ساتویں دن کے بعد عقیقہ کرنا، جائز ہے
بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ ساتویں دن کے بعد عقیقہ کرنا جائز نہیں، درج ذیل مضمون ان علماء کا رد ہے۔
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
یہ بالکل صحیح ہے کہ بچہ بچی پیدا ہونے پر ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اگر ساتویں دن کسی عذر کی وجہ سے عقیقہ نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کرنا آثار کی رُو سے صحیح ہے اور اگر اکیسویں دن بھی موقع نہ مل سکے تو زندگی میں جب بھی موقع ملے عقیقہ کر لینا چاہئے۔
اس مسئلے کی دو دلیلیں پیش خدمت ہیں:
① امام طبرانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
حدثنا أحمد قال: حدثنا الهيثم قال: حدثنا عبد الله عن ثمامة عن أنس: أن النبى صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد ما بعث نبيا.
انس (بن مالک رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ بے شک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نبی مبعوث ہونے کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا تھا۔ (المعجم الاوسط 1/ 298 ح 883 شاملہ)
اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
✔ مشکل الآثار للطحاوی (46/3 ح 883)
عن الحسن بن عبد الله بن منصور البالسي عن الهيثم بن جميل به.
✔ المختارة للضياء المقدسي (351/2 ح 1833)
من حديث أبى حاتم الرازي: ثنا عمرو بن محمد الناقد: ثنا الهيثم بن جميل به.
✔ محلی لابن حزم (7/528)
من حديث إبراهيم بن إسحاق السراج: ثنا عمرو بن محمد الناقد به.
✔ کتاب العیال لابن ابی الدنیا (ح 66)
عن عمرو بن محمد الناقد به.
اب اس سند کے راویوں کی مختصر و جامع توثیق درج ذیل ہے:
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ صحابی مشہور
❀ ثمامہ( بن عبد اللہ )بن انس رحمہ اللہ
جمہور نے آپ کی توثیق کی ہے، اور آپ صحیح الحدیث وحسن الحدیث راوی ہیں۔
آپ کی بیان کردہ روایات صحیح بخاری (1010، 9453) وغیرہ میں موجود ہیں۔
وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني: صدوق. (تقریب التهذيب: 894 در مزله ع/الكتب الستة)
نیز دیکھئے صحیح البخاری (94، 95، 1517، 2487..)
وصحیح مسلم (2028، ترقیم دار السلام: 5286)
❀ عبداللہ بن المثنى بن انس رحمہ اللہ
آپ جمہور کے نزدیک موثق راوی اور حسن الحدیث ہیں۔
آپ پر بعض کی جرح مرجوح ہے۔
صحیح بخاری میں آپ کی درج ذیل روایات موجود ہیں:
94، 95، 1010، 1453، 1454، 2487
نیز دیکھئے مفتاح صحیح البخاری (ص94)
❀ ہیثم بن جمیل الانطا کی رحمہ اللہ
آپ صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ اہل حدیث تھے۔ جمہور نے آپ کی توثیق کی ہے اور آپ پر امام ابن عدی وغیرہ کی جرح مرجوح و ناقابل سماعت ہے، نیز آپ پر اختلاط کا الزام باطل ہے۔
❀ ہیثم بن جمیل رحمہ اللہ سے یہ حدیث درج ذیل راویوں نے بیان کی ہے:
اول: احمد بن مسعود الدمشقی المقدسی الخیاط رحمہ اللہ
آپ سے ابوعوانہ نے صحیح ابی عوانہ میں روایت بیان کی اور ضیاء المقدسی نے آپ کی حدیث کو صحیح قرار دیا، یعنی آپ حسن الحدیث ہیں۔
دوم: حسن بن عبد اللہ بن منصور البالسی رحمہ اللہ
آپ سے امام ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ میں روایت بیان کی (ح2411، 292)
سوم: عمرو بن محمد الناقد رحمہ اللہ
آپ صحیحین کے راوی اور ثقہ حافظ تھے۔
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ اور حجت ہے۔
اس حدیث کے بارے میں بعض علماء کی خاص تحقیق درج ذیل ہے:
✔ ضیاء المقدسی نے المختارہ میں اسے درج کر کے صحیح قرار دیا۔
✔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا: فالحديث قوي الإسناد پس (یہ) حدیث بلحاظ سند قوی ہے۔ (فتح الباری 595/9)
✔حافظ ہیثمی کے کلام کے لئے دیکھئے مجمع الزوائد (94/4 ح 6203)
