صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہنسنا، کھیلنا اور عبادت – ایک تحقیقی جائزہ صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد 1، اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 619

صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ہنسنا – ایک تحقیقی جائزہ

سوال:

کیا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ہنستے تھے؟ اس بارے میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ایک روایت کے بارے میں وضاحت فرمائیں، جس میں بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہنستے تھے؟ نیز بلال بن سعد کا بیان کہ وہ تیر اندازی کرتے، کھیلتے اور ہنستے تھے لیکن رات کو عبادت گزار ہوتے تھے – کیا یہ روایت صحیح ہے؟

روایت کا حوالہ:

"قتادہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہنستے تھے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔ اور بلال بن سعد بیان کرتے ہیں: میں نے ان کو دیکھا کہ وہ تیر اندازی کرتے ہوئے، نشانوں پر تیر چلاتے، اور آپس میں ہنستے کھیلتے تھے، لیکن رات کے وقت عبادت گزار بن جاتے تھے۔”
(مشکوۃ المصابیح حدیث 7479، شرح السنہ 12/318)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

یہ روایت شرح السنہ للبغوی (جلد 12، صفحہ 318، قبل حدیث 3302) میں "قال معمر عن قتادہ” کے الفاظ سے بغیر کسی مکمل سند کے نقل کی گئی ہے۔

اس روایت کے مؤیدات:

  1. صحیح مسلم
    کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح، حدیث 670
    اس روایت کے مفہوم کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث سے ہوتی ہے۔
  2. الادب المفرد للبخاری
    حدیث نمبر 266
    اس روایت کے بعض پہلوؤں کی تائید "الادب المفرد” میں موجود ایک صحیح شاہد سے بھی ہوتی ہے۔

ایک اور شاہد روایت:

"كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَادَحُونَ بِالْبِطِّيخِ ، فَإِذَا كَانَتِ الْحَقَائِقُ كَانُوا هُمُ الرِّجَالَ”
"یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) ایک دوسرے پر تربوز (یا خربوزے) کے ٹکڑے پھینکا کرتے تھے، لیکن جب حقائق (یعنی اہم امور یا جنگ و جہاد جیسے مواقع) پیش آتے تو وہی لوگ مردانِ میدان بن جاتے تھے۔”

اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (شہادت: جون 2003ء)

نتیجہ:

یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین طبعی خوش طبعی رکھتے تھے، وہ باہم کھیلتے، ہنستے اور تفریح کرتے تھے، لیکن جب سنجیدہ معاملات یا عبادت کی بات آتی تو وہ نہایت سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ عمل کرتے تھے۔ ان کا ایمان پہاڑوں سے بھی مضبوط تھا، اور ان کی عبادت شب بیداری پر مشتمل ہوتی تھی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1