رضاعی رشتہ دو سال بعد بنے تو کیا نکاح درست ہوگا؟ شرعی وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 315

رضاعت کے شرعی اصول اور موجودہ مسئلہ کی وضاحت

سوال کی تفصیل:

سائل نے بیان کیا کہ جب اس کی عمر تقریباً دو سال اور چار ماہ تھی، اس وقت اس کی والدہ کو طلاق ہو گئی۔ والدہ نے طلاق سے ایک ماہ قبل دودھ پلانا بند کر دیا تھا۔ بعد ازاں سائل کی پرورش اس کی دادی کے زیر سایہ ہوئی، اور فطری ضرورت کے تحت دادی نے سائل کو اپنا دودھ پلانا شروع کر دیا۔

یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ:

✿ دادی کی اپنی چھوٹی بیٹی سائل کی پیدائش سے پانچ سال قبل، چار ماہ کی عمر میں فوت ہو چکی تھی۔

✿ جب سائل نے دودھ پینا شروع کیا تو دادی کا دودھ مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔

✿ مگر تقریباً 3 سے 4 ماہ کے عرصہ میں دودھ چوسنے کی وجہ سے دوبارہ دودھ آ گیا، جو سائل نے کچھ عرصہ تک پیا۔

پھر جب سائل بالغ ہوا، تو اس کی شادی اس کے سگے تایا کی بیٹی سے طے کی گئی۔ چونکہ تایا نے بھی اپنی والدہ یعنی سائل کی دادی کا دودھ پیا تھا، اس وجہ سے رضاعت کا مسئلہ پیش آیا۔

والد محترم نے علماء کرام سے شرعی رہنمائی حاصل کر کے شادی کرا دی۔ اب چار سال گزرنے کے بعد اور تین بچوں کی پیدائش کے بعد، سائل اس مسئلہ کی قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ سکے۔

شرعی جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعتِ اسلامیہ کی رو سے رضاعت کے رشتے کے قائم ہونے کے لیے دو شرائط ضروری ہیں:

➊ شرط اول: رضاعت دو سال کی عمر کے اندر ہونی چاہیے

اگر بچہ دو سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد کسی عورت کا دودھ پیتا ہے، تو اس کا رضاعی رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ نہ وہ بچہ اس عورت کا رضاعی بیٹا بنتا ہے، اور نہ ہی وہ عورت اس کی رضاعی ماں قرار پاتی ہے۔

دلائل:

صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب من قال: لا رضاع بعد حولين، ص 1108

✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِۖ لِمَنۡ أَرَادَ أَن يُتِمَّ ٱلرَّضَاعَةَۚ﴾
(البقرة: 233)

"پورے دو برس تک دودھ پلائیں جو کوئی دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔”

✿ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی:

«فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ»

"دودھ پلانا صرف بھوک کے وقت کا ہوتا ہے۔”

➋ شرط دوم: رضاعت پانچ بار یا اس سے زیادہ مرتبہ ہو

اگر بچہ پانچ مکمل رضعات سے کم دودھ پیتا ہے (مثلاً ایک، دو، تین یا چار مرتبہ)، تو رضاعی رشتہ قائم نہیں ہوتا۔

دلیل:

صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات

"پانچ رضعات محرم بناتی ہیں۔”

موجودہ صورتِ حال کا حکم:

✿ سائل نے اپنی دادی کا دودھ اس وقت پیا جب اس کی عمر دو سال اور چار ماہ تھی۔

✿ اس کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت دو سال کے بعد ہوئی، جو کہ شریعت کے مطابق ناقابلِ اعتبار ہے۔

✿ لہٰذا، دادی سائل کی رضاعی ماں نہیں بنی۔

✿ اسی طرح، سائل کا تایا اس کا رضاعی بھائی نہیں بنا۔

✿ نتیجتاً، تایا کی بیٹی بھی سائل کی رضاعی بہن نہیں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ:

یہ نکاح کسی رضاعی بھتیجی سے نہیں بلکہ تایا کی بیٹی سے ہوا ہے، اور یہ نکاح بالکل درست ہے۔

قرآن مجید سے مزید استدلال:

﴿وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّٰتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَٰلَٰتِكَ ٱلَّٰتِي هَاجَرۡنَ مَعَكَ﴾
(الاحزاب: 50)

"اور تیرے چچا کی بیٹیاں، اور تیری پھوپھی کی بیٹیاں، اور تیرے ماموں کی بیٹیاں، اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی۔”

نتیجہ:

✿ سائل کا اپنی تایا کی بیٹی سے نکاح قرآن و سنت کی روشنی میں جائز اور درست ہے۔

رضاعی رشتہ اس نکاح میں رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ رضاعت کی پہلی شرط یعنی دو سال کی عمر سے کم ہونا موجود نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1