✔معاصرین میں سے شیخ البانی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا:
"وهذا إسناد حسن .” اور یہ سند حسن ہے۔ (السلسلة الصحيحة 225/6 ح 2726)
✔نیز محترم حافظ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ نے بھی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
اس حدیث سے یہ مسئلہ صاف ثابت ہے کہ اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو بعد میں جب موقع ملے (مثلاً چالیس سال کے بعد بھی) عقیقہ کرنا جائز ہے اور اسے ناجائز قرار دینا غلط ہے۔
بعض علماء نے احتمال کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص ہے لیکن اس دعوے پر کوئی صریح دلیل نہیں، لہذا اس دعوے میں نظر ہے۔ واللہ اعلم
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل غلام مرتهن بعقيقته. ہر بچہ اپنے عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے۔ (منتقی ابن الجارود: 910 وسنده حسن)
یاد رہے کہ ساتویں روز عقیقہ کرنے والی روایت صحیح ہے اور جس روایت میں چودہ اور اکیس دن کا ذکر ہے، وہ روایت ضعیف ہے۔ (دیکھئے میری کتاب: توضیح الاحکام 184/2-185)
لیکن اس مسئلے پر عطاء بن ابی رباح اور سلف صالحین کے آثار ثابت ہیں۔
بہتر اور مستحب یہی ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے لیکن فقرہ نمبر 1، فقرہ نمبر 2 (كل غلام مرتهن بعقيقته) اور آثار سلف صالحین کی رُو سے ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کرنا جائز ہے۔
جب ہر بچہ عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے تو ہر رہن کو چھڑانا بھی چاہئے اور شرعی عذر وغیرہ سے رہ جانے والے انسانوں کو چاہئے کہ جب موقع ملے عقیقہ کر کے بچے کو اس رہن سے چھڑوالیں۔
ابن حزم اندلسی نے لکھا ہے:
اگر ساتویں دن عقیقے کا جانور ذبح نہ کر سکے تو اس کے بعد جب بھی اس فرض کی ادائیگی پر وہ استطاعت رکھے تو ایسا (یعنی بچے کا عقیقہ) کرلے۔ (المحلی 226/6)
اس قول کا کوئی بھی مخالف نہیں، بلکہ (امام احمد بن حنبل، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور) ابن القیم وغیرہما اس کے مویدین میں سے ہیں اور اس قول کے صحیح ہونے پر (ہمارے علم کے مطابق) اجماع ہے۔ واللہ اعلم
خلاصة التحقیق:
اگر کسی عذر کی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ کی سنت پر عمل نہ ہو سکے تو پھر جب بھی زندگی میں موقع ملے عقیقہ کر لینا چاہئے اور یہی راجح وصواب ہے۔ (28 ستمبر 2011ء)
فوائد:
◈ امام ابوبکر ابن ابی الدنیا نے فرمایا:
حدثنا الحسين بن محمد: ثنا يزيد بن زريع عن حسين المعلم قال: سألت عطاء بن ابي رباح عن العقيقة فقال: عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة، تذبح يوم السابع إن تيسر وإلا فأربع عشرة وإلا فإحدى وعشرين.
حسین (بن ذكوان )المعلم (العوذي البصری المکتب) سے روایت ہے کہ میں نے عطاء ( بن ابی رباح ) سے عقیقے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری ہے، اگر میسر ہو تو ساتویں دن ذبح کی جائے، اور اگر نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور (اس میں بھی) اگر نہ ہو سکے تو اکیسویں دن (ذبح کی جائے۔) (کتاب العیال لابن ابی الدنیا ص 28 ح 61، مطبوعہ مکتبة القرآن للطبع والنشر والتوزيع، القاهرة مصر، تحقیق مسعد عبدالحميد السعدنی)
اس اثر کی سند صحیح ہے اور راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
✔ ابو علی الحسین بن محمد بن ایوب الزارع السعدی البصری رحمہ اللہ
صدوق (تقريب التهذيب: 1480)
ثقة (الكاشف للذہبی: 1106)
انھیں حافظ ابن حبان وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔
✔ ابو معاویہ یزید بن زریع البصری رحمہ اللہ
ثقة ثبت / من رجال الستة (تقريب التهذيب: 8689)
✔ الحسین بن ذكوان المعلم العوذي المكتب رحمہ اللہ
ثقة / من رجال الستة، وأخطأ من قال: "ربما وهم” وثقه الجمهور وجرح العقيلي وغيره فيه مردود.
