سفر، بیماری و عذر میں نمازوں کے جمع کی 10 صورتیں

سفر اور دیگر حالتوں میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا حکم

سفر میں دو نمازوں کا جمع کرنا

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران ظہر اور عصر کو جمع کر کے پڑھتے، اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی ادا فرماتے تھے۔
(بخاری: تقصیر الصلاۃ، باب: الجمع فی السفر بین المغرب والعشاء: ۷۰۱۱)

جمع کی دو صورتیں

➊ جمع تقدیم:
ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر، اور مغرب کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنا۔

➋ جمع تاخیر:
عصر کے وقت میں ظہر اور عصر، اور عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنا۔

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت

غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر زوال کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر جمع کر لیتے، اور اگر زوال سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر کو تاخیر کر کے عصر کے ساتھ پڑھتے۔
اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے، اور اگر غروب سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو تاخیر کر کے عشاء کے ساتھ ادا فرماتے۔
(أبو داود: صلاۃ السفر، باب: الجمع بین الصلاتین: ۱۲۲۰، ترمذی: الجمعۃ، باب: ما جاء فی الجمع بین الصلاتین: ۵۵۳، اسے امام ابن حبان نے صحیح کہا)

ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت

انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی، تو آپ مغرب کی نماز مؤخر کرتے یہاں تک کہ عشاء کا وقت داخل ہو جاتا، پھر مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا فرماتے۔
(بخاری: تقصیر الصلوٰۃ، باب: یصلی المغرب ثلاثا فی السفر: ۱۹۰۱، مسلم: صلوٰۃ المسافرین، باب: جواز الجمع بین الصلوٰتین فی السفر: ۳۰۷)

جابر رضی اللہ عنہ کا بیان

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر میں نمازوں کی ادائیگی کی کیفیت یوں بیان کی:
"پھر صحابی نے اذان اور اقامت کہی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور آپ نے عصر کی نماز پڑھائی۔”
(مسلم، الحج، باب حجۃ النبی: ۱۲۸۱)

📌 وضاحت:
نمازیں جمع کرتے وقت ایک اذان اور دو اقامتیں کہی جائیں گی۔

حج کے دوران عرفات کے میدان میں نماز کا جمع

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت:
"عرفہ کے دن ظہر اور عصر کی نماز کو جمع کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔”
(بخاری: الحج، باب: الجمع بین الصلاتین بعرفۃ: ۲۶۶۱)

مزدلفہ میں نمازوں کا جمع

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کیا۔”
(مسلم، الحج، باب حجۃ النبی: ۱۲۸۱)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامتوں سے نماز مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور ان کے درمیان کوئی سنت نماز نہیں پڑھی۔
(بخاری: الحج، باب: من جمع بینہما ولم یتطوع: ۱۶۷۴، مسلم: ۱۲۸۷)

بیماری کی شدت میں نمازوں کا جمع

اگر مریض کو وقت پر نماز پڑھنے میں شدید تکلیف ہو یا جان، مال یا عزت کا خوف ہو تو وہ نمازوں کو جمع کر سکتا ہے۔

ابو شعثاء جابر رحمہ اللہ کا بیان:
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھ کر دونوں کو جمع کیا، اسی طرح مغرب کو آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھا۔
(بخاری: ۱۱۴۷)

بارش یا خوف کے علاوہ دیگر ضروری حالات میں جمع

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں، حالانکہ نہ خوف کی حالت تھی اور نہ ہی سفر میں تھے۔
جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دشواری میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔”
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: الجمع بین الصلاتین فی الحضر: ۵۰، حدیث: ۷۰۵)

مزید روایت:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بارش یا خوف کے بغیر بھی نمازیں جمع کیں۔”
(مسلم: ۷۰۵)

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا عمل اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق

عبد اللہ بن شقیق کا بیان:
ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں عصر کے بعد خطبہ دینا شروع کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے نکل آئے۔
کسی نے کہا کہ مغرب کا وقت ہو گیا ہے۔
آپ نے فرمایا:
"مجھے سنت نہ سکھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔”
عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں:
"مجھے شبہ ہوا، تو میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، تو انہوں نے ابن عباس کی تصدیق کی۔”
(مسلم: ۷۰۵)

علماء کا موقف: کاروباری مصروفیت کے باعث جمع کا جواز؟

فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ کا فتویٰ:
"تاجروں کا اس لیے نمازوں کو جمع کرنا کہ ان کے تجارتی مراکز کھلے رہیں، جائز نہیں۔ بلکہ بوقت نماز کاروباری مراکز بند کرنا واجب ہے۔”
(فتاویٰ اسلامیہ، جلد اول، صفحہ ۴۹۳)

📌 وضاحت:
حالت اقامت میں بھی سخت مجبوری کی صورت میں نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں، مگر بغیر کسی شدید ضرورت کے ایسا کرنا جائز نہیں۔
بعض کاروباری افراد سستی یا مصروفیت کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کرتے ہیں، جو کہ ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے۔
ہر نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنا ضروری ہے، سوائے ناگزیر حالات کے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1