سسرال میں قصر نماز کا شرعی حکم
(سفر میں نماز قصر کا مسئلہ)
سوال:
سسرال میں قصر نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا قصر کی جائے یا پوری نماز پڑھی جائے؟ اس بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
(سوال از: خرم ارشاد محمدی)
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
منقولہ روایت اور اس کی تحقیق:
منتقی الاخبار کے مصنف امام عبدالسلام ابن تیمیہؒ نے جلد 1، صفحہ 212 پر یہ باب قائم کیا:
❝ سسرال میں قصر کا مسئلہ ❞
◈ حدیث 1528 میں مذکور ہے:
> حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں۔
> جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:
> ❝ جب سے میں مکہ میں آیا ہوں، میں نے نکاح کرلیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے: جو کسی شہر میں نکاح کرلے، وہ مقیم جیسی نماز پڑھے۔ ❞
**(رواہ احمد)**
روایت کی سند اور تحقیق:
◈ یہ روایت **مسند احمد (1/26، حدیث 443)** اور **مسند الحمیدی (صفحہ 36)** میں اس سند سے مروی ہے:
> "عِكْرِمَةُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ أَبِيهِ…”
◈ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
> ❝ فهذا منقطع، وعكرمة بن إبراهيم ضعيف ❞
> یعنی: یہ روایت منقطع ہے اور عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے۔
**(معرفۃ السنن والآثار، قلمی، جلد 2، صفحہ 425، نصب الرایہ 3/271)**
◈ عکرمہ بن ابراہیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
**(لسان المیزان، جلد 4، صفحہ 210)**
◈ حافظ ہیثمیؒ نے کہا:
> ❝ وفيه عكرمة بن ابراهيم، وهو ضعيف ❞
**(مجمع الزوائد، 2/156)**
صحیح روایت سے موقف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا:
◈ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک صحیح روایت ہے:
> ❝ یا ایہا الناس! ان السنۃ سنۃ رسول اللہ ﷺ و سنۃ صاحبیہ، ولکنہ حدث العام من الناس، فخفت ان یستنوا. ❞
> یعنی: اے لوگو! سنت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور ان کے دونوں ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی سنت ہے۔ لیکن اس سال لوگوں کی آمد زیادہ ہے، اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ (اس نماز کو ہمیشہ کے لیے) اپنا معمول نہ بنالیں۔
**(السنن الکبریٰ للبیہقی، جلد 3، صفحہ 144، سندہ حسن۔ معرفۃ السنن والآثار 2/4239)**
قصر اور مکمل نماز دونوں کی اجازت:
◈ یاد رکھنا چاہیے کہ سفر میں قصر کرنا سنت ہے، لیکن مکمل نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
یہ بات **صحیح احادیث** اور **صحابہ کے آثار** سے ثابت ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات:
◈ ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
> ❝ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ (سفر میں) قصر کرتے رہے اور میں پوری نماز پڑھتی رہی، آپ روزے نہیں رکھتے اور میں روزے رکھتی رہی؟
> تو آپ ﷺ نے فرمایا: "احسنتِ یا عائشہ!” ❞
**(سنن النسائی، جلد 3، صفحہ 122، حدیث 1487، سندہ صحیح۔ سنن دارقطنی 2/187، حدیث 2270۔ وصححہ البیہقی 3/142)**
◈ ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
> ان النبی ﷺ کان یقصر فی السفر ویتم ویفطر ویصوم
> یعنی: نبی ﷺ سفر میں قصر بھی کرتے تھے، مکمل نماز بھی پڑھتے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے اور چھوڑ بھی دیتے تھے۔
**(سنن دارقطنی، 2/189، حدیث 2275، وقال: "وھذا اسناد صحیح”)**
◈ راوی سعید بن محمد بن ثواب کے متعلق:
> تاریخ بغداد (9/95) میں ان کے شاگردوں کی جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔
> حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا اور کہا: ❝ مستقیم الحدیث ❞
**(جلد 8، صفحہ 276)**
> دارقطنی نے ان کی سند کو صحیح قرار دیا اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان سے روایت لی۔
**(صحیح ابن خزیمہ 2/134، حدیث 1062)**
تدلیس کے اعتراضات کا رد:
◈ عطاء بن ابی رباح پر تدلیس کا الزام مردود ہے۔
◈ ایک اور روایت میں ذکر ہے:
> ان رسول اللہ ﷺ کان یتم الصلوة فی السفر ویقصر
> یعنی: نبی کریم ﷺ سفر میں مکمل نماز بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی کرتے تھے۔
**(سنن دارقطنی 2/189، حدیث 2276، محدث مغیرہ بن زیاد پر جرح "لیس بالقوی” مردود ہے)**
فقہاء و محدثین کی آراء:
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مکمل نماز پڑھنا ثابت ہے:
**(صحیح بخاری: 1090، صحیح مسلم: 1572/685)**
◈ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں وفات تک قصر کرنا بھی ثابت ہے:
**(صحیح بخاری: 1102، صحیح مسلم: 1579/679)**
◈ تابعی ابو قلابہ (عبداللہ بن زید الجرمی) کا قول:
> ❝ ان صلیت فی السفر رکعتین فالسنة، وان صلیت اربعاً فالسنة ❞
**(مصنف ابن ابی شیبہ 2/452، حدیث 8188، سندہ صحیح)**
◈ عطاء بن ابی رباح:
> ❝ قصر کرو تو رخصت ہے، اور چاہو تو مکمل نماز بھی پڑھ سکتے ہو ❞
**(ابن ابی شیبہ 2/452، حدیث 8191، سندہ صحیح)**
◈ سعید بن المسیب:
> ❝ چاہو تو دو رکعتیں پڑھو، اور چاہو تو چار ❞
**(ابن ابی شیبہ 2/452، حدیث 8192، سندہ صحیح)**
◈ امام شافعیؒ:
> ❝ لتَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ، فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلاَةَ أَجْزَأَ عَنْهُ ❞
> یعنی: سفر میں قصر کرنا رخصت ہے، اور اگر کوئی مکمل نماز پڑھ لے تو بھی جائز ہے۔
**(سنن الترمذی: 544، کتاب العلل للترمذی مع الجامع، صفحہ 889)**
نتیجہ:
◈ اگر کسی کا سسرال دوسرے شہر میں واقع ہو اور سفر کی مسافت پر ہو، تو قصر کرنا افضل ہے، لیکن مکمل نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
◈ نبی کریم ﷺ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے دونوں صورتیں ثابت ہیں۔
◈ علماء و فقہاء کی آراء، صحابہ کرام و تابعین کے اقوال، اور صحیح احادیث سب اس پر متفق ہیں کہ سفر میں قصر کرنا سنت ہے اور مکمل نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