عصماء بنت مروان کے قتل کا واقعہ – ایک تحقیقی و شرعی تجزیہ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 140

سوال

بنو خطمہ کے امام اور قاری حضرت عمیر بن عدی الخطمیؓ نے یہودیہ عورت عصماء بنت مروان کو قتل کیا۔ کیا یہ واقعہ درست ہے؟ اور اگر درست ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، اما بعد:

حضرت عمیر بن عدی الخطمیؓ کا عصماء بنت مروان کو قتل کرنا ایک تاریخی واقعہ ہے، جسے حافظ ابن حجر نے الاصابہ (جلد 3، صفحہ 34) میں واقدی، ابن السکن، ابو احمد عسکری، ابو العباس سراج اور بغوی جیسے محدثین کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

ابن ہشام نے بھی اپنی سیرت (2؍637) میں اس واقعے کو بیان کیا ہے، جبکہ ابن عبدالبر نے "الاستیعاب” میں یہ وضاحت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"لَا یَنْتَطِحُ فِیہَا عَنْزَان”

جملہ "لَا یَنْتَطِحُ فِیہَا عَنْزَان” کا مطلب

اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ عصماء کی ہلاکت اتنی غیر اہم اور غیر متنازعہ ہے کہ اس پر کوئی جھگڑا یا اختلاف نہیں ہوگا، گویا یہ ایک فطری اور واجب انجام تھا۔

ابن اثیر نے اس جملے کی وضاحت "النہایہ” (4؍162) میں یوں کی:

"یہ ایسا معاملہ ہے جس میں دو کمزور جانور بھی آپس میں نہیں ٹکرائیں گے، کیونکہ بکریاں آپس میں نہیں لڑتیں، برخلاف مینڈھوں اور سانڈوں کے۔”

اس کا مطلب یہ ہے کہ عصماء کا قتل نہ صرف مباح الدم (جس کا خون بہانا جائز ہو) تھا، بلکہ اس کی سزا اتنی واضح اور واجب تھی کہ کسی کو اس پر اعتراض نہ ہوگا۔

عصماء بنت مروان کون تھی؟

یہ ایک یہودیہ شاعرہ تھی جو نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز شاعری کرتی،

مسلمانوں کی توہین، اہلِ ایمان کے حوصلے پست کرنا، اور فتنہ و فساد پھیلانا اس کا معمول تھا،

وہ نبی کریم ﷺ کے خلاف کھلی بغاوت اور دشمنی پر آمادہ تھی۔

اسی لیے حضرت عمیر بن عدیؓ نے، نبی کریم ﷺ کی رضامندی سے، اس فتنے کا خاتمہ کیا۔

پیغام کا اثر اور ایک تاریخی مثال

نبی کریم ﷺ کا مذکورہ فقرہ (دو بکریاں بھی نہیں لڑیں گی) اتنا جامع اور حکیمانہ تھا کہ بعد میں حضرت عدی بن حاتمؓ کے ایک مقولے پر بھی اس کا تقابل کیا گیا۔

عدیؓ نے حضرت عثمانؓ کے قتل کو معمولی قرار دیا تھا، لیکن بعد کے حالات (جنگ جمل و صفین، بیٹوں کی شہادت وغیرہ) نے ان کے قول کی غلطی واضح کر دی۔

نتیجہ

عصماء نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف بغاوت، تحقیر اور اشتعال انگیزی کی انتہا کر دی تھی،

اس کا قتل ایک فتنہ کے خاتمے کے لیے تھا، نہ کہ کسی ذاتی انتقام کے طور پر،

نبی کریم ﷺ نے اس پر کسی قصاص یا مواخذے کی ضرورت محسوس نہیں کی،

یہ قتل نہ صرف شرعاً جائز بلکہ فتنہ کے خلاف نبوی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔

ھذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1