شرکیہ و کفریہ عقائد پر فوت ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کا حکم
کتاب و سنت کی روشنی میں تفصیلی جواب
سوال
میرے دادا بریلوی عقائد کے تحت دین دار زندگی گزار چکے ہیں۔ وہ قبر پرستی اور دیگر شرکیہ و بدعتی اعمال میں مبتلا تھے۔ اب وہ وفات پا چکے ہیں۔ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہوں؟ براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں توحید کو تمام اعمال کی بنیاد اور شرط قرار دیا گیا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اور اگر وہ توبہ کیے بغیر اسی شرک کی حالت میں مر جائے، تو وہ جہنم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے اس کی موت کے بعد دعائے مغفرت کرنا ممنوع ہے۔
قرآنِ مجید کی روشنی میں واضح ممانعت
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو اور دیگر اہل ایمان کو مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے روک دیا:
"مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ” (التوبہ: 113)
ترجمہ:
’’پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں، اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق وضاحت
اس آیت کی تفسیر صحیح بخاری میں اس واقعے سے کی گئی ہے:
جب نبی کریم ﷺ کے چچا ابو طالب وفات کے قریب تھے، تو نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"چچا جان! لا إلہ الا اللہ کہہ دیں تاکہ اللہ کے ہاں میں آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں۔”
لیکن ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا:
"اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے؟”
ابو طالب نے شرک پر ہی وفات پائی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا، میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔”
اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا۔
(صحیح بخاری: 1360)
نتیجہ:
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ:
◈ جس شخص کی موت شرک پر ہوئی ہو، اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا شرعاً جائز نہیں۔
◈ اگر کوئی شخص توحید کا اقراری نہ ہو اور شرک پر قائم رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو، تو اس کے لیے بخشش کی دعا کرنا قرآنی حکم اور سنتِ نبوی کے خلاف ہے۔
وبالله التوفيق