تہجد کا ارادہ رکھنے والے شخص کا عشاء کے بعد وتر پڑھنے کا مسئلہ
سوال:
اگر کوئی شخص تہجد کی نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن اسے خدشہ ہو کہ وہ رات کو جاگ نہ پائے گا، تو کیا وہ عشاء کے بعد وتر پڑھ سکتا ہے؟ اور اگر بعد میں جاگ جائے تو تہجد پڑھ لے؟ کیا اس عمل کی کوئی شرعی دلیل موجود ہے؟ جبکہ ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ وتر کے بعد کوئی نماز نہیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ : اِنَّ هٰذَا السَّهْرَ جُهْدٌ وَثِقْلٌ ، فَاِذَا أَوْتَرَ اَحَدُکُمْ فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ فَاِنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ ، وَاِلاَّ کَانَتَا لَه»
(رواه الدارمى، مشكوة المصابيح، باب الوتر، الفصل الثالث)
ترجمہ:
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ:
"رات کی بیداری (یعنی تہجد) ایک مشقت اور بھاری عمل ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی وتر پڑھ لے تو دو رکعتیں نفل ادا کرے۔ اگر رات کو جاگ جائے تو مزید تہجد پڑھے، ورنہ یہی دو رکعتیں اس کے لیے کافی ہوں گی۔”
اس حدیث سے حاصل شدہ احکام:
❀ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
❀ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان:
«اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلاَتِکُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا»
(صحیح مسلم، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی، والوتر رکعۃ من آخر اللیل)
"رات کی اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ”
یہ حکم واجب (فرض) کے معنی میں نہیں بلکہ مستحب (افضل اور بہتر) کے معنی میں ہے۔
آپ نے جو بات نقل کی:
"وتر کے بعد کوئی نماز نہیں”
اس بارے میں عرض ہے کہ مجھے ایسی کوئی صحیح اور صریح حدیث معلوم نہیں جو اس بات کو قطعی طور پر ثابت کرے۔
بلکہ مذکورہ بالا روایت سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز ممکن ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب