ایک بے سند روایت کے خلاف علمی تحقیق
(طاہر القادری کی کتاب منہاج السوی کے ایک دعویٰ پر تنقیدی جائزہ)
تمہیدی کلمات
ایک صاحب، ڈاکٹر طاہر حسین، جو ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں، نے طاہر القادری کی کتاب "منہاج السوی” کا حوالہ دیا جس میں رفع یدین سے متعلق احادیث کو بقول ان کے "توڑ مروڑ” کر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ سوال کنندہ نے اس کا علمی جواب دریافت کیا، خاص طور پر اس روایت پر جو صفحہ 114 پر نقل کی گئی ہے:
"عَن ابْن عَبَّاس أَنه قَالَ: الْعشْرَة الَّذين شهد لَهُم رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِالْجنَّةِ مَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم إلاّ فِي افْتِتَاح الصَّلَاة، قال السمرقندی :وخلاف هؤلاء الصحابة قبيح”
تخریج: تحفۃ الفقہاء (1/132-133)، بدائع الصنائع (1/207)، عمدۃ القاری (5/272)
اصول حدیث کی روشنی میں بنیادیں
امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول:
"الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ”
(صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: 32، ماہنامہ منہاج القرآن لاہور، ج20، شمارہ 11، نومبر 2006، ص22)
یہ اصولی بات اسناد کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ طاہر القادری صاحب خود بھی اعتراف کرتے ہیں:
"روایتِ حدیث، علمِ تفسیر اور مکمل دین کا مدار اسناد پر ہے۔ سند کے بغیر کوئی چیز قبول نہ کی جاتی تھی”
(ماہنامہ منہاج القرآن، ج20، شمارہ 11، ص23)
اس روایت کا علمی جائزہ
روایت کی ماخذ:
علاء الدین محمد بن ابی احمد السمرقندیؒ (وفات: 553ھ) نے تحفۃ الفقہاء میں لکھا:
"وَالصَّحِيح مَذْهَبنَا لما رُوِيَ عَن ابْن عباس… إلخ”
(تحفۃ الفقہاء، ص132-133، دوسرا نسخہ ص66-67)
اسی روایت کو:
الکاسانی نے بدائع الصنائع (1/207)
العینی نے عمدۃ القاری (5/272) میں بھی نقل کیا ہے۔
کاسانی نے واضح کیا کہ وہ اپنی کتاب اپنے استاد السمرقندی کی تعلیمات پر مرتب کر رہے ہیں۔ (بدائع الصنائع، 1/2)
راوی کا تعارف:
السمرقندی 553ھ میں فوت ہوئے (معجم المؤلفین، 3/67، ت11750)
وہ پانچویں یا چھٹی صدی ہجری کے فقیہ تھے، محدث نہیں۔
سند کی حقیقت:
سیدنا ابن عباسؓ کی وفات 67ھ میں ہوئی۔
السمرقندی سے ابن عباسؓ تک کوئی سند موجود نہیں۔
یعنی یہ روایت بے سند اور بے حوالہ ہے، اس لیے مردود ہے۔
تمریض اور روایت کا انداز
اکثر غیر ثابت یا ضعیف روایات کو بیان کرنے کے لیے "رُوی” جیسے غیر قطعی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
(مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی، ص136، نوع 22)
لہٰذا، جب کوئی روایت سند کے بغیر ہو اور صرف "رُوی” جیسے الفاظ سے بیان کی جائے، تو وہ موضوع، بے اصل اور مردود شمار ہوتی ہے۔
علمی دلائل کی روشنی میں رد
دلیل اول:
"رايت ابن عباس يرفع يديه…”
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1، ص235، ح12431)
یہ روایت حسن لذاتہ صحیح ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ بذات خود رفع یدین کیا کرتے تھے۔
دلیل دوم:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(السنن الکبری للبیہقی، ج2، ص73)
"رواته ثقات” (راوی ثقہ ہیں)
دلیل سوم:
سیدنا عمرؓ سے بھی رفع یدین ثابت ہے۔
(نصب الرایہ، 1/412؛ مسند الفاروق، ج1، ص165-166؛ شرح سنن الترمذی لابن سیدالناس، قلمی ج2، ص217)
سند حسن ہے، شواہد سے یہ روایت صحیح لغیرہ ہے۔
دلیل چہارم:
عشرہ مبشرہ میں سے کسی صحابی سے ترک رفع یدین یا اس کی ممانعت یا منسوخیت ثابت نہیں۔
طاہر القادری کی پیش کردہ روایات کا تجزیہ
منہاج السوی (طبع چہارم، ص228-229، ح258، 260، 261) میں جن تین روایات سے ترک رفع یدین کا دعویٰ کیا گیا ہے، وہ اصول حدیث کے مطابق ضعیف ہیں۔
مثال:
پہلی روایت کے راوی محمد بن حنبل کے بارے میں امام احمد فرماتے ہیں:
"هذا حديث منكر”
(المسائل: روایت عبداللہ بن احمد، ج1، ص242، ت327)
خلاصۂ تحقیق
محمد طاہر القادری کی پیش کردہ مذکورہ روایت:
◈ بے سند
◈ بے حوالہ
◈ موضوع
◈ باطل
◈ اور مردود ہے۔
وما علینا الا البلاغ
(9 فروری 2007، الحدیث:35)