طلاق کی ایک مجلس میں تین طلاقیں: رجوع اور نکاح کا شرعی حکم
ماخذ: احکام و مسائل، طلاق کے مسائل، جلد 1، صفحہ 331

طلاق کی تعداد اور رجوع کا حکم: قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی وضاحت

سوال کا پس منظر

ایک عورت کی شادی ہوئی اور اس سے پانچ بچے بھی پیدا ہوئے۔ وہ عورت تقریباً آٹھ سے دس سال تک اپنے شوہر کے ساتھ رہی۔ بعد ازاں، وہ تقریباً دو سال کے لیے اپنے میکے چلی گئی جبکہ بچے شوہر کے پاس رہے۔ دو سال بعد شوہر نے آ کر کہا:

’’میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں‘‘

یہ بات اس نے ایک ہی مجلس میں کہی۔ بعد میں اس نے باقاعدہ ایک تحریری کاغذ پر بھی دستخط کر دیے کہ:

’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘

یہ واقعہ ڈیڑھ ماہ قبل پیش آیا۔ اب عورت اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے، لیکن بچوں کی خاطر واپس جانا چاہتی ہے اور شوہر بھی راضی ہے۔ سوال یہ ہے کہ:

✿ کیا یہ دو طلاقیں شمار ہوں گی؟
✿ کیا عدت کے دوران رجوع ممکن ہے؟
✿ اگر عدت گزر چکی ہو تو نکاح کی صورت میں رجوع ممکن ہے؟
✿ چونکہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دی گئی ہیں، تو ان کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: فقہی و شرعی رہنمائی

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کی کیفیت

اس صورتِ حال میں جب شوہر نے بیوی سے کہا:

’’میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں‘‘

تو اسی وقت ایک طلاق واقع ہو گئی۔

بعد ازاں، اس نے تحریری طور پر بھی لکھا کہ:

’’میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں‘‘

اب اگر تحریر میں اس نے وہی زبانی طلاقیں دوبارہ درج کیں جو پہلے زبانی طور پر دی جا چکی تھیں، تو پھر ایک ہی طلاق شمار ہو گی۔

لیکن اگر تحریر الگ سے نیا طلاقی اقدام ہے تو یہ دو طلاقیں شمار ہوں گی۔

طلاق کی تعداد کے حوالے سے علما کا موقف

چونکہ ان دونوں طلاقوں کے درمیان رجوع نہیں کیا گیا، لہٰذا کئی علما اس بات کے قائل ہیں کہ ایسی صورت میں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔ ان علما میں شامل ہیں:

✿ حافظ ابن تیمیہؒ
✿ حافظ ابن قیمؒ
✿ حافظ گوندلویؒ

رجوع کا طریقہ

چاہے طلاق ایک شمار ہو یا دو، دونوں صورتوں میں:

✿ اگر عدت جاری ہے، تو بغیر نئے نکاح کے رجوع ممکن ہے۔
✿ اگر عدت ختم ہو چکی ہے، تو رجوع نئے نکاح کے ساتھ ممکن ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾
البقرة 228
"اور ان کے شوہر عدت کے دوران اگر اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو انہیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔”

اور فرمایا:

﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
البقرة 232
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں اگر وہ باہمی رضا مندی سے معروف طریقے سے نکاح کرنا چاہیں۔”

نتیجہ

✿ اگر طلاق ایک شمار ہوتی ہے تو رجوع عدت کے اندر ممکن ہے۔
✿ اگر طلاق دو شمار ہوتی ہے تب بھی رجوع عدت کے اندر ممکن ہے۔
✿ اگر عدت ختم ہو چکی ہو تو نیا نکاح کر کے واپس لوٹنا جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1