آبائی گھر میں قصر نماز کا حکم – تفصیلی وضاحت
سوال
ایک شخص اسلام آباد میں سرکاری ملازم ہے، جب کہ اس کا اصل ذاتی گھر فیصل آباد میں ہے۔ اسلام آباد میں وہ مکمل نماز ادا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ فیصل آباد دو یا تین دن کے لیے جائے تو وہاں قصر نماز پڑھے یا مکمل؟ کچھ علما کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور فیصل آباد دونوں جگہ مکمل نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ اسلام آباد میں ملازمت ہے اور فیصل آباد میں ذاتی جائیداد ہے، اور ان کے مطابق جہاں جائیداد ہو وہاں مکمل نماز ادا کرنی لازم ہے۔
اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ اس کی زوجہ اگر اپنے والدین کے گھر جائے (جہاں وہ جائیداد میں شریک ہو) تو وہ قصر پڑھے یا مکمل؟
علتِ قصر کیا ہے: سفر، یا جائیداد کا نہ ہونا؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
دونوں جگہ مکمل نماز پڑھنا بہتر ہے
❀ آپ کے لیے راجح اور بہتر رائے یہی ہے کہ:
◈ اسلام آباد (جہاں آپ ملازمت کرتے ہیں) اور فیصل آباد (جہاں آپ کا ذاتی گھر ہے)، دونوں جگہ آپ مکمل نماز پڑھیں۔
❀ چونکہ:
◈ سفر میں مکمل نماز پڑھنا بھی جائز ہے،
◈ اور یہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا ہے (یعنی مختلف آرا ممکن ہیں)،
◈ اس لیے شک سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دونوں جگہ مکمل نماز ادا کی جائے۔
سفر میں مکمل نماز پڑھنا بھی ثابت ہے
❀ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی سفر میں مکمل نماز پڑھنا ثابت ہے۔
❀ ایک صحیح حدیث میں:
◈ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں مکمل نماز پڑھنے کو "احسن” یعنی بہتر قرار دیا ہے۔
سنن نسائی، جلد 3، صفحہ 122، حدیث 1457
سنن دارقطنی، جلد 2، صفحہ 188
روایت کی صحت پر تفصیلی دلائل
❀ امام دارقطنی نے اس روایت کو حسن قرار دیا۔
❀ اس کے راوی العلا بن زہیر ہیں:
◈ جمہور محدثین کے نزدیک یہ ثقہ راوی ہیں۔
◈ ان پر حافظ ابن حبان کی جرح مردود (ناقابل قبول) ہے۔
❀ اس روایت کے کئی شواہد بھی ہیں، مثلاً:
دارقطنی (2/188، حدیث 2275) اور بیہقی (3/141) نے بھی صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ:
"نبی ﷺ نے سفر میں مکمل نماز ادا فرمائی”
◈ امام دارقطنی نے اس کی سند کو "اسنادہ صحیح” کہا ہے۔
❀ اس روایت کا راوی سعید بن محمد بن ثواب ہے:
◈ اس سے ایک جماعت روایت کرتی ہے۔
◈ دارقطنی نے اسے "صحیح الحدیث” یعنی ثقہ قرار دیا۔
◈ امام ابن حبان نے "کتاب الثقات” (جلد 8، صفحہ 272) میں اسے "مستقیم الحدیث” کہا۔
❀ لہٰذا:
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ کا "ارواء الغلیل” (جلد 3، صفحہ 7) میں اسے "مجہول الحال” کہنا درست نہیں۔
قصر نماز کا راجح حکم
❀ خلاصہ یہ ہے کہ:
◈ سفر میں قصر کرنا افضل (بہتر) ہے،
◈ لیکن مکمل نماز پڑھنا بھی جائز اور ثابت ہے۔
زوجہ کے قصر نماز سے متعلق سوال
❀ اگر آپ کی زوجہ اپنے والدین کے گھر (جہاں وہ جائیداد میں شریک ہو) جائے، تو:
◈ اس پر بھی وہی اصول لاگو ہوگا:
➤ اگر وہ وہاں اقامت کی نیت سے جائے اور وہ جگہ اس کے لیے وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت ہو، تو مکمل نماز پڑھے۔
➤ اگر صرف چند دن قیام کی نیت ہو (یعنی مسافر شمار ہو)، تو قصر نماز ادا کرے۔
❀ جائیداد میں شراکت بذات خود قصر یا مکمل نماز کا سبب نہیں بنتی، بلکہ علت سفر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شہادت، فروری 2002ء
ھٰذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب