطاب ، والوحي ينزل فى بيوتنا ، فأنزل الله عز وجل:﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ وبدعوة النبى صلى الله عليه وسلم له: اللهم أيد الإسلام بعمر – وبرأيه فى أبى بكر كان أول الناس بايعه
مسند احمد، رقم : 4362.
” اور سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چار امور میں لوگوں پر فضیلت لے گئے ، انہوں نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: ﴿لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيم﴾ اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا تو تم نے جو کچھ ان قیدیوں سے بطور فدیہ لیا، اس کے سبب تم پر بہت سخت عذاب آتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات کے بارے میں کہا کہ انہیں پردہ کرنا چاہیے، سیدہ زینب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے ابن خطاب! تم تو ہم پر مسلط ہو گئے ہو، حالانکہ وحی تو ہمارے گھروں میں نازل ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں پردے سے متعلقہ یہ آیت نازل فرما دی: ﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ اور اے ایمان والو! تم جب ان امہات المومنین سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک کو دوسرے لوگوں پر اس لحاظ سے بھی فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یہ دعا کی تھی : ”اے اللہ ! عمر کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کی رائے دی تھی اور انہوں نے ہی سب سے پہلے ان کی بیعت کی تھی۔ “
سید نا عمر رضی اللہ عنہ کی ہیبت
حدیث 24
وعن عائشة قالت: كنت أدخل بيتي الذى دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي ، فأضع ثوبي، فأقول: إنما هو زوجي وأبي ، فلما دفن عمر معهم فوالله! ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي ، حياء من عمر
مسند احمد، رقم : 26179 .
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اس گھر میں داخل ہوتی رہتی تھی ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والد مدفون تھے، میں وہاں کپڑا بھی اتار لیتی تھی اور کہتی تھی کہ ایک میرا شوہر ہیں اور ایک میرے والد، لیکن اللہ کی قسم! جب سید نا عمر رضی اللہ عنہ دفن کیے گئے تو میں ان سے حیا کرتے ہوئے اپنے اوپر کپڑے لپیٹ کر داخل ہوتی تھی۔ “
حدیث 25
وعن بريدة الأسلمي ، أن أمة سوداء أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقد رجع من بعض مغازيه ، فقالت: إنى كنت نذرت إن ردك الله صالحا ، أن أضرب عندك بالدف، قال: إن كنت فعلت فافعلي ، وإن كنت لم تفعلي فلا تفعلي – فضربت فدخل أبو بكر وهى تضرب، ودخل غيره وهى تضرب ، ثم دخل عمر ، قال : فجعلت دفها خلفها ، وهى مقنعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الشيطان ليفرق منك يا عمر ، أنا جالس هاهنا ، ودخل هؤلاء، فلما أن دخلت ، فعلت ما فعلت
مسند احمد، رقم :23377۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا: میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سالم واپس لائے تو میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم نے یہ نذر مانی ہے تو اسے پورا کر لو اور اگر تم نے یہ منت نہیں مانی تھی تو اس کام کو رہنے دو۔ پس وہ دف بجانے لگ گئی، اسی دوران سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے ، وہ دف بجاتی رہی، کچھ دوسرے حضرات بھی آئے ، وہ مسلسل دف بجاتی رہی۔ لیکن بعد میں جب سید نا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے دف کو اپنے پیچھے کر لیا اور خود بھی چھپنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر! بے شک تجھ سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے، میں یہاں بیٹھا ہوں اور یہ لوگ بھی آئے ہیں، یہ لونڈی دف بجانے میں مگن رہی، لیکن جب تم آئے تو اس نے یہ کاروائی کی ہے۔“
سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے بعض فتووں اور فیصلوں کا بیان
حدیث 26
