سوال
شعبان کی پندرہویں شب کو ساری یا اکثر جگہوں پر پابندی کے ساتھ مجلس وعظ منعقد کرنا کیسا ہے؟
اصحاب مجلس یہ وجہ جواز پیش کرتے ہیں کہ:
◈ یہ ہماری انجمن کا سالانہ جلسہ ہے۔
◈ اس کا مقصد مذہب اہل حدیث کی تبلیغ اور شب برات کی مروجہ خرافات کی تردید ہے، کیونکہ احناف رات بھر جاگتے ہیں لیکن ان کے ہاں کوئی وعظ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
کیا اس عمل کی نظیر خیرالقرون (یعنی بہترین زمانوں) میں ملتی ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
◈ اگر اتفاقیہ طور پر شب برات میں مجلس وعظ منعقد کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
◈ لیکن اس رات مجلس وعظ کے انعقاد کو لازم قرار دینا اور اس پر پابندی کرنا درست نہیں۔
◈ میرے نزدیک اس التزام اور پابندی سے اجتناب کرنا زیادہ راجح (مناسب) اور احوط (احتیاط پر مبنی) ہے۔
اس پابندی اور التزام کے عدم جواز کی وجوہات:
اولاً:
◈ اس عمل کی کوئی نظیر خیرالقرون میں نہیں ملتی۔
ثانیاً:
◈ مجوزین التزام کی بیان کردہ مصلحت یعنی "مروجہ خرافات کی تردید” ایک موہوم (غیر واضح) امر ہے۔
◈ دیوبندی حضرات ان خرافات اور بدعات میں مبتلا و ملوث نہیں ہوتے کہ انہیں ان امور کے بدعی ہونے سے آگاہ کیا جائے۔
◈ جہاں تک بدعتیوں کا تعلق ہے، وہ اہل حدیثوں کے ان جلسوں میں شریک ہی نہیں ہوتے۔
◈ بالفرض شریک بھی ہوں تو چونکہ یہ مجالس عموماً نماز عشاء کے بعد منعقد ہوتی ہیں، اور اس وقت تک بدعتی حضرات اپنی ساری مروجہ خرافات کرچکے ہوتے ہیں۔
◈ پس اس وقت کی تردید کا کیا نتیجہ اور فائدہ حاصل ہوگا؟
◈ اور دوسرے شب برات تک آپ کی تردید کا اثر باقی بھی نہیں رہے گا۔
مزید وضاحت:
◈ یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ شعبان کی آخری تاریخ میں آنحضرت ﷺ نے اپنے خطبہ میں یہ حدیث بیان فرمائی تھی:
’’أيهاالناس قد اظلكم شهر عظيم شهر مبارك، فيه ليلة خير من ألف شهر،، الحديث‘‘
◈ پھر اس خطبہ کے ساتھ روزے کے فضائل و احکام اور لیلۃ القدر کے فضائل کو بھی پڑھ کر سنا دیا جائے۔
ایک عملی مثال:
◈ جیسا کہ دیکھا گیا کہ بعض دیہاتوں میں، جو کہ ضلع اعظم گڑھ کی تحصیلوں میں واقع ہیں، اہل حدیث حضرات نے اس پر عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
◈ تجربہ اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان علاقوں کے لوگ وہی چیزیں قائم رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی ہیں۔
◈ چاہے وہ امور ایسے ہوں جن کا کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے دنیا و آخرت میں نفع رساں ہوں۔
اللهم اهدهم إلى مايعنيهم، وينفعهم فى الدنيا والاخرة۔
(محدث دہلی، جلد 1، شمارہ 7، شوال 1361ھ / نومبر 1942ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب۔