سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا حکم
سوال:
سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت کے درمیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث سے دلیل:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ”
میرے اوپر ابھی ایک سورت (دوبارہ) نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ نے تلاوت فرمائی:
"بِسْمِ اللّٰـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿٣﴾”
(سورۃ الکوثر)
📚 (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورۃ سوی براءۃ، حدیث 400)
یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد جب کوئی اور سورت پڑھی جائے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھی جائے۔
صحابہ کرام کا عمل:
ایک موقع پر امیر المومنین معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بلند آواز سے (جہراً) پڑھی، لیکن سورت سے پہلے (جہراً) نہ پڑھی، تو مہاجرین اور انصار نے اس پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد آپ نے آئندہ نماز میں سورت سے پہلے بسم اللہ (جہراً) پڑھی۔
📚 (الام للامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، جلد 1، صفحہ 108)
سند کی حیثیت:
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
📚 (المستدرک للحاکم، جلد 1، صفحہ 233)
بعض لوگوں کا اعتراض:
بعض لوگ اپنے مسلک کی حمایت میں اس حدیث پر جرح کرتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ کسی صحیح یا حسن روایت میں یہ صراحت موجود نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ فاتحہ کے بعد والی سورت سے قبل بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔
📅 (شہادت: ستمبر 2000ء)
خلاصہ:
❀ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورت سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنا صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔
❀ صحابہ کرام کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔
❀ اس مسئلے میں کسی صحیح یا حسن روایت میں اس کا انکار نہیں ملتا۔
❀ لہٰذا سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون عمل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب