سوال
کیا طہارت، نماز اور دیگر عبادات میں نیت کا زبان سے ادا کرنا مستحب ہے؟ کیونکہ بعض فقہاء اور متأخرین اسے مستحسن قرار دیتے ہیں؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
نیت کا زبان سے ادا کرنا:
بدعت اور قبیح عمل
نیت زبان سے ادا کرنا ایک قبیح بدعت ہے۔
سلف صالحین اور علمائے سابقین میں سے کسی نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیا۔
استحباب کے لیے شرعی دلیل درکار ہے، جو اس مسئلے میں موجود نہیں۔
علمائے کرام کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں جنہوں نے نیت کے زبان سے تلفظ کو بدعت کہا ہے۔
اقوال علماء:
➊ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ – رد المختار (1/279):
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کوئی صحیح حدیث ثابت ہے نہ ضعیف کہ آپ نے نماز شروع کرتے وقت کہا ہو: میں فلاں نماز پڑھتا ہوں… نہ صحابہ و تابعین سے ثابت ہے… نہ ائمہ اربعہ سے۔ منقول صرف یہ ہے کہ آپ کھڑے ہو کر ‘اللہ اکبر’ کہتے تھے۔”
➋ مرقاۃ (1/41):
"نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز نہیں، یہ بدعت ہے۔ متابعت، کسی کام کو کرنے یا چھوڑنے دونوں صورتوں میں ہوتی ہے۔ جو شخص ایسا کام مسلسل کرتا ہے جو رسول نے نہیں کیا، وہ بدعتی ہے۔”
➌ امام ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ – زاد المعاد (1/69):
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو صرف ‘اللہ اکبر’ کہتے، نیت زبان سے ادا نہیں فرماتے تھے۔… یہ دس بدعات میں شامل ہے جن میں سے ایک بھی حدیث (صحیح، ضعیف یا مرسل) سے ثابت نہیں۔ نہ صحابہ سے، نہ تابعین سے، نہ ائمہ اربعہ سے۔”
امام شافعیؒ کے قول سے بعض متأخرین نے دھوکہ کھایا، جبکہ امام شافعی کی مراد "ذکر” سے "تکبیر تحریمہ” تھی، نہ کہ نیت کا تلفظ۔
اغاثۃ اللہفان (1/136) – ابن القیم رحمہ اللہ:
فصل اول: نماز، طہارت اور نیت
نیت کا محل دل ہے، زبان سے کوئی تعلق نہیں۔
نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، نہ صحابہ سے نیت کے الفاظ منقول ہیں۔
نیت کے الفاظ شیطان کی طرف سے وسوسہ زدہ افراد کے لیے ایک جال ہے۔
قرائن و حالات سے نیت کا اندازہ ہو جاتا ہے: جیسے شخص نماز کے وقت بیٹھا ہو اور جماعت کھڑی ہو تو جان لیا جاتا ہے کہ وہ نماز کی نیت کر رہا ہے۔
قولِ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
"بعض لوگ دس بدعات کرتے ہیں… نیت کے الفاظ بولتے ہیں، اعضا کو حرکت دیتے ہیں، ‘اللہ اکبر’ ایسے کہتے ہیں جیسے دشمن سے نبرد آزما ہوں… اگر کوئی عمر نوح پائے اور تلاش کرے کہ رسول یا صحابہ نے ایسا کیا تو کبھی نہ ملے گا… اگر اس عمل میں بھلائی ہوتی تو وہ ہم سے پہلے کرتے۔”
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ – الفتاویٰ (18/262):
نیت کا محل دل ہے۔
زبان سے کچھ نہ کہا جائے تب بھی نیت معتبر ہے – تمام علماء کا اتفاق ہے۔
بعض اصحابِ شافعی نے توجیہ پیش کی، مگر وہ غلطی پر ہیں۔
الفتاویٰ (22/238~263):
"نیت قصد و ارادے کو کہتے ہیں اور یہ دل کا عمل ہے، زبان کا نہیں۔”
دل سے نیت تمام ائمہ کے نزدیک کافی ہے، اس پر کوئی بھی معتبر اختلاف نہیں۔
تلفظ بالنیت کے قائل متأخرین میں سے بعض ہیں مگر یہ اجماع کے خلاف ہے۔
رسول، صحابہ، تابعین سے کبھی نیت کے الفاظ منقول نہیں۔
السنن والمبتدعات (1/28, 1/31):
"نیت کا زبان سے ادا کرنا، وضوء، غسل یا نماز کے وقت مستحب نہیں – یہ بدعت ہے۔”
"نیت کرنا فرض ہے، مگر اس کا محل دل ہے، زبان سے ادا کرنا مشروع نہیں بلکہ بدعت ہے۔”
عمدۃ الرعایہ مع حاشیہ شرح الوقایہ (1/159):
نیت کی تین صورتیں:
◈ دل سے نیت کرنا:
بالاتفاق کافی ہے، سنت اور صحابہ کا طریقہ یہی ہے۔
◈ صرف زبان سے نیت کرنا:
بالاتفاق کافی نہیں۔
◈ دل اور زبان دونوں سے نیت کرنا:
نہ سنت ہے، نہ مستحب۔
ابن الہمام نے فتح القدیر (1/332)، ابن القیم نے زاد المعاد، اور دیگر کتب میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔
خلاصہ
نیت کا محل صرف اور صرف دل ہے۔
زبان سے نیت کا اظہار کرنا بدعت ہے، نہ سنت ہے نہ مستحب۔
نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، نہ صحابہ، نہ تابعین، نہ ائمہ اربعہ نے اسے مستحسن قرار دیا۔
علماء سلف نے اسے قبیح بدعت قرار دیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب