طارق جمیل صاحب کی بیان کردہ روایتیں
سوال
طارق جمیل، جو تبلیغی جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک معروف واعظ ہیں، انہوں نے اپنے ایک بیان میں ایک واقعہ نہایت تفصیل سے بیان کیا۔ اس واقعے کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’سعد السلیمی رضی اللہ عنہ، جو بنو سلیم قبیلے کے فرد اور بدصورت و سیاہ رنگت والے تھے، کو نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم
نے حکم دیا: ’’جاؤ عمرو (بن وھب الثقفی) سے کہو کہ وہ اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دے دے۔‘‘جب سعد رضی اللہ عنہ، عمرو بن وھب کے دروازے پر پہنچے اور بات بتائی تو عمرو نے صاف انکار کر دیا: ’’دفع ہو جا، کیا بات کرتا ہے؟‘‘ اس وقت عمرو کی بیٹی، جو حسن و جمال میں مشہور اور خوبصورت تھی، بولی: ’’اے اباجان! ذرا سوچو کیا کرنے جا رہے ہو؟ آپ نبی کے حکم کو رد کر رہے ہو، ہلاک ہو جاؤ گے! میں تیار ہوں، میں نبی کے حکم کے سامنے کالا یا گورا نہیں دیکھ رہی، میں تو صرف نبی کا حکم دیکھ رہی ہوں، جاؤ اور کہہ دو: میں نکاح کے لیے راضی ہوں۔‘‘
چنانچہ ان دونوں کا نکاح چار سو درہم مہر پر طے پا گیا۔
یہ واقعہ طارق جمیل صاحب کے بیان کردہ مجموعہ
’’ایمان افروز اصلاحی واقعات‘‘
کے تحت شامل کتاب
’’دلچسپ اصلاحی واقعات‘‘
(مرتب: محمد ارسلان اختر) کے صفحات
220 تا 223
پر درج ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طارق جمیل صاحب کی بیان کردہ یہ روایت درج ذیل سند کے ساتھ بعض کتب میں موجود ہے:
’’سوید بن سعید: ثنا محمد بن عمر الکلاعی عن الحسن وقتادہ عن انس رضی اللہ عنہ‘‘
یہ روایت درج ذیل کتب میں پائی جاتی ہے:
❀ کتاب المجروحین لابن حبان (جلد ۲، صفحہ ۲۹۱ تا ۲۹۲)
❀ الکامل لابن عدی (جلد ۲، صفحہ ۲۲۱۵ تا ۲۲۱۶)
اس روایت کی سند کے راویوں پر محدثین کی آراء:
1. امام حاکم النیسابوری اس روایت کے راوی محمد بن عمر کے بارے میں فرماتے ہیں:
روی عن الحسن وقتادۃ حدیثا موضوعا، روی عنہ سوید بن سعید
(المدخل للحاکم: صفحہ ۲۰۵، ت۱۸۶، لسان المیزان: جلد ۵، صفحہ ۳۱۹ واللفظ لہ)
یعنی امام حاکم کے نزدیک یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
2. امام ابن عدی، محمد بن عمر الکلاعی کے بارے میں فرماتے ہیں:
منکر الحدیث عن ثقات الناس
(الکامل: جلد ۶، صفحہ ۲۲۱۵)
یعنی یہ راوی ثقہ راویوں سے منکر (قابل رد) روایات بیان کرتا ہے۔
3. حافظ ابن حبان اس کے متعلق فرماتے ہیں:
منکر الحدیث جدا
(المجروحین: جلد ۲، صفحہ ۲۹۱)
یعنی یہ راوی سخت درجے کی منکر روایات بیان کرنے والا ہے۔
خلاصۂ تحقیق:
یہ روایت جسے طارق جمیل صاحب نے اپنے بیان میں تفصیل سے ذکر کیا ہے،
محدثین کرام کے نزدیک موضوع (من گھڑت) ہے اور اس کی سند کے راوی
قابل اعتماد نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب