اب ہم شیطان کے دوستوں کا ذکر قرآنی آیات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ تاکہ ان سے دوستی نہ کی جائے اور حتی الوسع ان سے اجتناب کیا جائے۔
شیطان کے دوستوں کا انجام
﴿وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا ﴿١٢١﴾
(4-النساء: 119تا121)
”اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور انہیں ضرور حکم دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹیں اور انہیں ضرور حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت کو بدلیں اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے تو یقیناً اس نے واضح خسارہ اٹھایا۔ وہ انہیں وعدے دیتا ہے، اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں دھو کے کے علاوہ اس کے وعدوں کی کوئی حقیقت نہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ، اور وہ اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے۔“
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠﴾
(18-الكهف: 50)
”اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنارہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کے لیے برا بدلہ ہے۔ “
اللہ کو چھوڑ کر غیر کی عبادت کرنے والا شیطان کا دوست ہے
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿٤٢﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴿٤٣﴾ يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ﴿٤٤﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴿٤٥﴾ قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾
(19-مريم: 41)
”اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے جب کہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں؟ میرے مہربان باپ ! آپ دیکھئے، میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا تو آپ میری ہی مانیئے ، میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہنمائی کروں گا۔ میرے ابا جان ! آپ شیطان کی عبادت نہ کریں، شیطان تو رحم وکرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ ابا جی !مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے بے رغبتی کرنے والا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مارڈالوں گا۔ اور مجھے چھوڑ جا، اس حال میں کہ تو صحیح سالم ہے۔ کہا: اچھا تم پر سلام ہے۔ میں تو اپنے پرورگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، بے شک وہ مجھ پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔“
شیطان کے حواریوں سے دوستی کرنے والا گمراہ ہے
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١﴾
(60-الممتحنة: 1)
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور (خود ) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کا جو تمہارے پاس آچکا ہے انکار کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو) تم ان کے پاس محبت کے پیغام پوشیدہ پوشیدہ بھیجتے ہو ۔ اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا تم میں سے جو بھی یہ کام کوکرے گا۔ وہ یقیناً سیدھی راہ سے گمراہ ہو جائے گا۔“
«عن عبد الله بن مسعود، قال: خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطا ثم قال هذا سبيل الله، ثم خط خطوطا ، عن يمينه وعن شماله ، ثم قال هذه سبل على كل سبيل منها شيطان يدعو له وه إليه ، ثم تلا: وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله»
مسند احمد: 435/1 – مسنددار می ، 78/1، رقم: 202 – سنن ابن ماجه، مقدمه، رقم: 11 – علامه البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط کھینچا، اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے، پھر کچھ خطوط اس کے دائیں بائیں کھینچے اور فرمایا: یہ دوسرے راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ ”یقینا یہ میرا مستقیم راستہ ہے۔ پس اس کی اتباع کرو۔ اور شیطان کے راستوں کی اتباع نہ کرو۔ وگرنہ وہ تو تم کو اس کے راستے سے ہٹا دے گا۔“