ولیمہ کے وقت کے متعلق سوال
سوال:
کیا شادی کے بعد میاں بیوی کے اکٹھے ہونے (یعنی شب زفاف گزارنے) سے پہلے ولیمہ کرنا ثابت ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولیمے کے وقت کے بارے میں صحیح بخاری اور دیگر احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل تفصیلات ملتی ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
❀ صحیح بخاری کی روایت:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک زوجہ کے ساتھ شب زفاف گزارنے کے بعد مجھے بھیجا، تو میں نے لوگوں کو ولیمہ کے لیے بلایا۔
(صحیح بخاری: 5170)
امام بیہقی کی رائے
❀ السنن الکبریٰ میں عنوان:
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت ’’باب وقت الولیمة‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ولیمہ شب زفاف (یعنی میاں بیوی کے تعلق قائم ہونے) کے بعد کرنا چاہیے۔
(السنن الکبریٰ 260/7)
ایک اور حدیث کی وضاحت
❀ ولیمے کی تاخیر:
ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شب زفاف کی تین راتیں گزاریں، پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ولیمہ کے لیے بلایا۔
(صحیح بخاری: 5159)
مسنون وقتِ ولیمہ
❀ سنت کے مطابق طریقہ:
لہٰذا مسنون یہی ہے کہ رخصتی اور میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہونے (شب زفاف) کے بعد ولیمہ کیا جائے، اور بہتر ہے کہ یہ تین دن کے اندر اندر کر لیا جائے۔
(27 دسمبر 2006ء) [الحدیث: 33]
اضافی فائدہ
❀ امام محمد بن سیرین کے والد کا عمل:
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے والد نے ولیمہ آٹھ دن تک کیا تھا۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی 161/7، وسندہ صحیح)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب