دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کرنا: ایک باطل نظریہ
سوال:
ہم دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کر بیٹھے ہیں، جیسا کہ مثال کے طور پر ڈاڑھی کے مسئلے پر گفتگو کرتے وقت لوگ اس طرح کی تقسیم کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام کو "چھلکے” اور "مغز” جیسی اصطلاحات میں تقسیم کرنا ایک غلط اور باطل نظریہ ہے، کیونکہ:
❀ دینِ اسلام پورا کا پورا مغز ہے، نہ کہ صرف کچھ حصے۔
❀ یہ دین مکمل طور پر انسانیت کے لیے نفع بخش ہے۔
❀ اس کا ہر پہلو اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔
تقویٰ اور اطاعت میں بڑہوتری سے فائدہ ہی فائدہ
❀ جو شخص جتنا زیادہ ایمان رکھتا ہے اور اپنے رب کی طرف رجوع کا داعیہ رکھتا ہے، وہ اسی قدر زیادہ فائدے میں رہتا ہے۔
❀ اگر کوئی شخص لباس اور وضع قطع جیسے مسائل میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے عمل کرے، تو اسے بھی اجر و ثواب حاصل ہوگا۔
چھلکے کی مثال اور اس کا عدم اطلاق دین پر
❀ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ چھلکے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسی لیے اسے پھینک دیا جاتا ہے۔
❀ لیکن دین اسلام کا کوئی بھی پہلو چھلکے کی طرح بے فائدہ نہیں ہے۔
❀ شریعتِ اسلامی مکمل طور پر مغز ہے، بشرطیکہ:
✿ نیت اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو۔
✿ عمل رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق حسن انداز میں انجام دیا جائے۔
بے بنیاد تقسیمات سے اجتناب
❀ جو لوگ اس طرح کی غلط تعبیرات کو پھیلاتے ہیں، انہیں غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔
❀ وہ حق و صواب کو پہچانیں اور اس پر عمل کریں۔
❀ ایسی لغو اور باطل تقسیمات کو چھوڑ دیں۔
دین میں مراتب ضرور ہیں مگر بے فائدہ کچھ نہیں
❀ یہ درست ہے کہ دین اسلام میں کچھ امور بہت عظیم اور مہتم بالشان ہیں، جیسے:
«بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّکَاةِِّ وَصَوْمِ رَمَضَان وحج بيت الله الحرامَ»
(صحیح البخاری، الايمان، باب دعاؤکم ايمانکم، ح:۸ وصحیح مسلم، الايمان، باب ارکان اسلام ودعائمه العظام، ح:۱۶)
ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
➊ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں،
➋ نماز قائم کرنا،
➌ زکوٰۃ دینا،
➍ رمضان کے روزے رکھنا،
➎ بیت اللہ کا حج کرنا۔
❀ اگرچہ دین کے کچھ احکام کی اہمیت میں فرق ہو سکتا ہے، مگر کوئی بھی حکم ایسا نہیں جو چھلکے کی طرح بے فائدہ ہو اور جسے نظر انداز کیا جا سکے۔
ڈاڑھی کا مسئلہ: عبادت یا عادت؟
❀ جہاں تک ڈاڑھی کا تعلق ہے:
❀ بلاشبہ ڈاڑھی رکھنا عبادت ہے، کیونکہ:
✿ نبی اکرم ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔
✿ اور جس چیز کا نبی ﷺ نے حکم دیا، وہ عبادت ہوتی ہے۔
✿ یہ عمل اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔
❀ اس پر عمل کرنے سے انسان:
✿ نبی ﷺ کی اطاعت کرتا ہے۔
✿ اور یہ تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
﴿يَبنَؤُمَّ لا تَأخُذ بِلِحيَتى وَلا بِرَأسى﴾
(سورة طه: 94)
ترجمہ: ’’بھائی! میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیے۔‘‘
❀ مزید برآں، حدیث میں ثابت ہے کہ:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ ڈاڑھی کا بڑھانا فطرت میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔
❀ لہٰذا ڈاڑھی رکھنا کوئی عادت نہیں بلکہ عبادت ہے۔
❀ اسے چھلکا سمجھنا یا بے فائدہ قرار دینا غلط فہمی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب