حدیثِ صحیح و سقیم کی عام معرفت: ایک تفصیلی وضاحت
سوال کی بنیاد:
ایک اسلامی جماعت سے وابستہ عالم دین نے "سنتِ رسول” (مصنفہ شیخ مصطفی السباعی، مترجم غلام علی) کے ایک مقام پر غور کرتے ہوئے اپنی الجھن کا اظہار کیا۔ وہاں امام حاکم نیشاپوری کے اقوال میں ایک بیان زیرِ بحث آیا:
"سنت کو علمِ روایت، محافظت اور اس کے اصول و مصادر سے متعلق علوم کی متعدد اقسام ہیں۔ امام حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں 52 اقسام بیان کی ہیں۔”
ان میں سے پانچویں قسم "حدیث صحیح و سقیم کی عام معرفت” ہے۔ اس کی تشریح میں حضرت ابن عمر کی روایت "صلوٰۃ اللیل والنہار مثنی مثنی” کو بطور مثال ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:
"یہ علم صرف اسناد کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ فہم، حفظ، کثرتِ سماع اور اہل علم سے مذاکرہ بھی ضروری ہے۔”
سوال:
کیا امام حاکم کا یہ بیان اہل حدیث کے مسلک کے خلاف ہے؟
جواب:
نہیں، امام حاکم کا یہ قول مسلک اہل حدیث کے خلاف نہیں۔ بلکہ ان کا مقصود صرف یہ ہے کہ کسی حدیث کے راویوں کا ثقہ ہونا اس حدیث کے صحیح ہونے کے لیے کافی نہیں، جب تک کہ خفیہ علل (علل خفیہ قادحہ) اور شذوذ وغیرہ سے اس کی براءت ثابت نہ ہو جائے۔ ایک ماہر محدث ہی متن یا سند کی کسی چھپی ہوئی علت کو پہچان کر اسے معلول قرار دیتا ہے۔
تفصیلی وضاحت:
اقوالِ محدثین:
❀ حافظ زیلعی حنفی:
"صحتِ اسناد، رجال کی ثقاہت پر موقوف ہے، لیکن صرف ثقاہت سے صحتِ حدیث لازم نہیں آتی، جب تک شذوذ اور علت کی نفی نہ ہو جائے۔”
(نصب الرایہ 1/347)
❀ حافظ عراقی:
"رجال کی ثقاہت سے اسناد صحیح ہو سکتی ہے، مگر حدیث میں شذوذ یا علت ہو تو وہ صحیح نہیں ہوتی۔”
(فتح المغیث)
❀ حافظ ابن حجر:
"اگرچہ رجال ثقات ہوں، تب بھی حدیث کے صحیح ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔”
(تلخیص، ص239)
❀ شیخ مبارکپوری:
"الہیثمی کا یہ کہنا کہ رجال ثقات ہیں، حدیث کی صحت پر دلالت نہیں کرتا۔ ممکن ہے روایت مختلط ہو یا راوی نے اس سے سماع نہ کیا ہو، یا روایت میں کوئی علت یا شذوذ ہو۔”
(تحفۃ الاحوذی 1/190)
امام حاکم کی مثال:
حضرت ابن عمر کی روایت "صلوٰۃ اللیل والنہار مثنی مثنی” بظاہر صحیح ہے کیونکہ تمام راوی ثقہ ہیں۔ مگر امام حاکم سمیت متعدد ائمہ نے اس میں "والنھار” کی زیادتی کو معلول قرار دیا ہے۔
❀ حافظ ابن حجر:
"اکثر ائمہ نے اس زیادتی کو علت بتایا ہے کیونکہ ابن عمر کے ثقہ شاگردوں نے یہ زیادتی نقل نہیں کی۔ نسائی نے راوی کو اس میں خطا کا مرتکب قرار دیا، یحیی بن معین نے کہا: ‘علی الازدی سے جب یہ روایت آئی تو قبول نہ کی گئی۔'”
(فتح الباری 2/479)
صحیح حدیث کا علم کیسے حاصل ہو:
امام حاکم کی اصل عبارت:
"صحیح حدیث صرف ثقہ راوی کی روایت سے نہیں پہچانی جاتی، بلکہ فہم، حفظ، کثرتِ سماع اور اہل فہم سے مذاکرہ سے معلوم ہوتی ہے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث، ص58-60)
علمِ حدیث کی اقسام اور امام حاکم:
امام حاکم نے "معرفت صحیح و سقیم” کو "معرفت علل الحدیث” سے علیحدہ بیان کیا، لیکن ان کا اصل مقصد ایک ہی ہے، یعنی حدیث کی صحت کا علم حاصل کرنا۔
❀ ابن الصلاح:
"معرفت علل حدیث، علم حدیث کا سب سے اعلیٰ اور باریک علم ہے، جسے صرف بڑے حفاظ اور فہم رکھنے والے جان سکتے ہیں۔”
(مقدمہ ابن الصلاح، ص115)
حاکم کے قول کا مطلب:
امام حاکم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ:
◈ سند صحیح ہو، تب بھی حدیث کی صحت پر فیصلہ کرنے سے پہلے:
– علت کی نفی
– شذوذ کی نفی
– علم، فہم اور کثرت سماع ضروری ہے۔
◈ یہ نقطۂ نظر اہل حدیث کے مسلک سے ہم آہنگ ہے، نہ کہ مخالف۔
درایت اور مسلک اہل حدیث:
غلط فہمیاں:
❀ یہ الزام غلط ہے کہ اہل حدیث صرف سند پر اعتماد کرتے ہیں اور درایت کو نظر انداز کرتے ہیں۔
❀ حقیقت یہ ہے کہ اہل حدیث اور ائمہ محدثین نے ہمیشہ فہم، عقل اور درایت کو تنقیدِ حدیث میں استعمال کیا ہے۔
❀ طاش کبری زادہ کی تعریف:
"علم درایت الحدیث وہ علم ہے جو الفاظِ حدیث سے مفہوم اخذ کرنے، ان کے معانی اور شرعی ضوابط سے مطابقت پر بحث کرتا ہے۔”
(مفتاح السعادہ 2/2)
درایت کی وہ اقسام جو اہل حدیث نہیں مانتے:
➊ ابن خلدون کی تاریخی درایت
(انسانی طبیعت، سیاست، احوالِ اجتماع سے استدلال پر مبنی)
➋ سیرۃ النعمان کی عقلی درایت
(قرائن، حالات، طبع انسانی کی بنیاد پر درایت)
➌ متکلمین کی درایت
(جب احادیث عقل کے خلاف ہوں تو رد کرنا)
➍ نیچریوں اور مستشرقین سے متاثر درایت
(احادیث کی تاویلات یا رد محض مغربی اثرات سے)
مولانا مودودی اور درایت:
❀ مولانا مودودی نے "مسلکِ اعتدال” میں حدیث، فقہاء اور ائمہ کے بارے میں کچھ ایسے خیالات پیش کیے جو دراصل متاخرین حنفیہ کے رجحانات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
❀ الحمد للہ، مولانا محمد اسماعیل سلفی نے ان پر مدلل تنقید کی اور اس دعوے کی تردید کی کہ ائمہ حدیث درایت سے بے بہرہ تھے۔
علامہ طاہر الجزائری کے مطابق: تین رویے
➊ سند پر زور دینے والے:
– صرف سند دیکھ کر حدیث کو صحیح قرار دے دیتے ہیں، متن پر غور نہیں کرتے۔
➋ صرف درایت والے:
– متن کو عقل کے پیمانے پر پرکھتے ہیں، سند کمزور ہو تب بھی قبول کرتے ہیں۔
➌ معتدل گروہ (اہل حدیث):
– سند اور متن دونوں کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں، بغیر تعصب و تساہل کے۔
اختتامی تبصرہ:
دیوبندی علماء کی مخالفت:
❀ بعض دیوبندی علماء اہل حدیث سے:
– علمی، فقہی، اور تعلیمی میدان میں بغض رکھتے ہیں۔
– صحیح بخاری اور محدثین پر تنقید کرتے ہیں۔
– اہل حدیث طلبہ کو مدارس میں برداشت نہیں کرتے۔
– امام بخاری اور صحیح حدیث پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
مولانا مودودی کی تحریریں:
❀ مودودی صاحب کے خیالات ابن ہمام اور زاہد کوثری کی ہم نوائی کرتے نظر آتے ہیں۔
❀ ان کے بیان کردہ نظریات "اعتدال” کے بجائے اہل حدیث کے خلاف شدید تنقید پر مبنی ہیں۔
دعا:
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فہم عطا فرمائے، حدیث نبوی ﷺ کا صحیح ادراک اور تحقیق کرنے کی توفیق دے، اور دشمنانِ سنت کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