شرک کی تعریف
مسئلہ زیر بحث کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور اصل جواب کے حصول کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شرک کسے کہتے ہیں اور شرک کی تعریف کیا ہے؟
لغوی طور پر ”شرک“ کے معنی ہیں ”حصہ“ مشہور لغوی علامہ ابن منظور لکھتے ہیں:
«شرك: الشركة و الشركة سواء: مخالطة الشريكين ….. وفي الحديث: من أعتق شركا له فى عبد أى حصة و نصيبا ـ وفي حديث معاذ: أنه أجاز بين أهل اليمن الشرك – أى الإشتراك فى الأرض ، وهو أن يدفعها صاحبها إلى آخر بالنصف أو الثلث أو نحو ذلك»
شرک ۔ الشركة اور الشركۃ ایک ہی ہیں۔ اس کے معنی شریکوں کا ملنا ۔ گڈ مڈ ہونا …. اور حدیث میں ہے جس کسی نے غلام میں اپنا ”شرک“ آزاد کر دیا یعنی اپنا حصہ چھوڑ دیا اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے فرمان میں ہے کہ انھوں نے اہل یمن کے درمیان ”شرک“ کی اجازت دی یعنی زمین میں اشتراک کی اجازت دی اور وہ یہ کہ زمین والا / زمیندار اپنی زمین کسی اور کو کام کرنے کے لئے دے پھر کھیتی میں سے آدھے حصے کے بدلے یا تہائی وغیرہ حصہ کے بدلے یا اسی طرح دے دے۔
(لسان العرب ج 2 ص 99 دوسرا نسخہ ج 10 ص 448، 449 ، ماده: شرک)
لغت کی معروف کتاب ”المعجم الوسط“ میں لکھا ہے:
«وـ فلانا فى الأمر شركا …. كان لكل منهما نصيب منه ـ فهو شريك»
(شرک کے معنی ہیں حصہ جسے کہا جاتا ہے ) فلاں شخص فلاں معاملہ میں شریک ہے۔ (تو اس کا مطلب ) دونوں میں سے ہر ایک کے لئے اس معاملہ میں کچھ حصہ ہے پس وہ ”شریک“ ہوا۔ (480/1)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک کے معنی ہیں حصہ اور شریک کے معنی ہیں حصہ دار۔
صرف مکمل برابری ہی شرک نہیں، بلکہ تھوڑی بہت برابری و حصہ داری بھی شرک ہے
اب اگر دو برابر کے حصہ دار ہوں تب بھی انھیں شریک یا حصہ دار کہا جائے گا اور کوئی برابر کا حصہ دار نہ بھی ہو بلکہ تہائی یا چوتھائی یا اس سے بھی کم کا حصہ دار ہو تب بھی اسے شریک یا حصہ دار ہی کہا جائے گا۔
کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ جناب فلاں شخص تو محض تہائی یا چوتھائی کا حصہ دار ہے، یہ کوئی حصہ یا شراکت تو نہ ہوئی لہذا اس کو ”شریک“ نہیں کہیں گے ، ہرگز نہیں ! بلکہ معمولی عقل و خرد کا حامل فرد بھی اسے حصہ دار و شریک ہی سمجھے اور کہے گا۔
اس لغوی بحث سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شرک صرف یہ نہیں کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے بالکل برابر سمجھا جائے یا غیر اللہ کے ساتھ بالکل برابر کا معاملہ رکھا جائے جیسا کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پھر اسی ”بالکل برابری“ کا خاکہ ذہن میں رکھتے ہوئے خود بھی دھوکہ وفریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو بھی اسی فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں اور عجیب عجیب مثالیں بیان کرنے لگتے ہیں جیسے بعض لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات لا محدود ہیں نہ کوئی انھیں شمار میں لاسکتا ہے، نہ ان کی حدود متعین کر سکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندے میں کوئی صفت کتنی ہی زیادہ مانے مگر وہ محدود مانے تو شرک نہیں، چونکہ اللہ کی صفات لا محدود ہیں لہذا برابری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب برابری نہیں تو شرک کہاں رہا؟ اور اسے شرک قرار دینے والے گویا اللہ تعالیٰ کی صفات کی حدود متعین کرنے والے ہیں سو یہ خود کفر ہے؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب شیطانی وساوس ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ﴾
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور نور کو بنایا پھر بھی جنھوں نے کفر کیا وہ اپنے رب کے ساتھ (اوروں کو ) برابر ٹھہرا رہے ہیں ۔ (ترجمہ از ضیاء القرآن) [الأنعام: 1]
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان کفار لوگوں نے اللہ رب العالمین کی تمام صفات کی حدود کو جان لیا تھا؟ ان کا پورا احاطہ کر لیا تھا؟ یقینا نہیں اور ہر گز نہیں۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ یہ کفار اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر ٹھہرا رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں کرم شاہ الازہری بھیروی صاحب کا یہ تفسیری نوٹ ملاحظہ کیجئے ، لکھا ہے کہ اس کا معنی ہے «اي ! يجعلون له عديلا» (مفردات) یعنی معبودانِ باطل کو خداوند تعالیٰ کا ہمسر اور اس کے برابر بنائے ہوئے ہیں۔ وہ کس طرح انھیں برابر و ہمسر بناتے تھے۔ اس کی وضاحت امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں کی ہے۔
«يعدلون: يجعلون له شريكا فى عبادتهم إياه فيعبدون معه الالهة والأنداد»
”یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ اپنے باطل خداؤں کی بھی عبادت کیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے برابر و ہمسر یقین کیا جا رہا ہے۔ “ (ضیاء القرآن ج ا ص 534)
فریق ثانی کے ”نامور پیر“ کرم شاہ الازہری صاحب کے اس فرمان سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ”برابر“ کا یہ مقصد قطعا نہیں کہ پوری طرح سے برابر مان لیا جائے کہ جس سے (معاذ اللہ ) اللہ عزوجل کی صفات کی حدود کا تعین اور ان کا احاطہ لازم آئے ۔ بلکہ کسی غیر اللہ کی عبادت کرنا ہی برابر و ہمسر جاننے کے لئے کافی ہے اور یہ شرک کی بدترین اقسام میں سے ہے۔
اب یہ عبادت خواہ عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی بھی قسم کی عبادت ہو۔ قیام رکوع ، سجدہ، قربانی، نذر، دعا وغیرہ۔ قرآن وسنت میں اس کی بہت سے مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ہم چند ایک کو بیان کئے دیتے ہیں تاکہ بات قدرے واضح ہو جائے:
اللہ کے ساتھ شرک کی چند مثالیں
پہلی مثال: شرک فی الدین
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ﴾
(االلہ نے) تمھارے لئے دین مقرر کیا۔ [الشورى: 13]
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اللہ نے بنائی اور جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ اپنے بزرگوں اور اکابر کے قوانین کی پیروی کر رہے تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ﴾ ”کیا ان کے لئے کچھ شرکاء ہیں؟ جنھوں نے ان کے لئے دین مقرر کیا جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔ “ [الشورى: 21]
حافظ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یعنی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کفار اس ”دین قویم“ (اسلام) کی پیروی نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ بلکہ یہ تو اس چیز کی پیروی کر رہے ہیں جو جن وانس میں سے ان کے شیاطین نے ان کے لئے مقرر کی ۔ تحریم (حرام کرنے ) میں سے جو ان پر حرام کیا جیسے (انھوں نے ) بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام (کو حرام کیا ) اور ان پر مردار ، خون اور جوا کو حلال قرار دیا، اسی طرح کی دیگر گمراہیاں باطل جہالتیں جو انھوں نے اپنی جاہلیت میں گھڑ رکھی تھیں حلت و حرمت میں سے اور باطل عبادات اور فاسد باتیں۔
صحیح بخاری (3521 و صحیح مسلم: 2856) میں یہ حدیث ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں دیکھا ، وہ اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا، چونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم ایجاد کی تھی“ (یعنی جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دینے کی رسم) یہ شخص خزاعہ قبیلے کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ سب کام کئے ، اسی نے قریش کو بتوں کی پوجا پر اکسایا، اللہ اس پر لعنت کرے اور اس کا بُرا ہو۔
(تفسیر ابن کثیر 497/5)
(1) بحیرہ وسائبہ وغیرھما کے متعلق مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں، ہم صحیح بخاری کتاب التفسیر سے جلیل القدر تابعی سیدنا سعید بن المسیب نے جو معنی نقل کئے ہیں وہ درج کر دیتے ہیں:
(2) بحيرة: وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بتوں کے لئے وقف کر دیا جاتا ، تو کوئی اس کا دودھ نہ دوہتا۔
(3) سائبہ: وہ اونٹنی جسے کفار اپنے آلہہ (معبودانِ باطلہ ) کے لئے چھوڑ دیتے، ان سے بار برداری کا کام نہ لیتے تھے۔
(4) وصیلہ: وہ جوان اونٹنی جو پہلی مرتبہ اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ بچہ جنتی ہے، درمیان
میں نر بچہ نہ جنے بلکہ پے در پے مادہ بچے جنے تو مشرکین اسے آزاد چھوڑ دیتے تھے۔
(5) حام: وہ نر اونٹ کہ جس کی جفتی سے اونٹنی سے ہونے والے بچوں کی پیدائش کی تعداد مقرر کر لیتے ، جب وہ تعداد پوری ہو جاتی تو اسے وہ کفار اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ، اس نر اونٹ کو بھی بار برداری وغیرہ سے چھٹی مل جاتی۔ (صحیح البخاری: 4623)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قانون سازی، شریعت سازی اللہ کی صفت ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے شریعت بنائی۔ لیکن مشرکین نے اس صفت میں شریک ٹھہرایا اور اپنے بڑوں کے بنائے ہوئے قوانین (شریعت) کی پیروی کی تو یہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ تشریع میں شرک ہوا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شرکاء کا لفظ بیان فرما کر ان کے اس ”شرک“ کو واضح کیا اور اسے شرک قرار دیا۔
یہاں ان مشرکین کا اپنے بزرگوں کو ہر لحاظ سے اللہ کے برابر سمجھنے کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ قرآن وسنت ہی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک مانتے تھے۔ (جیسا کہ آگے آرہا ہے / ان شاء اللہ ) لہذا برابر سمجھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری مثال:کعبہ کی قسم
سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، آپ فرماتی ہیں کہ (یہود کے ) علماء میں سے ایک عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ کیا ہی خوب قوم ہیں اگر آپ (کی قوم کے لوگ) شرک نہ کریں ! تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تعجب کیا اور فرمایا: سبحان اللہ (یعنی اللہ کی ذات کو ہم شرک سے منزہ جانتے ہیں ) وہ کیا چیز ہے؟ (جسے تم شرک کہہ رہے ہو ) تو یہودی عالم نے کہا: آپ لوگ جب قسم کھاتے ہیں تو کہتے ہیں: «والكعبة» کعبہ کی قسم ! اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر توقف فرمایا … اس کے بعد فرمایا: تم میں سے جو کوئی قسم کھائے وہ اس طرح کہے کہ ”ربِ کعبہ کی قسم“
(یہودی) عالم نے دوبارہ کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کیا ہی خوب قوم ہیں اگر آپ (کی قوم ) اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ ! وہ کیا ہے؟ تو اس یہودی نے کہا آپ لوگ کہتے ہیں «ماشاء الله و شئت» جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے پھر فرمایا: جو کوئی اس طرح کہنا چاہے تو وہ «ماشاء الله» اور «شئت» کے درمیان ثم کے ذریعے فصل (علیحدگی ) کرے۔
یعنی یوں کہے کہ «ماشاء الله ثم شئت» جو اللہ چاہے پھر جو آپ چاہیں، نہ کہ اس طرح:
جو اللہ اور آپ چاہیں۔ (مسند احمد 372،371/6 ح 27633، النسائی: 3804 وسندہ صحیح ، وصححہ الحاکم 4/ 297 ح 7815 ووافقه الذہبی)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کے دوران میں اس یہودی عالم نے جب کعبہ کی قسم کھانے کو شرک قرار دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ اہلِ اسلام کو آئندہ اس طرح کی قسم کھانے سے منع فرما دیا اور فرمایا: کعبہ کی قسم کے بجائے ربِ کعبہ کی قسم کھاؤ۔
اب جو مسلمان کعبہ کی قسم کھایا کرتے تھے، کیا کوئی ایمان والا ان کے متعلق یہ بدگمانی کر سکتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ کعبہ کو ذات یا صفات کے اعتبار سے اللہ رب العالمین کے بالکل برابر سمجھتے تھے؟ ہرگز نہیں ، ایمان والا تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، اس کے باوجود اس قسم کو شرک قرار دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ”شرک“ صرف یہ نہیں کہ ”کسی کو ذات یا صفات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے بالکل برابر سمجھا جائے“ اگر ایسا ہی ہوتا اور ”شرک“ کی صرف یہی صورت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی عالم پر یہ ضرور واضح فرما دیتے کہ اس کو شرک قرار دینا تمھاری کم علمی اور غلط فہمی ہے کیونکہ اس میں تو ”شرک“ والی کوئی بات نہیں۔
تیسری مثال:جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، بعض کلام میں آپ سے مراجعت کی پھر کہا: «ما شاء الله وشئت» جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«جعلتني لله عدلا ماشاء الله وحده»
کیا تو نے مجھے اللہ کا ہمسر ٹھہرایا (یا) اللہ کا شریک ٹھہرایا (نہیں اس طرح نہ کہو بلکہ یوں کہو کہ) جو اللہ اکیلا چاہے۔ (مسند احمد 1/ 347 وسندہ حسن)
