ذاتی و شرعی غصے کے 2 احکام دلائل کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

غصے کے متعلق شریعت کی روشنی میں تفصیلی وضاحت

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غصے کو عربی زبان میں "غضب” کہا جاتا ہے۔ یہ انسان کے اندر پیدا ہونے والی ایک کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ بات یا منظر کو دیکھ کر چہرے اور عمل سے ناراضگی یا برہمی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ شریعت کی نظر میں غصے کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں:

1۔ جائز غصہ

اس قسم کے غصے میں وہ تمام امور شامل ہیں جن پر غصہ کرنا شریعت کی رو سے جائز بلکہ مطلوب ہوتا ہے، جیسے کہ:

  • ◈ کسی منکر (ناپسندیدہ و حرام کام) کو دیکھ کر دل میں نفرت کا پیدا ہونا۔
  • ◈ باطنی طور پر غیرت ایمانی کی آگ بھڑک اٹھنا۔
  • ◈ منکرات کو مٹانے اور ختم کرنے کی کوشش کرنا۔

یہ غصہ دراصل غیرتِ ایمانی کی علامت ہے، اور ایسا غصہ رکھنا شریعت کا تقاضا ہے۔

حدیث شریف:

"من رأی منکم منکرا فلیغیره بیدہ فإن لم یستطع فبلسانه فإن لم یستطع فبقلبه و ذلک أضعف الإیمان”
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان کون النہی عن المنکر)

ترجمہ:
"تم میں سے جو کوئی منکر (برائی) کو دیکھے، تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے اسے بدلے۔ اگر یہ طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں (اس کی نفرت) رکھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔”

اس حدیث کے نکات:

  • ◈ منکرات پر دل میں غصہ آنا اور اس کا اظہار کرنا ایمانی غیرت ہے۔
  • ◈ تین درجات بیان کیے گئے:
    1. ہاتھ سے روکنا
    2. زبان سے منع کرنا
    3. دل میں نفرت رکھنا (یہ بھی ایمان کی ایک علامت ہے)
  • ◈ موقع و محل کے مطابق دعوت کے اسلوب میں تبدیلی کی اجازت ہے، مگر منکرات پر غصہ کرنا بہرحال تقاضائے ایمان ہے۔

2۔ بے جا اور ناجائز غصہ

یہ غصہ انسان کی ذاتیات سے متعلق ہوتا ہے، جیسے کہ:

  • ◈ ذاتی نقصان، بے عزتی یا کسی ذاتی غرض کی بنیاد پر کسی پر ناراض ہونا۔

اس غصے کی شرعی حیثیت:

  • ◈ اگر یہ غصہ حد سے تجاوز نہ کرے اور حق پر ہو تو جائز ہو سکتا ہے۔
  • ◈ لیکن اگر یہ غصہ زیادتی پر مبنی ہو تو یہ حرام شمار ہوگا۔

شریعت کی تعلیمات:

  • ◈ ذاتی غصے کو قابو میں رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
  • عفو و درگزر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
  • ◈ کسی کو معاف کر دینا اور غصے کو ختم کر دینا:
    • ✿ نہ بزدلی کی علامت ہے
    • ✿ نہ بے غیرتی کی نشانی ہے
    • ✿ بلکہ یہ محسن ہونے کی دلیل ہے اور اللہ کا مقرب بندہ شمار کیا جاتا ہے۔

اصولی نکتہ:

  • زیادتی والا غصہ: حرام ہے
  • منکرات پر غضب: جائز، بلکہ واجب ہے
  • ◈ اس واجب غصے سے غفلت برتنا یا لاپرواہی اختیار کرنا اللہ کے نزدیک مذموم اور قابلِ ملامت ہے۔

نتیجہ:

غصہ کرنا بذاتِ خود نہ حرام ہے، نہ جائز، بلکہ اس کی نیت، محل، اور انداز دیکھ کر اس کی شرعی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ اگر یہ اللہ کی رضا، غیرتِ ایمانی اور منکرات کے خاتمے کے لیے ہو تو عین عبادت ہے، اور اگر یہ ذاتی غرض، زیادتی اور انتقام کی شکل اختیار کرے تو حرام اور قابلِ مذمت ہے۔

وبالله التوفيق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1