سورج و چاند گرہن پر 10 صحیح احادیث و نماز کا طریقہ

نماز کسوف: سورج اور چاند گرہن کی نماز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں، جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو حتیٰ کہ گرہن ختم ہو جائے۔”
(بخاری، الکسوف، باب الصلاۃ فی کسوف الشمس، حدیث ۱۴۰۱، مسلم ۱۱۹)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’چاند اور سورج کا گرہن اللہ کی قدرت کے آثار ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اور وجہ) سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ (اپنے) بندوں کو عبرت دلانے کے لیے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔‘‘
(بخاری، الکسوف، باب الذکر فی الکسوف ۹۵۰۱، ومسلم:۲۱۹)

جاہلیت کے عقیدے کی تردید:

اہل جاہلیت کا عقیدہ تھا کہ سورج یا چاند اسی وقت گرہن ہوتے ہیں جب کوئی اہم شخصیت پیدا ہو یا وفات پائے، یا دنیا میں کوئی بڑا واقعہ پیش آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدے کی واضح تردید فرمائی۔ آپ نے واضح فرمایا کہ سورج یا چاند کا گرہن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کا مظہر ہے، نہ کہ کسی انسانی واقعہ کا نتیجہ۔ جو اللہ سورج و چاند کو بے نور کر سکتا ہے، وہی قیامت کے دن انہیں مکمل طور پر لپیٹ دینے پر بھی قادر ہے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
(ع، ر)

اعلان نماز کسوف:

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

جب سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا: ((الصلاۃ جامعۃ)) ’’نماز جمع کرنے والی ہے۔ (تمہیں بلا رہی ہے)‘‘
(بخاری، الکسوف، باب النداء ب’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ فی الکسوف، ۵۴۰۱، ومسلم، ۰۱۹)

سورج گرہن کی نماز کا مکمل طریقہ:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے دو رکعت نماز باجماعت ادا فرمائی۔ اس نماز کا تفصیلی طریقہ کچھ یوں تھا:

◈ سورۃ البقرۃ کے قریب لمبا قیام فرمایا
◈ پھر طویل رکوع کیا
◈ رکوع کے بعد دوبارہ لمبا قیام فرمایا
◈ پھر پہلے رکوع سے کم لمبا دوسرا رکوع کیا
◈ اس کے بعد دو سجدے کئے
◈ پھر دوبارہ قیام فرمایا، لمبا قیام کیا
◈ اس کے بعد پھر دو رکوع اور دو سجدے کئے
◈ تشہد پڑھ کر سلام پھیرا
◈ اس کے بعد خطبہ دیا جس میں اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے ان کو گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔‘‘

مزید فرمایا:

’’(دوران نماز) میں نے جنت دیکھی، اگر میں اس میں سے ایک انگور کا خوشہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے، اور میں نے دوزخ (بھی) دیکھی، اس سے بڑھ کر ہولناک منظر میں نے (کبھی) نہیں دیکھا۔ (اور) میں نے جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی۔‘‘
عرض کیا گیا: یا رسول اللہ، کیا وجہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ کفر کرتی ہیں۔‘‘
پوچھا گیا: ’’کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟‘‘
فرمایا: ’’وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تو ایک مدت تک ان کے ساتھ اچھائی کرے، پھر ان کی مرضی کے خلاف ایک بات کرے تو کہتی ہیں: میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘
(بخاری، الکسوف، باب صلاۃ الکسوف جماعۃ ۲۵۰۱۔ مسلم، ۷۰۹)

احسان فراموشی کا انجام:

یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کسی محسن کی احسان فراموشی کبیرہ گناہ ہے۔ جب ایک بندے کی احسان فراموشی اتنا بڑا گناہ ہے تو اللہ کے احسانات کو فراموش کرنا کس قدر سنگین گناہ ہوگا؟
اللہ ہمیں ہدایت دے، آمین۔ (ع، ر)

نماز کے دوران قراءت کا تسلسل:

نماز کسوف میں جب رکوع کے بعد دوبارہ قراءت کی جائے تو نئے سرے سے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ یہ ایک ہی رکعت کا تسلسل ہوتا ہے۔
واللہ اعلم (ع، ر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خشیتِ الٰہی سے گھبرا جانا:

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو آپ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں اہل خانہ میں سے کسی کا کرتہ لے لیا، بعد میں چادر مبارک لائی گئی۔
وہ خود بھی عورتوں کی صف میں کھڑی ہوئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام فرمایا کہ انہیں بیٹھنے کا ارادہ ہونے لگا، لیکن اپنے سے کمزور عورتوں کو کھڑے دیکھا تو وہ بھی کھڑی رہیں۔
(مسلم، الکسوف، باب ما عرض علی النبی V فی صلاۃ الکسوف من امرالجنۃ والنار: ۶۰۹)

گرمی کے دن کسوف کی نماز:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سخت گرمی کے دن سورج گرہن ہوا۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ قیام اتنا طویل کیا کہ بعض لوگ گرنے لگے۔
(مسلم: ۴۰۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ گھبرانا اللہ کے ڈر اور خشیت کا مظہر تھا۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو مسلسل گناہوں کے باوجود ایسے مواقع پر بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے۔
(ع، ر)

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان:

وہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ انہیں عورتوں کی صف میں کھڑے کھڑے غشی آ گئی۔
انہوں نے اپنی مشک سے پانی لے کر سر پر ڈالا۔
(بخاری، الجمعۃ، باب من قال فی الخطبۃ بعد الثناء: (اما بعد) ۲۲۹، ومسلم: ۵۰۔۹)

موجودہ دور کے مسلمانوں کے لیے نصیحت:

قارئین کرام! غور فرمائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج گرہن کی نماز کس قدر خشیت اور اہتمام سے ادا فرمایا کرتے تھے، لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس نماز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بھی اس نماز میں شامل ہوتی تھیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ سورج گرہن کی صورت میں مسجد جا کر باجماعت نماز کا اہتمام کریں اور ہماری خواتین بھی اس میں شامل ہوں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1