ان صاحب نے اپنی گفتگو میں جب اللہ رب العالمین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشیت کو ملا دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا قرار دیا اور فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرایا؟ اب جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ شرک صرف تب ہوگا ”جب کسی کو اللہ کے ساتھ ذات یا صفات کے اعتبار سے بالکل برابر سمجھا جائے ۔“ وہ غور کریں کیا ان صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہم تصور بھی کر سکتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے بالکل برابر سمجھتے تھے؟ ہرگز نہیں تو پھر گنجینئہ حکمت و بصیرت خاتم نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات کو ”شریک ٹھہرانا“ قرار دینا اس کے علاوہ اور کیا واضح کرتا ہے کہ ”شرک صرف یہی نہیں کہ کسی کو اللہ کے بالکل برابر سمجھا جائے۔“
امید ہے کہ گزشتہ چند مثالوں سے یہ بات قدرے واضح ہو چکی ہوگی۔ اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے کہ فریق ثانی ”شرک“ کی کیا تعریف کرتے ہیں۔
بریلوی حضرات اور شرک کی غلط تعریف
محمد نجم مصطفائی صاحب شرک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یعنی یوں کہے جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں قدیم ، ابدی، ازلی ، معبود مسجود ہے، بالکل اسی طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام یا حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی قدیم، ازلی ابدی، معبود و مسجود اور واجب الوجود ہیں تو ایسا عقیدہ رکھنے والا کھلا ہوا مشرک ہے کیوں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک میں کسی غیر کو برابر ، ہمسر اور شریک کر دیا اور یہی برابری یہی ہمسری، یہی شراکت ، شرک کی پہلی قسم ہے۔
محترم مسلمانو! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا، ابدی ، ازلی اور واجب الوجود ہے اسی طرح آپ کسی فرشتے ، کسی نبی ، کسی ولی یا کسی پیر کو ابدی، ازلی اور واجب الوجود مانتے ہیں؟ اگر نہیں مانتے یقیناً آپ کا دامن شرک کی پہلی قسم کی نجاست سے پاک اور صاف اور سورج کی طرح چمکدار ہے۔ آپ ہرگز شرک کرنے والے نہیں۔ آپ پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ آپ کے مسلمان ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں۔ آپ کا مشرک ہونا اس وقت ثابت ہوتا جب آپ کسی بھی غیر کو اللہ کی ذات میں شریک کر دیتے۔ جب ذات میں شراکت نہیں تو پھر شرک کیسا۔
(حق کی تلاش ص 16، ناشر مکتبہ تحقیقات اسلامیہ حنفیہ، فیصل آباد)
اس سے پہلے کہ ہم اس اقتباس کے مندرجات پر غور کریں پھر اس سے متعلق اپنی کچھ معروضات عرض کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب سے متاثر اور اس کے مصدقین کے ”اسماء گرامی“ مختصر ان کے ”تاثرات“ کے ساتھ عرض کر دیں تاکہ کتاب کی اہمیت واضح ہو جائے تو لیجئے سنیئے:
➊ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی، الجامعۃ النظامیہ الرضویہ (لاہور ) پاکستان لکھتے ہیں:
” مذکورہ کتاب کو غور سے پڑھا تو آپ کے اندازِ تحریر کو پسندیده پایا… یه اشاعت موجوده دور کے معیار پر نہ صرف پوری ہے بلکہ ظاہری و باطنی طور پر مزید خوبیوں کی حامل ہے کسی ایجنٹ یا کتب خانہ کے ذریعے ملک بھر میں ہر اسٹال پر یہ کتاب موجود ہے۔“ (حق کی تلاش ص4)
مفتی ہزاروی صاحب کتاب کو غور سے پڑھنے پر جس قدر متاثر ہوئے وہ آپ نے ملاحظہ کیا۔
➋ محمد منشاء تابش قصوری، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لکھتے ہیں:
”ایسی تصنیف کا ظہور اس کے سامنے سدِّ سکندری سے کم نہیں ، انداز تحریر جدید ہونے کے باوجود تحقیق سے بھرپور ہے … اس کامیاب کوشش پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔“ (حق کی تلاش ص4) واضح رہے کہ ”جامعہ نظامیہ لاہور“ فریقِ ثانی کی معتبر و مرکزی ”درسگاہ“ ہے۔
➌ ان کے صاحبِ تصانیف کثیرہ ، استاذ العلماء، فیض ملت، علامہ الحاج ، مفتی محمد فیض احمد اویسی بہاولپوری لکھتے ہیں: ”موصوف کے رسائل نہایت ہی مفید ہیں۔“ (ص 5)
➍ مفتی عبد الرحمن قمر ، ڈائریکٹر آف اسلامک فاؤنڈیشن USA لکھتے ہیں:
”میں نے اس کتاب کو پڑھا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کتاب ہر مسلمان کے لئے وقت کی ضرورت ہے۔ “(ص3)
⋆ شرک کی غلط تعریف کا بطلان
اب اس اقتباس پر غور کیجئے ! اس کے مطابق ”شرک“ کب لازم آئے گا؟ جب کوئی شخص ”جس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات میں یکتا، ابدی، ازلی اور واجب الوجود جانتا ہو اسی طرح کسی فرشتے، کسی نبی کسی ولی یا پیر کو بھی ابدی ازلی ، قدیم اور واجب الوجود مانتا ہو۔“ اگر کوئی ایسا تصور نہیں رکھتا تو ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ
” اگر نہیں مانتے تو یقیناً آپ کا دامن شرک کی پہلی قسم کی نجاست سے پاک اور صاف اور سورج کی طرح چمکدار ہے، آپ ہرگز شرک کرنے والے نہیں، آپ پکے اور سچے مسلمان ہیں ۔“ نجم صاحب کے بقول: ابدی ، ازلی اور واجب الوجود وغیرہ ماننے سے ہی ”شرک“ لازم آتا ہے اس لئے سب سے پہلے ان کے معنی جان لینا ضروری ہے۔
➊ ”ابدی“ اس کے معنی ہیں: لازوال جس کی انتہا نہ ہو۔
➋ ”ازلی“ اس کے معنی ہیں: قدیم ہمیشہ سے پایا جانے والا۔
نجم صاحب نے ان دونوں الفاظ سے متعلق لکھا ہے کہ ”وہ اپنی ذات میں قدیم ، ازلی اور ابدی ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔“ (حق کی تلاش ص 14)
➌ ””واجب الوجود اس کے معنی نجم صاحب نے کچھ اس طرح بیان کئے ہیں: وہ (اللہ ) واجب الوجود ہے یعنی وہ کسی سے وجود میں نہیں آیا، وہ اپنے موجود ہونے میں کسی سبب یا کسی ذرائع کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں خود بخود ہے۔“ (حق کی تلاش ص 14)
اب بقول موصوف کے جب کوئی شخص کسی انسان ، فرشتے یا جن سے متعلق یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو وہ شخص شرک میں مبتلا نہیں ہوتا مشرک نہیں ہوتا۔ ہمیں حیرت اور افسوس بھی ہے کہ موصوف نے یہ سب کچھ کس طرح فرما دیا اور شرک کو ان شرائط کے ساتھ کیسے مشروط کر دیا۔ ان تصورات و شرائط پر ”مشرکین عرب“ کا شرک بھی لازم نہیں آتا ، ان شرائط پر تو وہ بھی ”مشرک“ ثابت نہیں ہوتے بلکہ صاف بچ جاتے ہیں۔ وہ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ. وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ.﴾
” جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے ، ہاں (شفاعت کے مستحق وہ ہیں ) جو حق بات کا اقرار کریں اور انھیں علم بھی ہو اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ بتاؤ ان کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، تو پھر یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں۔ “ [الزخرف:86 ،87]
اس آیت کی تفسیر میں فریق ثانی کے نامور ”مولوی“ سید احمد سعید کاظمی ملتانی صاحب کہتے ہیں: ”علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ یہ آیت بتوں کی عبادت کرنے والے مشرکین سے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور ان کے معبودوں کے متعلق بھی۔“
اسی طرح کاظمی صاحب لکھتے ہیں: مشرکین بتوں کی پوجا کرتے تھے ان سے پوچھا گیا کہ تم جو بتوں کو پوجا کرتے ہو تو ان کو کس نے پیدا کیا؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:” وہ کہیں گے اللہ نے پیدا کیا۔“ (توحید اور شرک ص 8 مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت نور مسجد ، کاغذی بازار کراچی)
اس آیت مبارکہ اور تفسیر بالا سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”مشرکین “ اپنے معبودوں کو خالق نہیں بلکہ مخلوق مانتے تھے کہ انھیں اللہ نے پیدا کیا وہ خود سے نہیں تھے۔ ان کے وجود کا سبب اللہ رب العالمین ہے۔
الغرض ! ”مشرکین عرب“ کا اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کی ”مخلوق“ تسلیم کرنا اور اس بات کا کھلے بندوں واضح اعلان کرنا حتی کہ اپنے ان معبودوں کی مخالفت کرنے والے داعی اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے سامنے اور ان کے مقابلے میں پھر خاص طور پر ایسے موقع پر کہ جب وہ ان کے اس ”جواب“ کی روشنی میں ان کے اس مسلمہ پر انھی کے خلاف ”حجت“ قائم فرماتے ہیں۔۔۔ ان کا یہ جواب کہ ”ہمارے ان معبودوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا“ انھیں ”مخلوق“ ہی تسلیم کرنا، اس بات کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ ”مشرکین عرب“ اپنے معبودوں کو ”اپنی ذات میں یکتا “ ”ابدی“ لازوال جس کی انتہا نہ ہو۔ ”ازلی“ قدیم، ہمیشہ سے پایا جانے والا ”واجب الوجود“ جو کسی سے وجود میں نہ آیا ہو۔ وہ اپنے موجود ہونے میں کسی سبب یا ذرائع کا محتاج نہ ہو اور اپنی ذات میں خود بخود ہو ایسا نہیں سمجھتے تھے اور نہ اپنے معبودوں سے متعلق ایسا عقیدہ و نظریہ ہی رکھتے تھے۔
اس اعتراف کے باوجود اللہ رب العالمین نے انھیں ”شرک کی نجاست سے پاک اور صاف اور سورج کی طرح چمکدار“ قرار دینے کے بجائے قرآنِ مجید میں جگہ جگہ انھیں ”مشرک“ ہی قرار دیا جیسا کہ بکثرت آیات میں اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ فریق ثانی کی ”مشرک“ سے متعلق عائد کردہ شرائط اور اصول اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول کے خلاف ہیں۔
بہر حال فریق ثانی کو اگر اپنے اصول پر اصرار ہے تو وہ اعلان کریں کہ ”مشرکین عرب“ بھی ”شرک کی نجاست سے پاک اور صاف اور سورج کی طرح چمکدار اور ہرگز شرک کرنے والے نہ تھے“ اور اگر وہ نظرِثانی اور غور و فکر کے لئے تیار ہوں تو ان پر واضح ہوگا ”شرک “ کے لئے ”قدیم ، ابدی ، ازلی ، واجب الوجود ماننے کی“ لازمی شرط لگانا قطعاً درست نہیں بلکہ قرآن وسنت کی تعلیمات سے واضح طور پر غفلت اور عدم تدبر کا نتیجہ ہے۔ باقی رہا ”شرک کی اس تعریف“ میں نجم صاحب کا یہ فرمانا کہ
”آپ کا مشرک ہونا اس وقت ثابت ہوتا جب آپ کسی بھی غیر کواللہ کی ذات میں شریک کر دیتے جب ذات میں شراکت نہیں تو پھر شرک کیسا؟“ (حق کی تلاش ص14)
اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ”شرک فی الصفات“ کو شرک نہیں سمجھتے اور نہ ہی صفات میں شرک کرنے والے کو ”مشرک“ قرار دیتے ہیں ، ورنہ جناب کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ ”جب ذات میں شراکت نہیں تو پھر شرک کیسا“؟ حالانکہ آگے چل کر خود جناب نے بھی شرک فی الصفات کا ذکر کیا ہے۔
⋆ شرک فی الصفات کی غلط تعریف:
نجم صاحب شرک فی الذات کے بعد شرک فی صفات کی تعریف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”شرک کی دوسری قسم ہے ”شرک فی الصفات“ شرک فی الصفات کے معنی یہ ہیں کہ جو صفات اللہ جل مجدہ کی بالکل وہی صفات کسی غیر میں بھی شریک کر دی جائیں“ (ص 15) پھر لکھتے ہیں: پس جو کوئی اللہ کی صفات کاملہ کی طرح کسی غیر میں اس کی کسی صفت کو قدیم ، ازلی، ابدی، قدیمی، لامحدود، ذاتی ، لامتناہی مانے یعنی وہ یوں کہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ذاتی ، قدیمی، لامحدود، ازلی وابدی ہے بالکل اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیب داں ہونا بھی ذاتی ، قدیمی، لامحدود، لامتناہی ، ازلی و ابدی ہے۔ یا یوں کہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا ۔۔۔ مختارِ کل ہونا، رؤف و رحیم ہونا، حاکم ہونا.. قدیمی ، ازلی ابدی، ذاتی اور لامحدود ہے بالکل اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔۔۔ مختار ہونا۔۔۔ رؤف و رحیم ہونا، حاکم ہونا، ۔۔۔ بھی قدیمی ، ازلی وابدی ، ذاتی اور لامحدود ہے یا کسی بھی غیر میں اللہ جل مجدہ کی صفات کاملہ شریک کرے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا ”مشرک“ ہوگا ۔ (حق کی تلاش ص 15)
اسی طرح لکھتے ہیں: ”جب بھی کسی بات پر ”شرک“ کا شبہ ہو تو اس ”حقیقت “پر غور کر لیا جائے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو واجب الوجود، معبود و مسجود ماننا اور اس کی صفات کو قدیمی، ذاتی ، لامحدود، ازلی صفات رکھنے والا ماننا لازم آتا ہے یا نہیں؟ اگر ان میں سے کوئی بھی بات لازم آتی ہے تو بے شک وہ بات شرک ہے، اگر ان میں سے کوئی بات لازم نہیں آتی تو اسے ”شرک“ نہیں کہہ سکتے ۔ (حق کی تلاش ص 16) مندرجہ بالا اقتباسات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فریق ثانی کے نزدیک ذات وصفات میں ”شرک“ کے ثبوت کے لئے درج ذیل چند باتیں بالکل لازمی وضروری ہیں:
➊ اللہ کی صفت کو اس کے غیر میں ذاتی ، قدیمی ، ازلی و ابدی طور پر مانا جائے۔
➋ اسی طرح اس غیر میں اس صفت کو لا متناہی ولا محدود مانا جائے۔
➌ نیز اس سے غیر کا واجب الوجود و مسجود ماننا بھی لازم ہے۔
اگر ان میں سے کوئی بات پائی جائے تو ”شرک“ ہوگا اور اگر ان میں سے کوئی بات نہ پائی جائے تو اس صورت میں شرک بھی لازم نہیں آئے گا۔ ایک بار پھر ہم انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فریق ثانی کی ان شرائط پر تو یہود ونصاری حتی کہ ”مشرکین عرب“ تک کا بھی شرک لازم نہیں آتا بلکہ وہ بھی صاف اور واضح طور پر ”شرک“ کے حکم سے با آسانی بچ جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن وسنت ان کے شرک میں مبتلا ہو جانے کی خبر دیتا ہے۔
اب معلوم نہیں فریق ثانی کو اپنا دفاع مقصود و مطلوب ہے یا یہود و نصاری اور مشرکین عرب کا دفاع پیش نظر ہے!! لیکن یہ امر تو واضح ہے نادانستگی ہی میں سہی پر موصوف نے جو کچھ پیش کیا اور جو اصول و نکات بیان فرمائے ہیں، اس سے تو یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کا بھی زبردست دفاع ہو جاتا ہے چونکہ قرآن و سنت میں ان سے متعلق جو بعض باتیں نقل ہوئیں اور ان کے جو عقائد بیان ہوئے ، وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ موصوف کی ان شرائط یا نکات کی بنا پر ان کا ہر فرد باآسانی ”شرک“ سے ”بالکل پاک اور سورج کی طرح چمکدار“ ثابت ہو جاتا ہے اب ان نکات کا قرآن وسنت کی روشنی میں بالترتیب جائزہ لیتے ہیں:
➊ موصوف کا پہلا ”ارشاد“ جو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی کسی صفت کو اس کے غیر میں جب ذاتی ، قدیمی، ازلی وابدی مانا جائے تب شرک ہوگا ورنہ نہیں۔
گزشتہ صفحات میں ہم قرآن مجید کی آیت اور فریق ثانی کی ”مسلمہ علمی شخصیت“ کاظمی صاحب کی نقل کردہ تفسیر سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ”مشرکین عرب“ اپنے معبودوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوق سمجھتے تھے، ان کے مخلوق ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ جب وہ ان کی ذات کو ان کے وجود کو ہی ”ذاتی“ ازلی و ابدی اور قدیمی نہیں مانتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کی صفات کو ذاتی ازلی ، ابدی اور قدیمی مانیں؟ اگرچہ یہی ایک دلیل اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے مگر ہم وضاحت کے لئے بعض دیگر دلائل بھی نقل کئے دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ . سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ . قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ . سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ . قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ . سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ .﴾
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ان سے کہئے کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ یہ زمین اور جو کچھ زمین پر ہے یہ سب کس کا ہے؟ یہ کہیں گے کہ اللہ کا (تو ان سے کہیں ) کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے آپ ان سے کہیں کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ تو یہ کہیں گے کہ اللہ، آپ کہیں کہ تو پھر تم ڈرتے کیوں نہیں، ان سے کہیں کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ ہر چیز پر اقتدار و اختیار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ تو یہ جواب دیں گے کہ اللہ (ہی کے لئے ہر چیز پر اقتدار واختیار ہے) تو آپ ان سے کہئے کہ پھر تم کس جادو کے فریب میں پڑے ہو؟ [المؤمنون:84 تا 89]
ان آیات مبارکہ میں مشرکین سے سوال کیا گیا کہ بتلاؤ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ ہر چیز پر اقتدار کامل، غلبہ نامہ، حکومت حقیقیہ کس کی ہے۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ یہ کہیں گے کہ اللہ ہی کی ساری آبادی ہے اور اسی کا ہر چیز پر اقتدار
وغلبہ ہے۔
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا﴾ ”اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہو سکتی ہے۔“ [النساء:122]
جب مشرکین عرب ہر چیز کا مالک اللہ ہی کو سمجھتے اور ہر چیز پر اس کے غلبہ نامہ اور اقتدار کاملہ کو تسلیم کرتے تھے تو ہر چیز میں یقیناً ان کے معبودانِ باطلہ بھی شامل تھے۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اپنے ان معبودوں پر بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اقتدار وحاکمیت کو تسلیم کرتے تھے ، ان کا یہ تسلیم کرنا اس طرح بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے ان آیات کے نزول کے بعد بھی آکر یہ نہیں کہا کہ ہم ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت تسلیم نہیں کرتے نہ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت و اقتدار ہی کو تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ بس ہر چیز کو اللہ کی ملکیت تصور کرنا اور ہر چیز پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اقتدار کامل اور غلبہ تامہ کو تسلیم کر لینا ہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اپنے معبودوں سے متعلق جن مافوق الفطرت و مافوق الاسباب عقائد کے حامل تھے انھیں ذاتی ، قدیمی ، ازلی ابدی نہیں سمجھتے تھے۔
⋆ مشرکینِ عرب کا عطائی عقیدہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كان المشركون يقولون: لبيك لا شريك لك، قال فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويلكم قد قد فيقولون: إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك ، يقولون هذا وهم يطوفون بالبيت»
مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے یوں کہا کرتے تھے: لبیک لا شریک لک (جب وہ اتنا کہتے تو ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: تمھاری بربادی ہو بس بس (اس پر کفایت کر جاؤ ) لیکن وہ (مزيد الفاظ) کہتے: «إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك» یعنی اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لئے ہے تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اس شریک کے اختیار میں ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے۔
(صحیح مسلم: 1185، دار السلام: 8215)
اور واضح رہے کہ مشرکین عرب کے ہاں غلامی کا رواج تھا وہ مالک کے فرق سے بخوبی آگاہ تھے انھیں یہ سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ مالک ومملوک میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مالک حکم دینے والا حاکم ہوتا ہے اور ”مملوک“ ماننے کا پابند محکوم ہوتا ہے ، مالک آزاد و خود مختار ہوتا ہے جبکہ ”مملوک“ کے اپنے اختیارات نہیں ہوتے ، مالک کی اپنی مرضی ہوتی ہے جبکہ مملوک کی اپنی مرضی نہیں ہوتی بلکہ وہ مالک کی مرضی پر عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان کا برسر عام طوافِ کعبہ کے دوران میں یہ اعلان کہ ”ہمارے ان معبودوں کا مالک اللہ ہی ہے“ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان اور اللہ کے سامنے عاجز ، بے بس اور مجبور تسلیم کرتے تھے۔ اب بالکل برابری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ «وماملك» سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان معبودوں کے اختیارات کا مالک بھی اللہ ہی کو سمجھتے تھے کہ ان اختیارات کا مالک اللہ ہے اور یہ اختیارات اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں، اس اقرار و اعلان کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ”مشرک“ قرار دیا۔ ان کا یہ ”عطائی عقیدہ“ ان پر ”شرک“ کے لازم آنے سے انھیں بچا نہ سکا۔
معلوم ہوا کہ ”شرک فی الصفات“ کے لازم ہونے کے لئے یہ شرط نہیں کہ غیر میں اس صفت کو ”ذاتی ، قدیمی ، ازلی و ابدی“ طور پر مانا جائے۔ جب عطا ہوا تو ذاتی نہ رہا جب عطا ہوا تو مطلب عطا ہونے سے پہلے یہ صفت نہیں تھی تو ازی بھی نہ رہا اور اپنے معبودوں کے لئے ان اختیارات کے ”عطائی“ ہونے کے ہی مشرکین قائل تھے۔ اس کے باوجود انھیں ”مشرک“ قرار دیا جانا ، فریق ثانی کی ”ازلی ابدی ذاتی قدیمی“ والی تمام شرائط کو باطل ٹھہرا دیتا ہے۔ چونکہ جو کچھ وہ ”عطائی“ طور پر تسلیم کرتے تھے، اس کے عطا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔
صفت کا لا محدود ماننا:
فریق ثانی کی طرف سے شرک لازم آنے کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ غیر میں اس صفت کو ”لامتناہی“ اور ”لامحدود“ مانا جائے تب ”شرک“ ہوگا ورنہ نہیں۔
تو عرض ہے کہ یہ ”لا محدود“ کی شرط بھی قرآن وسنت کی روشنی میں باطل ہے۔ اس لئے کہ مشرکین بھی اپنے معبودوں کی طاقت کو ”محدود“ مانتے تھے اور ان کا یہ طرز عمل تعریض کے طور پر قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ چند ایک آیات ملاحظہ کیجئے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾
”وہ اللہ ہی ہے جو تمھیں خشکی اور دریا میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں موافق ہوا کے ساتھ انھیں لے کر چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں کہ ان پر سخت ہوا کا جھونکا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھی چلی آتی ہیں اور انھیں یہ خیال آتا ہے کہ ہم گھیرے گئے (تو اس وقت ) سب بندگی کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اللہ ہی کو پکارتے ہیں (کہ اے اللہ !) اگر تو ہم کو اس (مصیبت ) سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔ “ [يونس: 22]
﴿وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ﴾
”اور جب ان (مشرکین ) پر موج سائبانوں (پہاڑ نما چھپروں) کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ خلوص کے ساتھ بندگی کرتے ہوئے اللہ ہی کو پکارتے ہیں پھر جب وہ (اللہ) انھیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو ان میں سے کوئی اعتدال (انصاف) پر قائم رہتا ہے اور ہماری آیات کا انکار تو صرف وہی کرتا ہے جو بد عہد اور ناشکرا ہے۔ “ [لقمان: 32]
﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾
”جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت کو خالص کر کے صرف اسے ہی پکارتے ہیں پھر جب وہ انھیں نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے تو فورا ہی یہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ “ [العنكبوت: 65]
ان آیات سے روز روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشرکین بھی ایک حد تک اپنے آلہہ (بہت سے معبودوں ) کو کارساز سمجھتے تھے۔ مشکل کشائی و کارسازی کی صفت میں وہ لامحدودیت کے قائل نہیں تھے۔ سخت مشکل گھڑی میں ان کا یہ یقین پختہ ہو جاتا کہ یہاں ہمارے آلہہ کچھ نہیں کر سکتے ، ان کی حدود ان کے نزدیک گویا ختم ہو جاتیں اور وہ ایسے موقع پر شرک سے وقتی طور پر پاک ہو کر اپنی بندگی کو خالصتا اللہ کے لئے خاص کرتے ہوئے صرف اللہ ہی کو پکارتے ، اسی سے مشکل کشائی چاہتے ، البتہ جب وہ مشکل کشا اللہ ان کی اس مشکل کو دور فرماتا تو وہ پھر سے شرک کرنے لگتے۔ المختصر کہ ان کے نزدیک ان کے ”آلہہ“ لا محدود صفات کے حامل نہ تھے بلکہ ان کی صفات محدود تھیں اور وہ یہ کہ وہ خشکی پر تو ان کو مشکل کشا، حاجت روا، جاہ پناہ تصور کرتے لیکن سمندروں میں آکر اس کی طغیانی و تلاطم خیز موجوں کے سامنے وہ بر ملا ان کی بے بسی و ”محدودیت“ کا اعتراف کرتے ، اعتراف ہی نہیں بلکہ وقتی طور پر شرک سے ہاتھ چھڑا لیتے «مخلصين له الدين» اس پر روشن دلیل ہے۔ ان کا اپنے ”آلہہ“ کی صفت مشکل کشائی کے تصور کو ”محدود“ کر دینا اور ”محدود“ سمجھنا ہی سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کی ہدایت کا اور چشم بصیرت روشن ہونے کا سبب بنا۔
فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امن و عام معافی کا اعلان فرمایا سوائے چند لوگوں کے (جو اسلام اور مسلمین کے سخت دشمن تھے ) انھیں میں ایک ابو جہل کے بیٹے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جنھوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور بھاگنے میں عافیت جانتے ہوئے سمندر کا رخ کیا۔
«فأصابتهم عاصف فقال أصحاب السفينة: أخلصوا فإن آلهتكم لا تغني عنكم شيئا ههنا ، فقال عكرمة: والله ! لئن لم ينجني من البحر إلا الإخلاص لا ينجيني فى البر غيره»
«اللهم إن لك على عهدا إن أنت عافيتني مما أنا فيه أن آتي محمد صلى الله عليه وسلم حتى أضع يدى فى يده ، فلأجدنه عفوا كريما، فجاء فأسلم»
کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں انھیں طوفان نے آلیا۔ تو کشتی والوں نے کہا: اب صرف ایک اللہ ہی کو پکارو یقینا تمھارے (دوسرے ) آلہہ یہاں تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔ یہ اعلان سن کر عکرمہ (چونکے اور ) کہا: اللہ کی قسم ! اگر اس سمندر میں خالصتاً ایک اللہ کو پکارنے کے علاوہ نجات نہیں مل سکتی (یہ مشکل نہیں ٹل سکتی ) تو پھر خشکی میں بھی ایک اللہ کے علاوہ کوئی اور نجات نہیں دے سکتا (مشکل کشائی نہیں کر سکتا ، رنج و غم نہیں ٹال سکتا )
اے اللہ ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں اگر تو نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی کہ جس کے اندر میں (کشتی والوں سمیت ) مبتلا ہوں تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ ان کے (مبارک) ہاتھ میں دے دوں گا تو یقیناً میں انھیں معاف کرنے والا معزز پاؤں گا ۔ ۔ ۔ پس (ان طوفانی ہواؤں سے بچ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا (رضی اللہ عنہ) ۔ (سنن النسائی: 4072 ، وسندہ حسن )
اس حدیث پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے ! سوچئے! کہ مشرکین عرب کے ہاں اپنے آلہہ کی صفات کا ”محدود“ تصور تھا یا ”لا محدود“ تصور تھا؟ ان قرآنی آیات کو پڑھ کر اس حدیث کو دیکھ کر کوئی کم عقل شخص بھی یہ کہنے کی جسارت نہیں کرے گا ”مشرکین اپنے آلہہ میں مشکل کشائی و حاجت روائی کی ”لامحدود“ صفت تسلیم کئے ہوئے تھے۔ «كلاو فلا» ہرگز ہرگز نہیں۔
چونکہ ان مشرکین کا یہ واضح اعلان اور یہ دُہائی دینا اس صورت میں ان کا مذاق اڑا رہا ہوگا ، ان کا منہ چڑا رہا ہو گا اور ان کی کم عقلی کا ماتم کر رہا ہو گا اور وہ یہ اعلان ہے کہ
«أخلصوا فإن آلهتكم لا تغني عنكم شيئا ههنا»
اپنی بندگی کو خالص کر دو، اکیلے اللہ ہی کو پکارو کہ یقینا یہاں تمھارے دوسرے آلہہ تمھارے کچھ کام نہیں آسکتے ۔ تمھیں یہاں اس موقع پر کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔
ان تلاطم خیز موجوں میں ان تیز و تند ہوا کے جھونکوں میں وہ تمھاری مشکل کشائی سے عاجز ہیں۔
الغرض ! فریق ثانی کی ”شرک فی الصفات“ کے لئے غیر میں اس صفت کو ”لامحدود“ ماننے کو شرط یا لازم قرار دینا بھی درست نہیں۔ قرآن مجید کی واضح آیات و مذکورہ روایت ان کی تردید کرتی ہے ان کے اس عقیدہ و نظریہ ، سوچ وفکر کو باطل ثابت کرتی ہے۔
چونکہ قرآن نے ہی مشرکین کا یہ عقیدہ بیان کیا اور قرآن مجید کے بیان سے ہی واضح ہوا کہ وہ مشرکین اللہ کے غیر میں مشکل کشائی و فریادرسی کی صفات کو ”لا محدود“ نہیں مانتے تھے بلکہ محدود ہی مانتے تھے، لیکن اللہ رب العالمین نے اس کے باوجود انھیں ”شرک“ کرنے والوں میں شمار کیا۔ فریق ثانی کی عائد کردہ شرائط کی روشنی میں تو ”محدود“ ماننے کی وجہ سے ان کا ”شرک“ ثابت نہیں ہوتا؟ اب اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا انھیں شرک کرنے والوں میں شمار کرنا درست ہے اور یقیناً درست ہے تو معلوم ہوا کہ غیر اللہ میں صرف ”لامحدود“ والی شرط باطل ہے اور یقیناً باطل ہے۔ «ومن أصدق من الله قيلا»
معلوم ہوا کہ غیر اللہ میں صرف ”لا محدودیت“ کی نفی اور ”محدودیت“ کا اثبات اور حدود کے خود ساختہ تعین کا عقیدہ ہی شرک سے بچانے کے لئے کافی نہیں بلکہ معاملہ جو اللہ کے غیر کے ساتھ اختیار کیا جائے وہ بھی ان حدود میں ہونا چاہئے۔ مخلوق، مملوک ، محدودمان لینے کے بعد انھیں پکارنا ان سے دعائیں طلب کرنا ان سے حاجت روائی ، فریادرسی ، مشکل کشائی چاہنا، ان سے دھن دولت ، عزت و حشمت، مال و اولاد وغیرہ طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾
” (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ بتاؤ جن جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ (جن سے دعا ئیں طلب کرتے ہو ) انھوں نے زمین میں سے کون سی چیز کو پیدا کیا یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کوئی شرکت ہے؟ میرے پاس اس (قرآنِ مجید ) سے پہلے کی کوئی کتاب لے آؤ یا علم میں سے کچھ آثار لے آؤ اگر تم سچے ہو۔“ [الأحقاف: 4]
آج بھی اللہ کے سوا جن جن سے دعائیں طلب کی جاتی ہیں جنھیں مشکل کشائی حاجت روائی کے لئے پکارا جاتا ہے۔ بھلا انھوں نے زمین و آسمان میں سے کس کس چیز کو پیدا کیا اور کس کس چیز کے وہ خالق ہیں؟ یقیناً کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا اور وہ خالق نہیں مخلوق ہیں، گو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں بلند درجات سے نوازا، اعلیٰ مراتب عطا فرمائے لیکن بہر حال کوئی بھی مسلم انھیں یا ان میں سے کسی کو خالق نہیں مانتا۔ تو پھر ان سے دعائیں کرنا ان سے مشکل کشائی چاہنا کیا معنی رکھتا ہے؟
قرآنِ مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیشتر مقامات پر جہاں مشرکین کے لئے سوالات بیان فرمائے کہ بتاؤ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ مالک کون ہے؟ مدبر کون ہے؟ وہاں ان مشرکین کا اعترافی جواب بھی بیان کیا کہ اللہ ہی ہے۔ اس اعتراف پر اللہ کی نصیحت کہ پھر تم سمجھتے کیوں نہیں ﴿أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾ پھر تم سوچتے کیوں نہیں ﴿أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟
شرک سے بچنے کے لئے غیر میں صفات کے ”لا محدود“ ماننے کو شرط قرار دینا ضروری ہے تو آج جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں سے مدد مانگنے ، فریاد رسی کرنے ، دوسروں کو مشکل کشا، حاجت روا، گنج بخش یعنی خزانے بخشنے والا ، داتا یعنی دینے والا ، غریب نواز سمجھتے ہیں، کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ انھوں نے غیر اللہ میں ان صفات کی حدود کا تعین کس طرح کر رکھا ہے؟ مخلوق میں ان صفات کی حد بندی ان کے نزدیک کیا ہے؟ اور وہ کون کون سے مقامات ہیں جہاں یہ لوگ نیک صالحین بندوں کی ان صفات کی حدود ختم سمجھتے ہیں؟
کیا آج لوگ بحر و بر میں خشکی و تری میں ہر مشکل گھڑی میں غیر اللہ کو پکارتے اور ان سے دعائیں مانگتے نظر نہیں آتے؟ کیا یہ دہائیاں یہ دعائیں یہ فریادیں یہ صدائیں عام نہیں سنی جاتیں کہ اے مولا علی ! اے شیر خدا! میری کشتی پار لگا دے۔ یا اے معین الدین چشتی ! لگا دے پار میری کشتی ۔ یا شیخ عبدالقادر جیلانی سے دعا مانگتے ہوئے امداد کن امداد کن از رنج و غم آزاد کن در دین و دنیا شادکن یا غوث اعظم دستگیر ! یعنی امداد کر امداد کر ، رنج و غم سے آزاد کر، دین و دنیا کو خوشحال کر اے ہاتھ تھامنے والے سب سے بڑے فریا درسا (استغفر اللہ ) کیا یہ اور اس قسم کی بے شمار دعائیں ، عام نہیں؟
کاش! کوئی ہمیں اس بات سے آگاہ کر دے کہ ہمارے نزدیک یہ اور یہ ”حدود“ ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے عقیدہ میں غیر اللہ میں ان ”صفات“ کا ”لا محدود“ نہ ماننا واضح ہوتا ہے اور ان صفات کے ”لا محدود“ ہونے کی نفی ثابت ہوتی ہے۔
الغرض ! ”حدود“ کے اثبات اور غیر میں ان صفات کے ”لامحدود“ ہونے کی نفی ہی ”شرک“ سے بچانے کے لئے کافی نہیں کہ محدود صفات کے اقرار کے باوجود بھی قرآن مجید میں مشرکین عرب کو ”شرک“ کرنے والے ہی بتلایا گیا اور انھیں مشرک قرار دیا گیا۔
چونکہ حدود کی یہ تعین ان کی خود ساختہ تھی اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں تھی نہ قرآن مجید سے پہلے کسی کتاب میں نہ ہی انبیاء علیہم السلام اور ان کے اصحاب میں سے کسی کے آثار میں ان صفات کا نیز ان کی حدود کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور نہ ہے۔
قرآن مجید میں کتنے ہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں بیان ہوئیں، ذخیرہ احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعاؤں کا تذکرہ موجود ہے لیکن الحمد للہ ایسی کوئی بات ان میں موجود نہیں ۔
معبود و مسجود ماننا:
شرک لازمی آنے کے لئے فریق ثانی کے ہاں ایک لازمی شرط یہ سامنے آئی کہ ”شرک تب لازم آئے گا جب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو واجب الوجود معبود ومسجود ماننا لا زم آئے۔ “
واجب الوجود سے متعلق تو ہم اپنی معروضات دلائل کے ساتھ عرض کر چکے ہیں۔ اب رہی یہ شرط کہ ”معبود و مسجود“ ماننا بھی لازم آتا ہو تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ شرک سے متعلق دیگر شرائط کی طرح فریق ثانی کی یہ شرط بھی قرآن وسنت کی روشنی میں سراسر باطل اور لغو ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾
”یقینا شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے بحث و جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے۔“ [الأنعام: 121]
فریق ثانی کے ”معروف مفسر“ نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے اس آیت کے حاشیہ میں لکھا ہے: ”کیونکہ دین میں حکم الہی کو چھوڑنا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔“ (خزائن العرفان حاشیہ سورۃ الانعام آیت: 121)
دیکھئے اس آیت میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم کے ماننے کو شرک قرار دیا گیا ہے جیسا کہ فریق ثانی کے حاشیہ سے بھی واضح ہوتا ہے حالانکہ اس سے ”مسجود“ ماننا تو لازم نہیں آتا۔ اس آیت سے نیز فریق ثانی کی اپنی وضاحت سے ان کی یہ تیسری شرط بھی باطل ٹھہرتی ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے چلیں جو عام طور پر شرک کے مباحث کے دوران میں سامنے آتی ہے اور بہت سے لوگ ان غلط فہمیوں کا شکار ہو کر دور کی گمراہیوں میں جا پڑتے ہیں۔
غلط فہمی: اللہ کی بہت سی صفات غیر اللہ میں بھی پائی جاتی ہیں
اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت غیر اللہ میں تسلیم کرنا شرک ہے تو پھر بہت سی ایسی صفات غیر اللہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ﴾
”اور بے شک اللہ سمیع و بصیر ہے۔ “ [الحج: 61]
اور یہی بات انسانوں سے متعلق بھی فرمائی کہ
﴿فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾
”اور ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔“ [الإنسان: 2]
یعنی سننا اور دیکھنا اللہ کی بھی صفت ہے اور بندوں کی بھی تو کیا یہ شرک ہے؟
ازالہ:
یہ قطعاً شرک نہیں ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں:
اولاً: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾
” (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے آؤ میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ تمھارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے۔ (یہ کہ) تم اللہ کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو۔“ [الأنعام: 151]
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا﴾
” (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً میرے پروردگار نے کھلی اور پوشیدہ بے حیائی کو اور گناہ اور ناحق زیادتی کو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی حرام کیا ہے۔“ [الأعراف: 33]
معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ”شرک“ کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ غیر کے سمیع و بصیر ہونے کی دلیل اللہ نے قرآن مجید میں نازل کی ہے۔ سورہ دہر کے علاوہ بھی آیات موجود ہیں تو یہ ”شرک“ نہیں ہوسکتا کیونکہ شرک کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔
ثانیاً: اگر یہ شرک ہوتا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ انسان کو یہ صفت ہی عطا نہ فرما تا کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ شرک کو حرام فرمائے۔ اس پر سخت عذاب کی وعید سنائے ، نا قابل معافی جرم قرار دے اور دوسری طرف انسان کی تخلیق ایسے فرمائے کہ ”شرک“ کا نہ ہونا محال ہو جائے۔ کلا وفلا ہرگز نہیں کوئی ایمان والا تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ثالثاً: یہ کہ اللہ اور انسان ہر دو کے سمیع و بصیر ہونے کی صفات ایسی ہیں جو موصوف کے لائق اور شایانِ شان ہیں۔ خالق و مخلوق کی یہ صفات یکساں و مشابہ نہیں ہیں۔ اللہ تو دل کی دھڑکنوں کو بھی سنتا ہے خفیہ آواز کو بھی سنتا ہے جبکہ انسان کی صفات محدود ہیں۔
رابعاً: فریق ثانی کے ”علامہ“ احمد سعید کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
”ان صفات سے شرک لازم نہیں آتا جو اللہ تعالیٰ نے کسی کو بخشی ہیں۔“ (توحید اور شرک ص5)
تو سمیع و بصیر ہونے کی صفات بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بخشی ہوئی ہیں لہذا شرک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس بات سے تو ثابت ہوتا ہے کہ محدود اور عطائی مان لینے سے شرک لازم نہیں آتا۔
تو عرض ہے کہ جس قدر محدود مانا جا رہا ہے اس کی دلیل ہو نیز جس چیز کو عطائی مانا جا رہا ہے اس کے ”عطاء“ کی بھی دلیل ہو تو اسے شرک کون کہتا ہے؟ لیکن اپنی طرف سے بہت بڑی حدود بنا کر نیز اپنی طرف سے بہت سی ”صفات“ سے کسی کو متصف ٹھہرا کر ان صفات کو عطائی کہا جائے اور پھر معاملہ یہاں تک آپہنچے کہ انھیں وہ ”حقوق“ دے دیئے جائیں جو اللہ کے حقوق ہیں اور ان کے ساتھ وہ معاملہ اختیار کیا جائے جو اللہ کی عبادت و بندگی سے متعلق ہے تو پھر شرک ہوگا، نیز ایسے ہی معاملات کو اہل اسلام شرک قرار دیتے رہے اور شرک قرار دیتے ہیں، اس کی صرف ایک مثال عرض کئے دیتے ہیں:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حق الله على عباده أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا»
”بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔“ (صحیح البخاری: 5967)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت و بندگی بلا شرکت غیرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الدعاء هو العبادة ثم قرأ» ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾
دعا ہی عبادت ہے پھر آپ نے (یہ آیت ) تلاوت فرمائی: ”اور تمھارے رب نے حکم دیا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمھاری دعا قبول کروں گا بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ [غافر:60] ( سنن ترمذی: 3372، وسنده صحیح)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ دعا عبادت ہے۔ اللہ نے حکم دیا کہ مجھ سے دعا مانگو۔ لیکن آج کتنے ہی لوگ ہیں جو غیر اللہ سے دعائیں طلب کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقرب بندے ہماری دعائیں سنتے ہیں، ہمارے حال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے قبول بھی کر سکتے ہیں، اگر اس قسم کی دعاؤں کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
المختصر کہ جب وہ غیر اللہ سے دعا طلب کرتے ہیں تو ان کی عبادت ہی کر رہے ہوتے ہیں چونکہ دعا عبادت ہی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اللہ کا یہ حق دوسروں کو دینا اور اس طرح ان کی عبادت کرنا یقیناً شرک ہے۔ خواہ ان مقرب بندوں میں دعاؤں کے سننے اور انھیں قبول کرنے کی صفت کو محدود یا عطائی ہی مانا جائے یہ تب بھی ”شرک“ ہی رہے گا چونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں، کوئی منزل من اللہ سلطان و برہان نہیں اور ان حدود اور اس عطا کی کوئی دلیل نہیں سو ”عبادت“ ہونے کی وجہ سے یہ ”شرک“ ہے۔
الحمد للہ ! اس ایک مثال سے اس سلسلے میں پیش کی جانے والی بعض دیگر غلط فہمیوں کو بھی با آسانی دور کیا جا سکتا ہے اور ان کا بھی ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ (ان شاء اللہ )