سفیان ثوری کی تدلیس و طبقہ ثالثہ میں درجہ بندی کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۳۱۷

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور طبقہ ثالثہ کے حوالے سے تحقیق

سوال:

سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس اور ان کی معنعن روایت کے بارے میں آپ کی نظر میں راجح اور درست موقف کیا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں راجح اور معتبر بات یہی ہے کہ:

❀ وہ ایک ثقہ امام اور امیر المومنین فی الحدیث ہیں۔

❀ ان اوصاف کے باوجود وہ مدلس بھی تھے۔

❀ سفیان ثوری رحمہ اللہ ضعفاء وغیرہم سے تدلیس کیا کرتے تھے۔

❀ اسی وجہ سے، صحیحین کے علاوہ ان کی معنعن روایت، جب اس میں متابعت یا تصریح سماع موجود نہ ہو تو وہ ضعیف اور مردود قرار پاتی ہے۔

طبقہ کی تعیین:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کو طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے، لیکن یہ درست نہیں۔

❀ بلکہ سفیان ثوری طبقہ ثالثہ کے فرد ہیں جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے ان کا ذکر طبقہ ثالثہ میں کیا ہے:

”معرفۃ علوم الحدیث“ ص۱۰۶،
“جامع التحصیل“ ص۹۹
اور “نور العینین“ (طبع جدید) ص۱۳۸

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا قول:

”واما المدلسون الذین هم ثقات وعدول فانا لا نحتج باخبارهم الا ما بینوا السماع فیما رووا مثل الثوری و الاعمش و ابی اسحاق و اضرابهم………“

ترجمہ:

اور وہ مدلس راوی جو ثقہ اور عادل ہیں، ہم ان کی روایات سے حجت نہیں پکڑتے سوائے اس کے کہ وہ تصریح سماع کریں، جیسے کہ ثوری، اعمش، ابو اسحاق اور ان جیسے دوسرے۔

(الاحسان ج۱ ص۹۰، دوسرا نسخہ ص۱۶۱، واللفظ لہ)

راجح و صحیح تحقیق:

یہی موقف راجح اور درست ہے۔ راقم الحروف (مصنف) نے بھی اسی تحقیق کو اپنے درج ذیل رسائل میں اختیار کیا ہے:

❀ نور العینین

❀ التاسیس فی مسئلۃ التدلیس (مطبوعہ ماہنامہ الحدیث: شمارہ ۳۳)

سابقہ موقف سے رجوع:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ عبدالرشید انصاری صاحب کے نام ایک مکتوب (مورخہ ۱۴۰۸/۸/۱۹ھ) میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا:

"طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس مضر نہیں ہے۔”
(جرابوں پر مسح، ص۴۰)

یہ بات غلط تھی، اور میں اس سے رجوع کرتا ہوں۔ لہٰذا اسے منسوخ و کالعدم سمجھا جائے۔

عینی حنفی کا قول:

"وسفیان من المدلسین و المدلس لا یحتج بعنعنته الا ان یثبت سماعه من طریق آخر”

ترجمہ:

"اور سفیان (ثوری) مدلسین میں سے ہیں، اور مدلس کی عن والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی الّا یہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔"

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1