وعن الحارث بن معاوية الكندي ، أنه ركب إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه يسأله عن ثلاث خلال ، قال: فقدم المدينة فسأله عمر رضي الله عنه ما أقدمك؟ قال: لأسألك عن ثلاث خلال، قال: وما هن؟ قال: ربما كنت أنا والمرأة فى بناء ضيق ، فتحضر الصلاة، فإن صليت أنا وهى كانت بحذائي، وإن صلت خلفي خرجت من البناء ، فقال عمر: تستر بينك وبينها بشوب ، ثم تصلى بحذائك إن شئت، وعن الركعتين بعد العصر ، فقال: نهاني عنهما رسول الله ، قال: وعن القصص فإنهم أرادوني على القصص ، فقال: ما شئت كأنه كره أن يمنعه، قال: إنما أردت أن أنتهي إلى قولك، قال: أخشى عليك أن تقص ، فترتفع عليهم فى نفسك ، ثم تقص فترتفع حتى يخيل إليك أنك فوقهم بمنزلة الثريا ، فيضعك الله تحت أقدامهم يوم القيامة بقدر ذلك
36 مسند احمد، رقم : 111۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حارث بن معاویہ کندی سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں تین باتیں دریافت کرنے کے لیے سوار ہو کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف گیا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ میں نے بتلایا کہ آپ سے تین امور کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: وہ کون سے امور ہیں؟ میں نے کہا: بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں اور میری اہلیہ کسی تنگ مکان میں ہوتے ہیں، اتنے میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، لیکن اگر میں نماز پڑھوں تو وہ میرے سامنے آ جاتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے نماز ادا کرے تو مکان سے باہر نکل جاتی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنے اور اس کے درمیان کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر وہ تمہارے سامنے نماز پڑھتی رہے، اگر چاہے تو۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد دو رکعتیں ادا کرنے کے بارے میں پوچھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دورکعتوں سے منع فرمایا تھا، پھر میں نے کہا: تیسری بات یہ ہے کہ میں آپ سے وعظ و تقریر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے سامنے وعظ و تقریر کیا کروں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : جو تم چاہتے ہو، کر لو ۔ بس یوں لگا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کام سے روکنے کو ناپسند کیا۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ تم ان کے سامنے وعظ و تقریر کرو گے اور تم دلی طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی اور برتر سمجھنے لگو، تم پھر وعظ و تقریر کرو گے اور تم اپنے آپ کو ان کے مقابلہ میں یوں سمجھنے لگو گے کہ گویا تم ریا ستارے کی طرح اعلی و افضل ہو، لیکن تم اپنے آپ کو ان سے جس قدر برتر سمجھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی قدرتمہیں ان کے قدموں کے نیچے ڈالے گا۔“
حدیث 27
وحدثنا سفيان عن عمرو سمع بجالة يقول: كنت كاتبا لجزء بن معاوية عم الأحنف بن قيس فأتانا كتاب عمر قبل موته بسنة : أن اقتلوا كل ساحر، وربما قال سفيان: وساحرة، وفرقوا بين كل ذي محرم من المجوس وانهوهم عن الزمزمة، فقتلنا ثلاثة سواحر ، وجعلنا نفرق بين الرجل وبين حريمته فى كتاب الله، وصنع جزء طعاما كثيرا وعرض السيف على فخذه ودعا المجوس فألقوا وقر بغل أو بغلين من ورق فأكلوا من غير زمزمة ولم يكن عمر أخذ ، وربما قال سفيان: قبل الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذها من مجوس هجر
مسند احمد، رقم : 1657۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادوگر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں میں ہر محرم کے درمیان تفریق ڈال دو اور انہیں زمزمہ سے روک دو، اس حکم کے بعد ہم نے تین جادو گر قتل کئے اور کتاب اللہ کے مطابق حرام رشتوں میں علیحدگی پیدا کر دی، جزء نے بہت سارا کھانا تیار کروایا اور مجوسیوں کو دعوت دی اور تلوار اپنی ران پر رکھ لی، انہوں نے زمزمہ کے بغیر کھانا کھایا اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچر کے بوجھ اٹھانے کے برابر چاندی بھی بطور جزیہ دی، مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جزیہ ان سے نہ لیا، کبھی سفیان راوی اس طرح بیان کرتے : سید نا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ لینے کے حق میں نہ تھے، حتی کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے علاقہ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا، تب سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ قبول کرنا شروع کیا۔“
حدیث 28
وعن سماك، قال: سمعت عياضا الأشعري، قال: شهدت اليرموك، وعلينا خمسة أمراء ، أبو عبيدة بن الجراح ويزيد بن أبى سفيان وابن حسنة وخالد بن الوليد وعياض ، وليس عياض هذا بالذى حدث سماكا، قال: وقال عمر رضي الله عنه : إذا كان قتال فعليكم أبو عبيدة، قال: فكتبنا إليه أنه قد جاش إلينا الموت واستمددناه ، فكتب إلينا إنه قد جاء ني كتابكم تستمدوني، وإنى أدلكم على من هو أعز نصرا وأحضر جندا ، الله عز وجل فاستنصروه، فإن محمدا قد نصر يوم بدر فى أقل من عدتكم ، فإذا أتاكم كتابي هذا فقاتلوهم ، ولا تراجعوني، قال: فقاتلناهم ، فهزمناهم ، وقتلناهم أربع فراسخ قال: وأصبنا أموالا فتشاوروا، فأشار علينا عياض، أن نعطي عن كل رأس عشرة، قال: وقال أبو عبيدة: من يراهنى؟ فقال شاب: أنا إن لم تغضب، قال: فسبقه فرأيت عقيصتي أبى عبيدة تنقزان، وهو خلفه على فرس عربي
مسند احمد، رقم : 344۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور عیاض اشعری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں یرموک کے معرکہ میں شامل تھا، پانچ افراد ہمارے اوپر امیر مقرر تھے، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح، سیدنا یزید بن ابی سفیان ، سید نا ابن حسنه ، سید نا خالد بن ولید اور سیدنا عیاض رضی اللہ عنہم اس جگہ عیاض سے مراد وہ عیاض نہیں جس سے سماک حدیث بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت دی تھی کہ جب لڑائی شروع ہو تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ تمہارے امیر ہوں گے، ہم نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ موت ہمیں نگلنے کے لیے تیار ہے، پھر ہم نے ان سے مزید کمک کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جواباً لکھا کہ مجھے تمہارا خط ملا ہے، تم لوگوں نے مجھ سے مزید کمک طلب کی ہے، میں بہت بڑی طاقت اور تعداد کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں، تم اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگو، بدر کے دن تمہاری بہ نسبت تعداد بہت کم تھی، لیکن پھر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مد کی گئی تھی، میرا یہ خط جب تمہارے پاس پہنچے تو تم دشمن سے لڑائی شروع کر دینا اور مجھ سے مدد طلب نہ کرنا۔ عیاض کہتے ہیں: جب ہماری دشمن سے لڑائی ہوئی تو ہم نے ان کو شکست دے دی اور ہم نے بارہ میل تک انہیں قتل کیا اور ہمیں بہت سارا مال غنیمت حاصل ہوا، جب لوگوں نے آپس میں مشاورت کی تو عیاض نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم ہر سر کی طرف سے دس دیں۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے کون ہے جو گھڑ دوڑ میں مجھ سے بازی لگائے گا؟ ایک نوجوان نے کہا: اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں، چنانچہ وہ آگے آیا، میں نے سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی دونوں لٹوں کو دیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں، وہ نوجوان ان کے پیچھے اور ایک عربی گھوڑے پر سوار تھا یعنی وہ نو جوان ابو عبیدہ کے مقابلہ میں پیچھے رہ گیا۔“
حدیث 29
وعن ابن عمر ، أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الناس بالجابية ، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل مقامي فيكم ، فقال: استوصوا بأصحابي خيرا، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليبتدئ بالشهادة قبل أن يسألها ، فمن أراد منكم بحبحة الجنة فليلزم الجماعة ، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين أبعد، لا يخلون أحدكم بامرأة ، فإن الشيطان ثالثهما ، ومن سرته حسنته وسائته سيئته فهو مؤمن
مسند احمد، رقم : 114 ۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطاب کیا اور اس میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے تھے، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہوں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں اور پھر اُن لوگوں کے بعد آنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تمہیں وصیت کرتا ہوں، ان زمانوں کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ آدمی گواہی کا مطالبہ کیے جانے سے پہلے گواہی دینا شروع کر دے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت کے وسط میں مقام بنانا چاہے، وہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور اگر دو آدمی اکٹھے ہوں تو وہ ان سے زیادہ دور رہتا ہے اور تم میں سے کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ علیحدہ نہ ہو، کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوگا، نیز جب کسی آدمی کو اس کی نیکی اچھی لگے اور برائی بری لگے تو وہ مؤمن ہوگا۔“
حدیث 30
وعن معبد بن أبى طلحة اليعمري، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قام على المنبر يوم الجمعة ، فحمد الله وأثنى عليه، ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وذكر أبا بكر رضي الله عنه ، ثم قال: رأيت رؤيا ، لا أراها إلا لحضور أجلي، رأيت كأن ديكا نقرني نقرتين ، قال: وذكر لى أنه ديك أحمر ، فقصصتها على أسماء بنت عميس ، امرأة أبى بكررضي الله عنه ، فقالت: يقتلك رجل من العجم، قال: وإن الناس يأمرونني أن أستخلف ، وإن الله لم يكن ليضيع دينه وخلافته التى بعث بها نبيه الله ، وإن يعجل بي أمر فإن الشورى فى هؤلاء الستة الذين مات نبي الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض ، فمن بايعتم منهم فاسمعوا له وأطيعوا، وإنى أعلم أن أناسا سيطعنون فى هذا الأمر، أنا قاتلتهم بيدى هذه على الإسلام، أولئك أعداء الله الكفار الضلال ، وايم الله ما أترك فيما عهد إلى ربي فاستخلفني شيئا أهم إلى من الكلالة، وايم الله! ما أغلظ لى نبي الله فى شيء منذ صحبته أشد ما أغلظ لي فى شأن الكلالة حتى طعن بإصبعه فى صدري ، وقال: تكفيك آية الصيف التى نزلت فى آخر سورة النساء، وإني إن أعش فسأقضي فيها بقضاء يعلمه من يقرأ ومن لا يقرأ، وإني أشهد الله على أمراء الأمصار، إنى إنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم ويبينوا لهم سنة نبيهم ، ويرفعوا إلى ما عمى عليهم ، ثم إنكم أيها الناس : تأكلون من شجرتين لا أراهما إلا خبيثتين هذا النوم والبصل ، وايم الله لقد كنت أرى نبي الله صلى الله عليه وسلم يجد ريحهما من الرجل فيأمر به فيؤخذ بيده فيخرج به من المسجد حتى يؤتى به البقيع ، فمن أكلهما لا بد فليمتهما طبخا- قال: فخطب الناس يوم الجمعة وأصيب يوم الأربعاء
مسند احمد، رقم : 89 ۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
” اور معبد بن ابی طلحہ یعمری سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کا تذکرہ کیا اور پھر کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے، میرے خیال میں اس کی تعبیر یہ ہے کہ اب میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ ایک سرخ مرغ نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں، جب میں نے یہ خواب سیدہ اسماء بنت عمیس زوجہ ابی بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی مجھی آدمی سید نا عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گا ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، یاد رکھو کہ اللہ نے اپنے نبی کو جس دین اور خلافت کے ساتھ مبعوث کیا ہے، وہ اس کو ضائع نہیں کرے گا، اگر میری موت جلد آ جائے تو یہ چھ حضرات کی ایک مجلس شوریٰ ہے، جب اللہ کے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب سے راضی تھے، تم ان میں سے جس کی بھی بیعت کر لو تو اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس معاملے میں طعن و تشنیع کریں گے، میں اپنے ان ہاتھوں سے ان لوگوں سے اسلام پر قتال کر چکا ہوں، ایسے لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گم راہ ہیں۔ اللہ کی قسم ! میرے رب نے مجھے جو حکم دیئے اور مجھے خلیفہ بنایا، میں ان میں سے کلالہ سے زیادہ اہم کوئی بات چھوڑ کر نہیں جارہا۔ اللہ کی قسم! میں جب سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ جس قدرسختی کے ساتھ کلالہ کے بارہ میں گفتگو کی ، اس قدر سخت انداز کسی دوسری بات کے بارے میں اختیار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک میرے سینے پر ماری اور فرمایا: اس بارے میں تمہارے لیے سورۂ نساء کے آخری آیت کافی ہے، جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی۔ میں اگر زندہ رہا تو اس مسئلہ کی بابت ایسا فیصلہ کروں گا، جسے خواندہ اور ناخواندہ، سب لوگ اچھی طرح جان لیں گے، میں مختلف علاقوں میں بھیجے ہوئے اپنے عاملوں اور نمائندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں اور انہیں نبی کی سنت کی تعلیم دیں اور جو معاملہ ان پر اچھی طرح واضح نہ ہو، وہ مجھ تک پہنچا ئیں۔ لوگو! تم دو پودے یعنی لہسن اور پیاز کھاتے ہو، میں انہیں انتہائی ناپسند خیال کرتا ہوں، اللہ کی قسم ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی سے ان کی بو پاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے حکم دیتے اور اس آدمی کو پکڑ کر مسجد سے نکال کر بقیع قبرستان کی طرف پہنچا دیا جا تا تھا۔ جس آدمی نے لامحالہ طور پر ان پودوں کو کھانا ہو تو وہ ان کو پکا لیا کرے۔ معبد کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روزے لوگوں سے یہ خطاب کیا تھا اور بدھ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ ہو گیا تھا۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تاثرات
حدیث 31
وعن ابن عمر رضي الله عنه قال: وضع عمر بن الخطاب رضي الله عنه بين المنبر والقبر ، فجاء على رضي الله عنه حتى قام بين يدي الصفوف ، فقال: هو هذا ثلاث مرات ثم قال: رحمة الله عليك ، ما من خلق الله تعالى أحب إلى من أن ألقاه بصحيفته بعد صحيفة النبى صلى الله عليه وسلم من هذا المسجى عليه ثوبه
مسند احمد، رقم : 866۔
” اور سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے درمیان لا کر رکھا گیا تو سیدنا علیرضی اللہ عنہ آ کر صفوں آگے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے تین بار کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس ڈھانپے ہوئے آدمی کے علاوہ کوئی ایسا بشر نہیں ہے کہ میں اس جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کروں۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند تھے
حدیث 32
وعن ابن عمر قال: لما ولى عمر بن الخطاب، خطب الناس ، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن لنا فى المتعة ثلاثا ، ثم حرمها ، والله لا أعلم أحدا يتمتع وهو محصن إلا رجمته بالحجارة، إلا أن يأتيني بأربعة يشهدون أن رسول الله أحلها بعد إذ حرمها
احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔ سنن ابن ماجه، کتاب النکاح رقم : 1963 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ بنے تو انھوں نے لوگوں سے خطاب کیا۔ اس میں انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین دن تک متعہ کی اجازت دی تھی پھر اسے حرام فرما دیا، واللہ ! مجھے جس شخص کے متعلق متعہ کرنے کی اطلاع ملی اگر وہ شادی شدہ ہوا تو میں اسے پتھروں سے رجم کرا دوں گا ، سوائے اس صورت کے کہ وہ چار گواہ لائے جو اس بات کی گواہی دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کا اعلان کرنے کے بعد اسے حلال قرار دے دیا تھا۔“
حدیث 33
وعن السائب بن يزيد قال: كنت قائما فى المسجد فحصبني رجل ، فنظرت فإذا عمر بن الخطاب ، فقال: اذهب فأتني بهذين، فجئته بهما، قال: من أنتما؟ أو من أين أنتما؟ :قالا من أهل الطائف، قال: لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما، ترفعان أصواتكما فى مسجد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
صحيح البخاري، كتاب الصلاة، رقم :.470۔
”اور سید نا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ انھوں نے فرمایا: یہ سامنے جو دو شخص میں انھیں میرے پاس لاؤ۔ میں انھیں ان کے پاس لایا تو انھوں نے پوچھا: تمھارا تعلق کس قبیلہ سے ہے؟ یا پوچھا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیے بغیر نہ چھوڑتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟“
حدیث 34
وعن عبد الله بن هشام قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب فقال له عمر : يا رسول الله ، لأنت أحب إلى من كل شيء إلا من نفسي فقال النبى صلى الله عليه وسلم : لا والذي نفسي بيده حتى أكون أحب إليك من نفسك ، فقال له عمر: فإنه الآن والله لأنت أحب إلى من نفسي . فقال النبى صلى الله عليه وسلم الآن يا عمر
صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور ، رقم : 6632 ۔
”اور سید نا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطابرضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں سوائے میری جان کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمھیں تمھاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: واللہ ! پھر تو آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، عمر! اب ( تیرا ایمان مکمل ہوا )ہے۔ “
حدیث 35
وعن عامر بن وايلة ، أن نافع بن عبد الحارث لقي عمر رضي الله عنه بعسفان ، وكان عمر رضي الله عنه يستعمله على مكة فقال: من استعملت على أهل الوادى؟ فقال: ابن أبزى؟ قال: ومن ابن آبزي؟ قال: مولى من موالينا ، قال: فاستخلفت عليهم مولى قال: إنه قار لكتاب الله تعالى ، وإنه عالم بالفرآئض ، قال عمر رضی اللہ عنہ : أما إن نبيكم صلی اللہ علیہ وسلم قد قال: إن الله تعالى يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين
صحیح مسلم ، کتاب صلاة المسافرين، رقم : 1897 ۔
” اور سید نا عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ نافع بن عبد الحارث عسفان کے علاقے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملے ، جبکہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں مکہ کا امیر بنایا ہوا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ( آپ عسفان میں ہیں اور اپنی عدم موجودگی میں) آپ نے اہل مکہ پر کسے امیر مقرر کیا ہے؟ نافع بن عبدالحارث نے عرض کی: ابن ابزئی کو ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابزئی کون ہیں؟ انھوں نے کہا: ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے ان پر ایک غلام کو امیر مقرر کر دیا ہے؟ نافع نے کہا: وہ قرآن کا (بہترین) قاری اور فرائض کے علم کا ( بہت بڑا) عالم ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی وجہ سے قوموں کو عزت و شرف بخشتا ہے اور اسی کتاب (سے روگردانی ) کی وجہ سے کچھ کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شہادت کی موت کی تمنا
حدیث 36
وعن زيد بن أسلم عن أبيه عن عمر رضي الله عنه قال: أللهم ارزقني شهادة فى سبيلك ، واجعل موتي فى بلد رسولك
صحيح البخاري، كتاب فضائل المدينة، رقم : 1890.
” اور جناب اسلم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت کی موت دینا اور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت دینا۔ “
حضرت عمر رضی الله عنہ غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے
حدیث 37
وعن أبو محذورة: كنت جالسا عند عمر رضى الله عنه ، إذ جاء صفوان بن أمية بجفنة يحملها نفر فى عباءة ، فوضعوها بين يدي عمر ، فدعا عمر ناسا مساكين وأرقاء من أرقاء الناس حوله ، فأكلوا معه ، ثم قال عند ذلك: فعل الله بقوم – أو قال: لحا الله قوما – يرغبون عن أرقائهم أن يأكلوا معهم ، فقال صفوان: أما والله، ما نرغب عنهم، ولكنا نستأثر عليهم ، لا نجد والله من الطعام الطيب ما نأكل ونطعمهم
الأدب المفرد، باب هل يجلس خادمه معه إذا أكل ، رقم : 201۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ سید نا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ایک بڑا پیالہ لے کر آئے، جسے چند آدمی ایک چادر میں اٹھائے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس پیالے کو سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دیا۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے مسکین اور اپنے گرد موجود لوگوں کے غلاموں کو بلایا۔ انھوں نے آپ رضی اللہ عنہ ( سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ) ان کے ساتھ کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا برا کرے جو اپنے غلاموں کے ساتھ کھانے سے گریز کرتے ہیں ۔ سید نا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم تو ان سے گریز نہیں کرتے لیکن ان پر اپنے نفسوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! ہمیں اتنا اچھا کھانا نہیں ملتا جو خود بھی کھائیں اور انھیں بھی کھلائیں۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سچائی کے ساتھ فیصلہ کرتے
حدیث 38
وعن سعيد بن المسيب : أن عمر بن الخطاب اختصم إليه مسلم ويهودي ، فرأى عمر أن الحق لليهودي ، فقضى له، فقال له اليهودي : والله لقد قضيت بالحق فضربه عمر بن الخطاب بالدرة ، ثم قال : وما يدريك ؟ فقال له اليهودي : إنا نجد أنه ليس قاض يقضي بالحق ، إلا كان عن يمينه ملك ، وعن شماله ملك ، يسددانه ويوفقانه للحق مادام مع الحق ، فإذا ترك الحق عرجا وتركاه
الموطأ، كتاب الأقضية، رقم : 1413 ۔ شیخ سلیم الہلالی نے اسے” موقوف صحیح “کہا ہے۔
”امام سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان اور یہودی ایک جھگڑا لائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس میں حق پر یہودی ہے۔ چنانچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہودی کہنے لگا: واللہ ! آپ نے حق فیصلہ کیا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے درہ مارا اور کہا : تجھے اس کا کیسے علم ہوا ؟ یہودی نے کہا: ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں کہ جو قاضی حق کا فیصلہ کرے اس کے دائیں اور بائیں جو دو فرشتے ہیں وہ اسے راہ راست پر رکھتے ہیں اور حق کی توفیق دلاتے ہیں جب تک وہ حق پر رہتا ہے، اور جب حق ترک کر دیتا ہے وہ اسے چھوڑ کر اوپر چلے جاتے ہیں۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زہد و تقویٰ
حدیث 39
وعن أبو بردة بن أبى موسى الأشعري قال: قال لي عبد الله بن عمر عمر: هل تدري ما قال أبى لأبيك؟ قال: قلت: لا قال: فإن أبى قال لأبيك يا أبا موسى هل يسرك إسلامنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهجرتنا معه وجهادنا معه وعملنا كله معه برد لنا وأن كل عمل عملناه بعده نجونا منه كفافا رأسا برأس؟ فقال أبى لا والله ، قد جاهدنا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وصلينا وصمنا وعملنا خيرا كثيرا ، وأسلم على أيدينا بشر كثير وإنا لنرجو ذلك ، فقال أبى لكني أنا والذي نفس عمر بيده لوددت أن ذلك برد لنا ؟ وأن كل شيء عملناه بعد نجونا منه كفافا رأسا برأس ، فقلت: إن أباك والله خير من أبي
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، رقم : 3915 .
”اور جناب ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا تجھے علم ہے کہ میرے والد (عمر رضی اللہ عنہ ) نے تمھارے والد (ابو موسی رضی اللہ عنہ ) سے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا: مجھے علم نہیں۔ انھوں نے کہا: میرے والد نے تمھارے والد سے کہا تھا: اے ابوموسیٰ! کیا یہ بات تمھارے لیے خوشی کا باعث ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہمارا اسلام لانا، آپ کے ہمراہ ہمارا ہجرت کرنا، آپ کے ہمراہ ہمارا جہاد کرنا، الغرض آپ کے ہمراہ ہمارے تمام اعمال ہمارے لیے ٹھنڈک کا باعث ہوں، اور وہ اعمال جو ہم نے آپ کے بعد کیے ہیں وہ برابری کے معاملے پر ختم ہو جائیں، نہ ہمیں ان کا ثواب ملے اور نہ ان کے متعلق باز پرس ہی ہو۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں، کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جہاد کہا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، اور بہت سے اعمال خیر بجا لائے، ہمارے ہاتھ پر ایک مخلوق نے اسلام قبول کیا، لہذا ہم تو اس کے ثواب کی بھی امید رکھتے ہیں۔ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن جہاں تک میرا سوال ہے، تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری خواہش ہے کہ ہمارے وہ اعمال ہی محفوظ رہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کیے ہیں اور جتنے اعمال ہم نے آپ کے بعد کیے ہیں ان سب کے بدلے میں ہم سے برابری کا معاملہ کیا جائے ، صرف یہ ہو کہ ہم نجات پا جائیں، نہ ثواب ہو اور نہ عقاب۔ ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! آپ کے والد میرے والد سے بہر حال بہتر تھے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت عمر رضی اللہ عنہ کا اتباع
حدیث 40
وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر وعمر
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم : 3662، سنن ابن ماجة، رقم : 97 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اتباع کرنا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين