نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل اور سنتیں عموماً اپنے گھر میں ادا فرمایا کرتے تھے اور فرضوں کی جماعت کرانے کے لیے مسجد تشریف لاتے، اور یہی افضل ہے۔ کیونکہ بخاری و مسلم اور سنن (ابن ماجہ) میں ارشاد نبوی ہے:
أفضل صلوة المرء فى بيته إلا المكتوبة
التحفہ 530/2
آدمی کی افضل ترین نماز وہ ہے جسے وہ گھر میں ادا کرے سوائے فرضوں کے۔
فرض نمازوں کے سوا تمام سنن و نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ اور صحیح مسلم شریف میں ارشاد نبوی ہے:
عليكم بالصلوة فى بيوتكم فإن خير صلوة المرء فى بيته إلا المكتوبة
مختصر صحیح مسلم ص 103
گھروں میں (نفلی) نمازیں ضرور پڑھا کرو، کیونکہ فرضوں کے سوا آدمی کی افضل و بہتر نمازیں وہ ہیں جنہیں وہ اپنے گھر میں ادا کرتا ہے
مسلم شریف میں ہی ارشاد نبوی ہے:
إذا قضى أحدكم الصلوة فى مسجده فليجعل لبيته نصيبا من صلاته فإن الله عزوجل جاعل فى بيته من صلاته خيرا
مختصر مسلم ص 103
جب تم میں سے کوئی شخص فرض نماز اپنی مسجد میں پڑھ چکے تو اسے چاہیے کہ نماز سے اپنے گھر کا حصہ بھی رکھے، بیشک اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں نفلی نماز پڑھنے سے خیر و برکت کرے گا
ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے:
صلوة المرء فى بيته أفضل من صلاته فى مسجدي هذا إلا المكتوبة
ابوداؤد، نیل الاوطار 7/3/2، نصب الرایہ 156/2، صحیح العراقی فی تخریج الاحیاء 237/1
فرض نمازوں کو چھوڑ کر نفلی نمازیں گھر میں پڑھنا میری اس مسجد میں پڑھنے سے بھی افضل ہے ۔
فرضوں کا استثناء بھی صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کی ہر نماز گھر میں ہی افضل ہے۔
نیل الاوطار 30/3/2، زاد المعاد 293/2، لاحادیث الصحیحہ الالبانی 386/3، حجاب المرأة المسلمة ص 75 حاشیہ الالبانی
سنن و نوافل گھروں میں پڑھنے کی اس فضیلت کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نفلی نماز نہ پڑھنے پر وعید بھی فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی میں ارشاد نبوی ہے:
صلوا فى بيوتكم ولا تتخذوها قبورا
الترمذی والتحفہ 531/2
اپنے گھروں میں بھی سنن و نوافل پڑھو اور انہیں قبریں نہ بنا دو
علامہ مبارکپوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص گھر میں کوئی نفل یا سنتیں نہیں پڑھتا تو اس نے اپنے آپ کو گویا میت اور گھر کو قبر بنالیا ہے۔
ایضاً ص 53
ان ارشادات نبوی پر عمل کیا جائے تو اقامت ہو چکنے پر فجر کی سنتیں جماعت کے پاس پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آتی، اور اگر کوئی شخص گھر سے سنتیں پڑھے بغیر مسجد میں آئے اور مسجد میں پہنچنے پر اقامت ہو جائے تو پھر اسے سنتیں پڑھنے میں مشغول نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اور کتب حدیث میں ایک بھی صحیح ارشاد نبوی ایسا نہیں ملتا جس میں اس بات کی اجازت دی گئی ہو کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ بلکہ بقول علامہ ابن حزم جماعت کے ہوتے ہوئے سنتوں کے جواز کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، حتیٰ کہ نہ ضعیف میں اور نہ ہی قیاس و اجماع میں۔
المحلی105/3