رضاعت کبیر کے متعلق سوال و جواب کی وضاحت
❓ سوال:
رضاعت کبیر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی داڑھی والا بالغ مرد ہو اور کسی عورت سے پڑھنے کی غرض سے آتا جاتا ہو، اور اس کا آنا جانا اس عورت کے لیے شرعی یا معاشرتی طور پر مشکل بن جائے، تو کیا ایسی صورت میں وہ عورت اس مرد کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے تاکہ وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے، اور اس کے بعد مرد کا آنا جانا جائز شمار ہو؟
اس مسئلہ کی وضاحت تفصیل اور دلائل کے ساتھ فرمائیں۔
✅ جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت کے مطابق رضاعت (دودھ پلانے) کی جو مدت متعین کی گئی ہے، وہ دو سال ہے۔
✿ اگر کسی بچہ نے اس مقررہ مدت کے اندر کسی عورت کا دودھ پی لیا اور وہ دودھ پینا پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ ہو، تو ایسی صورت میں حرمتِ رضاعت (یعنی رضاعی رشتہ اور اس سے متعلقہ شرعی احکام) ثابت ہو جاتی ہے۔
📚 رضاعت کبیر کے بارے میں کچھ آراء:
✿ بلاشبہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے میں رضاعت کبیر (یعنی بالغ مرد کا دودھ پینا) کا تصور موجود ہے۔
✿ تاہم، ان کی اس رائے کو جب دلائل کی روشنی میں پرکھا جائے تو وہ درست نہیں ٹھہرتی۔
📖 تحقیق کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں:
✿ صحیح بخاری
✿ صحیح مسلم
✿ سنن دارقطنی ✿ وغیرہ۔
ان کتب میں موجود دلائل اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رضاعت صرف دو سال کی عمر تک محدود ہے۔ اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں۔
📝 مزید تفصیل کی گنجائش فی الحال نہیں ہے، لیکن مذکورہ کتب کے مطالعے سے یہ مسئلہ پوری طرح واضح ہو جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میری تحقیق ہے، اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ درست بات کیا ہے۔)