شہادت عثمان رضی اللہ عنہ میں کوئی صحابی شریک نہیں
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ میں کوئی صحابی شریک نہیں

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مصر کے چند او باش اور فتنہ گرلوگوں نے شہید کیا، ان میں کوئی صحابی شریک نہیں ۔
✿ حافظ نووی رحمہ الله (676 ھ ) فرماتے ہیں:
لم يشارك فى قتله أحد من الصحابة .
شہادت عثمان رضی اللہ عنہ میں کوئی صحابی شریک نہیں ہوا۔(شرح النووي : 148/15)
✿ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
خيار المسلمين لم يدخل واحد منهم فى دم عثمان، لا قتل ولا أمر بقتله ، وإنما قتله طائفة من المفسدين فى الأرض من أوباش القبائل وأهل الفتن .
مسلمانوں کے بہترین لوگوں میں سے کوئی بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں شریک نہیں ہوا، نہ شہید کیا اور نہ شہید کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے تو فسادی، بد معاش اور فتنہ گرلوگوں کی ایک جماعت تھی۔ (منهاج السنة النبوية : 323/4)
✿ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
ليس فيهم صحابي، ولله الحمد
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں کوئی صحابی شامل نہیں تھا، وللہ الحمد ۔ (البداية والنهاية : 451/10)
✿ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لو أعلم بني أمية يقبلون مني لنفلتهم خمسين يمينا قسامة من بني هاشم ما قتلت عثمان ولا مالأت على قبله
اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ بنو امیہ والے میری بات مان لیں گے کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا اور نہ ان کی شہادت میں کسی کا ساتھ دیا ، تو میں بنو ہاشم کی طرف سے مصالحت میں پچاس قسمیں اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ (تاريخ المدينة لابن شبة : 1269/4 ، وسنده صحيح)

صحابہ تو دفاع کرتے رہے:

✿ سید نا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قلت لعثمان رضى الله عنه : إن معك فى الدار عصبة مستنصرة، ينصر الله تعالى بأقل منها، فأذن لي فلأقاتل، بأقل فقال رضى الله عنه : أنشد الله رجلا أهراق فى دمه، أو قال أهراق فى دما
میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : آپ کے ساتھ گھر میں (مسلمانوں کی) اتنی بڑی محافظ جماعت موجود ہے کہ اس سے کم لوگ بھی ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ غلبہ عطا کر دے گا۔ پس آپ اجازت دیں کہ میں (ان باغیوں سے )قتال کروں، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کا واسطہ ! ایک شخص کی خاطر کسی کا خون نہ بہایا جائے ، یا فرمایا: میری وجہ سے کسی کا خون نہ بہایا جائے۔ تاريخ خليفة بن خياط، ص 173 المطالب لابن حجر : 4391 ، وسنده صحيح
✿ کنانہ مولی صفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إنه شهد مقتل عثمان رضي الله عنه، قال : وأنا يومئذ ابن أربع عشرة سنة، قال : أمرتنا صفية بنت حيي أن نرحل بغلة بهودج فرحلناها، ثم مشينا حولها إلى الباب، فإذا الأشتر وناس معه، فقال الأشتر لها : ارجعي إلى بيتك فأبت، فرفع قناة معه، أو رمحا، فضرب عجز البغلة، فشبت البغلة، ومال الهودج حتى كاد أن يقع، فلما رأت ذلك قالت : ردوني، ردوني، وأخرج من الدار أربعة نفر من قريش مضروبين محمولين، كانوا يدره ون عن عثمان، فذكر الحسن بن علي، وعبد الله بن الزبير، وأبا حاطب والصحيح : محمد بن حاطب ومروان بن الحكم ، قلت : فهل ندي محمد بن أبى بكر بشيء من دمه، فقال : معاذ الله دخل عليه ، فقال له عثمان : لست بصاحبه، وكلمه بكلام فخرج ولم يند من دمه بشيء ، قلت : فمن قتله؟ قال رجل من أهل مصر يقال له : جبلة بن أيهم فجعل ثلاثا يقول : أنا قاتل نعتل قلت : فأين عثمان يومئذ؟ قال : فى الدار
میری عمر چودہ برس تھی، میں مقتل عثمان رضی اللہ عنہ میں حاضر تھا، ہمیں (ام المومنین ) سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہما نے خچر پر کاٹھی ڈالنے کا کہا، تو ہم نے خچر پر کاٹھی رکھی۔ پھر ہم آپ رضی اللہ عنہ کے ارد گرد (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے) دروازے تک چلتے رہے، وہاں دیکھا کہ اشتر ( مالک بن حارث ) اور اس کے ساتھی کھڑے تھے، اشتر نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہما سے کہا : آپ اپنے گھر واپس چلی جائیے ، مگر سیدہ نے انکار کیا، تو اشتر نے نیزہ اٹھایا اور خچر کی پیٹھ پر دے مارا، خچر بد کا اور اس نے اگلی ٹانگیں اٹھا لیں ، کاٹھی سرک گئی ، قریب تھا کہ نیچے گر جاتی، جب سیدہ نے یہ سلوک دیکھا، تو فرمایا : مجھے واپس لے جائیں، مجھے واپس لے جائیں۔ ( میں نے دیکھا ) قریش کے چار نو جوانوں کو گھر سے اُٹھا کر باہر لایا گیا، جو خون میں لت پت تھے ، یہ چاروں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے رہے ، وہ یہ تھے ، حسن بن علی ، عبد اللہ بن زبیر، محمد بن حاطب رضی اللہ عنہم ہے اور مروان بن حکم رحمہ اللہ ۔ ( راوی محمد بن طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ) میں نے کنانہ رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں شریک تھے؟ فرمایا: معاذ اللہ! وہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تھے، تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: آپ مجھے قتل کرنے والے نہیں ہیں، اس کے علاوہ بھی گفتگو ہوئی ۔ تو محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ نکل آئے اور دم عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک نہ ہوئے ۔ (راوی) محمد بن طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے کنانہ رحمہ اللہ سے پوچھا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو کس نے شہید کیا؟ فرمایا : عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک مصری (یہودی) نے شہید کیا،
جس کا نام جبلہ بن ایہم تھا، پھر اس نے (مدینہ (کی گلیوں) میں تین چکر لگائے اور ) تین بار یہ پکارا : میں (نعوذ باللہ!) نَعتَل (عثمان رض کا گستاخانہ نام) کا قاتل ہوں۔ میں نے پوچھا : شہادت والے دن سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کہاں تھے؟ فرمایا: ( اپنے) گھر میں۔ (مسند إسحاق بن راهويه : 2088، وسنده حسن)

چند روایات اور ان کا جائزہ:

✿ عبد الرحمن بن حاطب بن ابی بلتعہ رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
أنا أنظر إلى عثمان يخطب على عصا النبى صلى الله عليه وسلم التى كان يخطب عليها وأبو بكر وعمر رضي الله عنهما، فقال له جهجاه : قم يا نعتل، فانزل عن هذا المنبر، وأخذ العصا فكسرها على ركبته اليمنى، فدخلت شطية منها فيها، فبقي الجرح حتى أصابته الأكلة فرأيتها تدود، فنزل عثمان وحملوه وأمر بالعصا فشدوها، فكانت ببة، فما خرج بعد ذلك اليوم إلا خرجة أو خرجتين حتى حصر فقتل
میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ رہا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والی وہ لاٹھی پکڑ کر خطبہ دے رہے تھے، جس پر ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اور( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد) سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما خطبہ دیا کرتے تھے۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ سے جہجاہ رضی اللہ عنہ نے کہا :نعتل ! (نعتل مصر کے ایک شخص کا نام تھا، جس کی لمبی داڑھی تھی ، باغی لوگ سید نا عثمان رضی اللہ عنہ پر عیب جوئی کرتے ہوئے انہیں نعتل کہتے تھے ۔) اٹھو اور منیر سے نیچے اترو ۔جہجاہ رضی اللہ عنہ نے لاٹھی پکڑی اور اُن کے داہنے گھٹنے پر مار کر لاٹھی توڑ دی۔ لاٹھی کا چورا گھٹنے میں داخل ہو گیا ، تو اس سے زخم بن گیا، یہاں تک کہ اس میں خارش پڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ اس میں کیڑے پڑ گئے۔ بہر کیف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ منبر سے اتر گئے، (باغی) لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر لے گئے ۔ (بعد میں ) لاٹھی کو جوڑ دیا گیا اور اس پر لوہا چڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ صرف ایک یا دو بار باہر تشریف لائے ، یہاں تک کہ محاصرہ کر کے شہید کر دیے گئے ۔ (تاريخ الطبري : 366/4)

روایت جھوٹی ہے۔ محمد بن عمر واقدی ”متروک وکذاب “ہے۔

✿ نافع مولی ابن عمر رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
إن جهجاها الغفاري أخذ عصا كانت فى يد عثمان فكسرها على ركبته، فرمى فى ذلك المكان بأكلة .
"سیدنا جہجاہ غفاری رضی اللہ عنہ نے سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لاٹھی پکڑی اور ان کے گھٹنے پر مار کر توڑ دی، اس جگہ پر (بعد میں ) خارش پڑ گئی۔” (تاريخ الطبري : 368/4)

روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ نافع نے سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

✿ابو جبیبہ مولی عروہ رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا، تو جہجاہ غفاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور چیخ کر پکارا: اے عثمان ! ہم یہ سواری (اونٹنی ) لائے ہیں، اس پر ایک چوغہ اور طوق ہے، منبر سے نیچے اترو، ہم تمہیں وہ چوغہ پہنائیں گے، تمہاری گردن میں طوق ڈالیں گے اور اس سواری پر سوار کر کے جبل دخان پر پھینک دیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تمہیں اور تمہارے اس عمل کو نیست و نابود کرے!” تاریخ الطبری : 366/4

جھوٹی روایت ہے۔

① محمد بن عمر واقدی ”متروک و کذاب“ ہے۔
② ابو حبیبہ نے سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
✿ عقبہ بن مسلم رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
إن آخر خرجة خرجها عثمان يوم جمعة، فلما استوى على المنبر حصبه الناس، فقال رجل من غفار يقال له الجهجاه : والله لمغرينك إلى جبل الدخان، فنزل، فحيل بينه وبين الصلاة، فصلى للناس يومئذ أبو أمامة بن سهل بن حنيف
سید نا عثمان رضی اللہ عنہ آخری مرتبہ جمعہ والے دن باہر تشریف لائے ، منبر پر بلند ہوئے، تو باغیوں نے انہیں روک دیا۔ ایک غفاری جسے جہجاہ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم تجھے جبل دخان کی طرف لے جائیں گے تو عثمان رضی اللہ عنہ منبر سے نیچے اتر آئے ، آپ کو نماز سے بھی روک دیا گیا ، تو اس روز لوگوں کو سید نا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔“ (كشف المشكل لابن الجوزي : 167/1)

روایت سخت ضعیف ہے۔

① علی بن محمد بن ابی قیس کے بارے میں محمد بن احمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ضعيفا جدا. یہ سخت ضعیف تھا۔ (تاريخ بغداد للخطيب : 223/13)
② عقبہ بن مسلم نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
✿ سلیمان بن سیار رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
جہجاہ غفاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والی لاٹھی سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے پکڑی اور ان کے گھٹنے میں مار کر توڑ دی، جس سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں ( زخم ہونے کے بعد ) خارش پڑ گئی ۔“ (كشف المشكل لابن الجوزي : 167/1)

روایت سخت ضعیف ہے۔

علی بن محمد بن ابی قیس کے بارے میں محمد بن احمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ضعيفا جدا ” یہ سخت ضعیف تھا۔“ (تاریخ بغداد للخطيب : 223/13)
✿ عبدالواحد بن ابی عون رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
کنانہ بن بشر نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی پیشانی پر لوہے کے ہتھیار سے مارا ، تو آپ رضی اللہ عنہ پہلو کے بل زمین پر گر گئے ۔ اس کے بعد سودان بن حمران مرادی نے وار کیا اور شہید کر دیا، پھر عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ کود کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سینے پر چڑھ گئے ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں ابھی زندگی کی رمق باقی تھی، پھر عمرو رضی اللہ عنہ نے نو نیزے مارے اور کہا : تین نیزے اللہ کے لیے مارے ہیں اور باقی چھ نیزے اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے مارے ہیں۔ (طبقات ابن سعد : 74/3)

جھوٹی روایت ہے:

① محمد بن عمر واقدی ”متروک و کذاب “ہے۔
② عبد الواحد بن ابی عون رحمہ اللہ اس واقعہ کے شاہد نہیں ہیں۔
✿ سیدنا عثمان بن شرید رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
مر عثمان على جبلة بن عمرو الساعدي وهو بفناء داره ومعه جامعة، فقال : يا نعثل والله لأقتلنك ولأحملنك على قلوص جرباء، ولأخرجنك إلى حرة النار، ثم جاء : مرة أخرى وعثمان على المنبر فأنزله عنه
سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کا جبلہ بن عمر و ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ہوا، وہ گھر کے صحن میں تھے، اس کے پاس طوق تھا۔ اس نے کہا: اے نعثل ! اللہ کی قسم میں ضرور تجھے قتل کروں گا ، تیری لاشے کو خارش زدہ اونٹنی پر رکھ کر حرة النار نامی جگہ میں پھینک دوں گا۔ پھر ایک مرتبہ آیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے ، تو آپ رضی اللہ عنہ کو نیچے اتار دیا۔ (تاريخ الطبري: 365/4)

روایت جھوٹی ہے:

① محمد بن عمر واقدی ”متروک وکذاب“ ہے۔
② عبید اللہ بن رافع بن خدیج مجہول الحال ہے۔
③ عبید اللہ بن رافع کا سید نا عثمان بن شرید رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔
✿ عبد اللہ بن عبد الرحمن ہمدانی رحمہ اللہ سے منسوب ہے:
سید نا ابوطفیل عامر بن واثلہ کنانی رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا : ابوطفیل؟ فرمایا : جی ، معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں میں آپ بھی تھے؟ فرمایا نہیں ، البتہ وہاں موجود تھا، مگر اُن کی مدد نہ کر سکا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا مدد کیوں نہ کی؟ فرمایا: اُن کی مدد تو مہاجرین و انصار بھی نہ کر سکے، بلکہ آپ بھی تو مدد نہیں کر سکے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کر رہا ہوں، کیا یہ ان کی نصرت نہیں ہے؟ (تاريخ ابن عساکر : 117/26)

روایت سخت ضعیف ہے۔

① عبد اللہ بن عبد الرحمن ہمدانی کا تعین نہیں ہو سکا۔
② علی بن محمد مدائنی اور عبد اللہ بن عبد الرحمن کے درمیان انقطاع ہے، یا عبد اللہ بن عبد الرحمن ہمدانی اس واقعہ کا شاہد نہیں ہے۔
✿ یہ روایت عبد الرحمن ہمدانی سے بھی مروی ہے۔ (تاریخ ابن عساکر : 117/28)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1