✔ عطاء بن ابی رباح القرشی المکی رحمہ اللہ
ثقة فقيه فاضل / من رجال الستة، وأخطأ من قال: "إنه تغير بآخره” ولم يكن ذلك منه، وكذلك أخطأ من قال: "لكنه كثير الإرسال” لأنه لا علاقة له هاهنا.
ثقہ اور جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ اگر ولادت مولود کے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو چودھویں اور اکیسویں دن عقیقہ کرنا جائز ہے۔
◈ امام عطاء سے ایک روایت میں آیا ہے کہ: وإن لم يعق عنه فكسب الغلام عق عن نفسه. اور اگر اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، پھر لڑکا (خود )کمائی کرے تو وہ اپنا عقیقہ خود کرے گا۔ (العیال لابن ابی الدنیا: 70)
اس روایت کے راوی طریف بن عیسیٰ العنبری کی توثیق صرف حافظ ابن حبان (الثقات 327/8)، منذری (الترغیب والترہیب 3/151) اور ہیثمی (مجمع الزوائد 173/9) سے ثابت ہے لیکن اس توثیق میں نظر ہے۔ واللہ اعلم
◈امام صالح بن احمد بن حنبل نے فرمايا: وكان يستحب لمن عق عن ولده أن يذبح عنه يوم السابع فإن لم يفعل ففي أربع عشرة فإن لم يفعل
اور آپ (امام احمد بن حنبل رحمہ تعالیٰ ) اپنی اولاد میں سے جس کا عقیقہ کرتے تو پسند کرتے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، پھر اگر ایسا نہ ہو تو چودھویں دن، اور اگر یہ (بھی) نہ ہو تو اکیسویں دن۔ (مسائل صالح بن احمد 2/210 فقرہ: 783، مطبوعہ الدار العلمیة دہلی الہند، تحفة المودود ص 48)
محقق کتاب تحفة المودود کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی رجحان ہے کہ یہ قول امام احمد کا ہے۔
◈ ابن ہانئی نے کہا: میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: الغلام مرتهن بعقيقته بچہ اپنے عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے، کے بارے میں پوچھا، اس کا معنی کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: نعم! سنة النبى صلى الله عليه وسلم أن يعق عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة، فإذا لم يعق عنه فهو محتبس بعقيقته حتى يعق عنه. جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری (عقیقہ کی جائے) پس اگر اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو وہ اپنے عقیقے کی وجہ سے گرفتار رہتا ہے حتی کہ اس کا عقیقہ کر دیا جائے۔ (مسائل ابن ہانی 130/2 فقرہ: 1736)
اس اثر سے ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مرتہن والی حدیث کی رُو سے اکیسویں دن کے بعد بھی عقیقہ کرنے کے قائل تھے اور اس مسئلے میں ابن حزم کا تفرد نہیں۔
◈ امام اسحاق بن راہویہ نے فرمایا کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے (جیسا کہ احمد نے فرمایا)، اور اگر میسر نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر میسر نہ ہو تو اکیسویں دن اور یہ سب سنت ہے۔ (مسائل الامام احمد واسحاق، رواية الکوسی 2/356 فقرہ: 2790، مطبوعہ دار الجرة للنشر والتوزيع، جزيرة العرب یعنی سعودی عرب)
◈ حافظ ابن قیم الجوزیہ نے فرمایا: والحجة على ذلك حديث سمرة المتقدم الغلام مرتهن بعقيقته، تذبح عنه يوم السابع ويسمى. اور (ساتویں دن کے بعد عقیقہ کرنا) اس کی دلیل سمرہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث سابق دلیل ہے: بچہ اپنے عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے، ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جاتا ہے اور نام رکھا جاتا ہے۔ (تحفة المودود بأحكام المولود ص 49، الفصل الثامن، في الوقت الذي يستحب فيه العقيقة)
◈ موسیٰ بن احمد بن موسیٰ بن سالم بن عیسیٰ بن سالم المقدسي الحجاوي الكناني الصالحي (متوفی 968ھ) نے لکھا ہے: فإن فات ففي إحدى وعشرين ولا تعتبر الأسابيع بعد ذلك فيعق بعد ذلك فى أى يوم أراد ولا تختص العقيقة بالصغير.
پھر اگر (چودھویں دن) نہ ہو سکے تو اکیسویں دن (عقیقہ کرنا چاہئے) اور اس کے بعد ہفتوں کا کوئی اعتبار نہیں، لہذا جس دن چاہے عقیقہ کرلے اور عقیقہ چھوٹے بچے کے ساتھ مخصوص نہیں۔ (الإقناع في فقه الإمام أحمد 1/411 شاملہ)