سیدہ فاطمہؓ کے غسلِ وفات سے متعلق روایات کی تحقیقی حیثیت
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 517

سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا اور غسلِ وفات کے حوالے سے روایت کی تحقیق

سوال

ایک دیوبندی تبلیغی خطبے میں بارہا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام کے لیے باہر گئے ہوئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی خادمہ سے فرمایا کہ ان کے لیے غسل کا پانی اور کپڑے رکھ دے۔ خادمہ نے پانی رکھا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے غسل کیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ میرے فلاں کپڑے نکالو، اور انہوں نے کالے کپڑے پہن لیے۔ فرمایا: میری چارپائی کمرے کے بیچ میں رکھ دو، چنانچہ ایسا کردیا گیا۔ پھر قبلہ رُخ ہو کر لیٹ گئیں اور فرمایا: اب میں مر رہی ہوں، علی کو کہہ دینا کہ میرا غسل ہوچکا ہے اور میرا کندھا بھی ننگا نہیں ہونا چاہیے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس آئے اور انہیں پیغام ملا تو انہوں نے اسی پر عمل کیا اور انہیں اسی حالت میں دفن کردیا گیا۔

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ ضعیف و منکر روایات میں شامل ہے۔

روایت کی سند کا جائزہ

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو محمد بن اسحاق عن عبيدالله بن علي بن ابي رافع عن ابيه عن ام سلمة کی سند سے روایت کیا ہے۔
(مسند احمد 6/461-462، حدیث نمبر 27615؛ اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 590؛ معرفۃ الصحابہ لابی نعیم 6/3507 حدیث نمبر 7944)

◈ اس روایت کی سند ضعیف و منکر ہے:
محمد بن اسحاق بن یسار مدلس ہیں اور انہوں نے "عن” سے روایت کی ہے۔
عبیداللہ بن علی بن ابی رافع ضعیف راوی ہیں۔
(التقریب: 4322)
علی بن ابی رافع بھی ضعیف ہیں۔
(التقریب: 4322)
– علی بن ابی رافع کی توثیق معلوم نہیں ہوسکی۔

دیگر کتب میں بھی یہی روایت

یہی روایت دیگر کتب میں بھی موجود ہے:
– ابن سعد کی "الطبقات” (8/27)
– عمر بن شبہ کی "تاریخ المدینہ” (1/108-109)
– ابن شاہین (حدیث نمبر 632)
– ابن الجوزی کی "العلل المتناہیۃ” (صفحہ 419) اور "الموضوعات” (3/277)

ان کتب میں بھی سند میں:
– محمد بن اسحاق مدلس ہیں۔
– ابن علی بن ابی رافع ضعیف راوی ہیں۔

ابن الجوزی نے کہا:
"هذا حديث لا يصح”
(یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔)

ذہبی نے کہا:
"هذا منكر”
(یہ منکر روایت ہے۔)
(سیر اعلام النبلاء 2/129، نیز دیکھیں: مجمع الزوائد 9/211)

تائید کی ایک اور روایت اور اس کی حیثیت

مصنف عبدالرزاق (3/411، حدیث 6126) اور دیگر کتب جیسے:
– الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم (5/356، حدیث 2940)
– المعجم الکبیر للطبرانی (22/399، حدیث 996)
– حلیۃ الاولیاء لابی نعیم (2/43)

میں ایک تائیدی واقعہ مذکور ہے جو عبداللہ بن محمد بن عقیل سے روایت کیا گیا ہے۔

لیکن یہ روایت بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
عبداللہ بن محمد بن عقیل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔
عبداللہ بن محمد بن عقیل نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا، لہٰذا سند منقطع ہے۔
(مجمع الزوائد 9/211؛ نصب الرایہ 2/251، وقال: بسند ضعیف ومنقطع)

تنبیہ

مصنف عبدالرزاق اور الآحاد والمثانی میں عبدالرزاق کے استاد اور ابن عقیل کے شاگرد کا تعلق بھی مذکور ہے۔

علامہ ابن کثیر کی تصریح

حافظ ابن کثیر نے فرمایا:
"وما روي انها اغتسلت قبل وفاتها واوصت ان لا تغسل بعد ذلك فضعيف لا يعول عليه والله اعلم”
(البدایہ والنہایۃ 6/338)

خلاصہ تحقیق

یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ومنکر ہے، لہٰذا مردود ہے۔

مقابل روایت

محمد بن موسیٰ بن ابی عبداللہ الفطری ابو عبداللہ المدنی سے مروی ہے کہ:
> فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو علی (رضی اللہ عنہ) نے غسل دیا تھا۔
(طبقات ابن سعد 8/28؛ تاریخ المدینہ 1/109)

– اس روایت کی سند محمد بن موسیٰ (جو کہ صدوق ہیں) تک صحیح ہے۔
– تاہم، سند کا منقطع ہونا اس کی ضعف کی وجہ ہے۔

مزید ایک ضعیف روایت

اسی قسم کی ایک اور ضعیف روایت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے:

– المستدرک للحاکم (3/163-164، حدیث 4769)
– حلیۃ الاولیاء (2/43)
– السنن الکبری للبیہقی (3/397)
– تاریخ المدینہ (1/109)
– التلخیص الحبیر (2/143، حدیث 907، وقال: واسنادہ حسن)

نوٹ:
بعض علماء نے سیدنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت کو حسن قرار دیا ہے، تاہم یہ محل نظر ہے۔
(الحدیث: 28)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1