سوال
سر کا مسح تین بار کرنے کا حکم
سنت مطہرہ میں سر کا مسح تین بار کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول الله، أما بعد:
سنتِ نبوی ﷺ اور سر کے مسح کا طریقہ
صحیح احادیث میں جہاں نبی کریم ﷺ کے وضوء کا طریقہ بیان ہوا ہے، ان سب میں سر کا مسح ایک بار کیا جانا ثابت ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (1/87) میں تحریر فرمایا:
’’صحیح بات یہی ہے کہ سر کا مسح مکرر نہیں کیا جاتا، بلکہ جب دیگر اعضاء کو متعدد بار دھوتے تو بھی سر کا مسح صرف ایک بار ہی کرتے۔ آپ ﷺ سے اسی طرح صراحت کے ساتھ منقول ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں۔‘‘
مسح ثلاثہ کے دلائل اور ان پر تبصرہ
بعض روایات میں مسح تین بار کرنے کا ذکر آیا ہے، لیکن وہ یا تو غیر صریح ہیں یا ضعیف:
مثال: صحابی کا قول ’’وضوء کیا تین بار‘‘ یا ’’مسح کیا سر کا دو بار‘‘ – یہ غیر صریح روایات ہیں۔
ایک روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے وضوء کیا اور ہاتھ تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح تین بار کیا۔‘‘
لیکن یہ روایت بیلمانی اور اس کے والد کے ذریعے ہے، جو دونوں ضعیف راوی ہیں۔
ابو داؤد کی روایت کردہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں بھی مسح ثلاثہ کا ذکر ہے:
’’انہوں نے سر کا مسح تین بار کیا‘‘ (سنن ابی داؤد: حدیث 231)
لیکن خود امام ابو داؤد فرماتے ہیں:
’’عثمان کی تمام صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی بار کیا گیا۔‘‘
مختلف اسناد سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث تین سندوں سے مروی ہے، جن میں سے دو ابو داؤد میں موجود ہیں اور وہ حسن درجے کی ہیں:
حدیث نمبر 107 کی طرف رجوع کریں۔
حمران سے روایت ہے: انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضوء کرتے دیکھا اور اس میں ذکر ہے کہ انہوں نے سر کا مسح تین بار کیا۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں فرمایا:
ابو داؤد نے دو سندوں سے یہ روایت نقل کی ہے۔
ابن خزیمہ وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔
تلخیص الحبیر اور دیگر کتب میں اقوال
تلخیص الحبیر (1/85) میں ذکر ہے:
ابن الجوزی نے کشف المشکل میں تکرار کی تصحیح کی طرف میلان ظاہر کیا ہے۔
◈مصنف کا قول:
’’یہی حق ہے، کیونکہ اگرچہ ایک بار کی روایات زیادہ ہیں، لیکن وہ تین بار کے معارض نہیں بنتیں۔ کیونکہ یہاں بات سنت کے درجے کی ہے، اور سنت کبھی ادا کی جاتی ہے اور کبھی ترک کی جاتی ہے۔‘‘
الصنعانی نے بھی یہی رائے سبل السلام (1/44) میں اختیار کی ہے، جو تمام المنہ (ص91) میں نقل کی گئی ہے۔
تابعین اور ائمہ کا عمل
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے تابعین کی ایک جماعت سے مسح ثلاثہ کی روایت نقل کی ہے، جیسے:
◈ ابراہیم التیمی
◈ سعید بن جبیر
◈ عطا
◈ زاذان
◈ میسرہ رحمہم اللہ
ابو العلاء کے ذریعے انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت منقول ہے۔
امام دارقطنی کی سنن سے روایت
سنن دارقطنی (1/89) میں روایت ہے:
محمد بن محمود الواسطی → شعیب بن ایوب → ابو یحییٰ الحمانی → ابو حنیفہ → حسن بن سعید المروزی → ابو یوسف → خالد بن علقمہ → عبد خیر → علی رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وضوء کیا اور اس میں ذکر ہے کہ انہوں نے سر کا مسح تین بار کیا۔
امام دارقطنی کا تبصرہ:
ابو حنیفہ نے ’’ثلاثاً‘‘ کہہ کر ثقات کی مخالفت کی۔
صفحہ 91 پر انہوں نے تثلیث کے دلائل ذکر کیے ہیں، مراجعہ کریں۔
فقہی کتب کی رائے
الہدایہ (1/21):
سر کا مسح تین بار کرنا مشروع ہے، لیکن ایک ہی پانی سے، جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت ہے۔
السنن الکبریٰ للبیہقی (1/62-64):
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سر کا مسح تین بار کیا کرتے تھے اور ہر بار نیا پانی لیتے تھے۔
نتیجہ
سنت صحیحہ یہی ہے کہ سر کا مسح ایک بار کیا جائے۔
تاہم، کبھی کبھار تین بار کرنا بھی جائز ہے، جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب