سوال
ایک شخص عشاء کی نماز کے وقت وتر پڑھ لیتا ہے اور رات کے پچھلے پہر بیدار ہو جاتا ہے اور نماز تہجد ادا کرنا چاہتا ہے۔ دلائل و براہین کی روشنی میں وضاحت مطلوب ہے کہ:
➊ کیا وہ تہجد کی نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
➋ اگر پڑھ سکتا ہے تو اس کی کیا صورت ہو گی؟
➌ کیا وہی ابتدائی رات کے وتر کافی ہوں گے یا دوبارہ وتر ادا کرنے پڑیں گے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ سے رات کے تینوں حصوں میں تہجد پڑھنا ثابت ہے، لہٰذا تہجد پہلی، درمیانی یا آخری رات میں ادا کرنا جائز ہے۔ جس شخص کے لیے رات کے آخری حصے میں بیدار ہونا مشکل ہو، وہ بے خوف و خطر عشاء کے بعد ہی تہجد پڑھ سکتا ہے، وتر ادا کر سکتا ہے، اور پھر سو سکتا ہے۔
وتر کو نماز کے آخر میں ادا کرنے کی اہمیت
رسول اللہﷺ کی ایک صحیح حدیث ہے:
"وتروں کو نماز (تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان اور صلاۃ اللیل) کے آخر میں رکھو۔”
(صحیح مسلم، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی والوتر رکعۃ من آخر اللیل)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کو نمازِ شب کی آخری نماز بنایا جائے۔
رسول اللہﷺ کا عمل
صحیح مسلم (بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصلاۃ، باب الوتر، الفصل الأول) کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
رسول اللہﷺ وتر ادا کرنے کے بعد بھی دو رکعت نفل نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شخص وتر پڑھ کر سو جائے اور بعد میں بیدار ہو جائے تو وہ تہجد یا قیام اللیل کی نماز ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ ان دو رکعتوں کے بعد وتر technically آخر میں نہیں رہتے، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ایسا کیا، لہٰذا یہ عمل جائز ہے۔
بہتر طریقہ
بہتر یہی ہے کہ:
❀ وتر کو نمازِ شب کے آخر میں ادا کیا جائے،
❀ چاہے تہجد رات کے ابتدائی حصے میں ہی کیوں نہ پڑھ لی جائے۔
غیر ثابت شدہ عمل
بعض لوگ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں:
➊ پہلے وتر پڑھ کر سو جاتے ہیں،
➋ پھر جب بیدار ہوتے ہیں تو پہلی وتر کو ایک رکعت ملا کر توڑ دیتے ہیں،
➌ تہجد پڑھتے ہیں،
➍ اور آخر میں دوبارہ وتر ادا کرتے ہیں۔
یہ طریقہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب