توحید کا معنی و مفہوم :
توحید کا مادہ وحد ہے اور اس کے مصادر وحدا ، وحدة ،حدة اور وحودا آتے ہیں۔
توحید کا لغوی معنی و مفہوم ہے: ”اپنی ذات میں ایک ہونا، منفرد ہونا ، یکتا ہونا ، اکیلا ہونا۔ اور جو ہستی اپنی ذات میں ایک ہو، منفرد ہو ، یکتا ہو، اُسے وحيد ، وحد یا وحد کہتے ہیں۔
اصطلاح شرع میں توحيد یہ ہے کہ اللہ کو اس کی ذات اور صفات میں یکتا و تنہا مان کر اُس کی عبادت کرنا ( کسی اور کو اُس کی صفات الوہیت اور عبادت میں شریک نہ ٹھہرانا۔)
(المغنى المريد: 13/1 )
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (حجة الله البالغه) میں توحید کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
توحید کے چار بنیادی اور اساسی عقیدے ہیں :
1: واجب الوجود اور ازلی اور ابدی صرف اللہ کی ذات ہے۔
2: عرش، آسمانوں، زمین اور تمام جواہر کا خالق اللہ ہے۔ ان دو عقیدوں سے نہ مشرکین عرب نے اور یہود و نصاری نے اختلاف نہیں کیا۔
3 : آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا مد بر، متصرف اور منتظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
4 : عبادت اور پرستش کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ان آخری دو عقیدوں میں باہمی تلازم ہے اور ان دونوں عقیدوں میں بہت سے گروہوں نے اختلاف کیا ہے۔
[حجة الله البالغة القسم الأول، باب التوحيد.]
توحید کی ضرورت :
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کے ذریعے نشوونما کرے تاکہ بچہ جب بڑا ہو تو عقیدہ توحید پر گامزن ہو اور دین اسلام کا سچا پیروکار بنے۔ اپنے مسائل کا حل اسی دین اسلام میں تلاش کرے۔ کیونکہ یہی اللہ کا وہ سچا اور مکمل دین ہے جس میں کوئی کجی نہیں ، کوئی کمی نہیں۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس صحیح ، سچے اور مکمل دین کو چھوڑ کر ادیان باطلہ کے پیروکار بن کر ضلالت و گمراہی کے سمندروں میں غرقاب ہو گئے ہیں ۔
توحید کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ ایمان کا جزو اعظم اور دین اسلام کا اصل الاصول ہے۔ عبادات ومعاملات اور اعمال و اخلاق یعنی تمام اعمالِ صالحہ کی روح ہے، اگر توحید نہیں تو ایمان و اسلام بھی نہیں، بغیر توحید کے تمام عبادات و معاملات مردود، رائیگاں اور بے ثمر ہوں گے۔
یہ عقیدہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نشر و اشاعت اور افہام و تفہیم کی خاطر ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر اور سینکڑوں کتب اور صحیفے نازل فرمائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
(21-الأنبياء:25)
”اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا، اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لہذا تم سب میری ہی عبادت کرو۔ “
سیدا لانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چونکہ سلسلۂ نبوت ورسالت ختم کرنا تھا اس لیے آپ کی بعثت اور تنزیل قرآن سے سارے دین اسلام کی عموماً اور اسلام کے اس بنیادی عقیدے کی خصوصاً تکمیل فرما دی۔ قرآن مجید کا 1/3 حصہ اسی اہم مسئلہ توحید سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
(112-الإخلاص:1)
”اے نبی ! کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہے۔“
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ
(2-البقرة:163)
”اور تم سب کا معبود ایک اللہ ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔“
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اپنی ذات، اسماء وصفات اور افعال میں اکیلا ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں، اس کے علاوہ کوئی خالق و مدبر نہیں۔ اس لیے عبادت کی تمام صورتیں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔
اس آیت کریمہ میں توحید کی اجمالی دلیل بیان کرنے کے بعد اس سے اگلی آیت کریمہ میں تفصیلی دلائل کا ذکر فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ توحید کو دلائل عقل و نقل ، آیات آفاق و النفس اور نطائر و امثال سے فرمایا ہے یعنی انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا ان نشانیوں میں غور تو کرو، کیا یہ اللہ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کے دلائل نہیں ہیں؟
آسمان کی بلندی، اس کی وسعت و اونچائی، اس میں چاند، سورج اور ستاروں کی دنیا، زمین کی پستی ، اس کا ہموار ہونا، اس کے پہاڑ ، اس کے سمندر، اس کی آبادیاں ، اور گوناں گوں نفع بخش چیزیں، دن اور رات کی باضابطہ گردش گرمی ، سردی، موسم کا اعتدال، لیل و نہار کا چھوٹا اور بڑا ہونا، کشتیوں اور جہازوں کا سمندروں میں انواع و اقسام کے سامان لے کر چلنا ،سمندروں اور ہواؤں کا اس کے لیے مسخر ہونا ، آسمان سے بارش کا نزول، جس سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے، اور مختلف انواع و اقسام کے نباتات اور کھانے کی چیزوں کی تخلیق، زمین میں مختلف الانواع جانور اور حضرت انسان کے لیے ان کی تسخیر ، ہواؤں کا چلنا، ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی ، مشرقی اور مغربی ہواؤں کا تنوع ، اور بادلوں کا وجود جو بارش کا پانی اٹھا کر اللہ کے حکم سے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہتے ہیں۔
یقینا یہ ساری چیزیں اللہ کے وجود اور اس کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہیں، اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے یہ نشانیاں کامل ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(2-البقرة:164)
”بے شک آسمان وزمین کی تخلیق ، لیل و نہار کی گردش اور اُن کشتیوں میں جوسمندر میں لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں، اور اُس بارش میں جیسے اللہ آسمان سے بھیجتا ہے، اور جس کے ذریعہ وہ مردہ زمین میں جان ڈالتا ہے، اور جس زمین پر اللہ نے تمام قسم کے جانوروں کو پھیلا دیا ہے، اور ہواؤں کے رخ بدلنے میں، اور اس بادل میں جسے اللہ آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیے ہوتا ہے، اصحاب عقل و خرد کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں۔“
سورۃ بنی اسرائیل کے ابتدا میں جہاں دین اسلام کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، وہاں ابتدا
لَّا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ
(17-الإسراء:22)
”اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ بناؤ“
سے کی گئی ہے، پھر احکامات دینیہ کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد فرمایا:
ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ
(17-الإسراء:39)
”یہ سب حکمت کی وہ باتیں ہیں جو آپ کے رب نے آپ کو بذریعہ وحی عطا کی ہیں، اور آپ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو شریک نہ ٹھہرائیے ۔ “
فائدہ :
اس سے ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ دین کی ابتدا بھی کلمہ توحید لا إله إلا الله سے اور انتہا بھی توحید پر ہے۔
توحید کی اقسام:
توحید کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1 : توحید الوہیت
2: توحید ربوبیت
3 : توحید الاسما والصفات
اول : توحید الوہیت:
توحید الوہیت کا مطلب یہ ہے کہ جملہ عبادات میں اللہ تعالیٰ کو اکیلا مانا جائے ، اور کسی طرح کی عبادت غیر اللہ کے لیے نہ کی جائے۔
یاد رہے کہ یہی وہ توحید ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو تخلیق کیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
(51-الذاريات:56)
” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“
عبادت کے جملہ مراسم ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات، رکوع و سجود، نذر و نیاز ، طواف واعتکاف، دعا وپکار، استعانت و استغاثه، اطاعت و غلامی ، فرمانبرداری اور پیروی صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ ان چند میں سے کسی ایک میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا شرك فى العباد يا شرك فى الالوهية کہلائے گا۔
پس شرک کی تعریف یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی غیر کی بھی کس طرح کی پرستش کی جائے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :
«المشرك الذى عبدمع الله الها آخر»
[صحيح بخاري، كتاب التفسير سورة الرعد.]
”مشرک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی غیر کی بھی کسی طرح کی عبادت کرے۔ “
دوم : توحید ربوبیت:
توحید ربوبیت یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق، زندہ کرنے والا، موت دینے والا ہے، اور وہی سارے جہاں کا کارساز ہے جس کی آسمانوں اور زمین میں حکومت ہے، اور اس قسم کی توحید کا اقرار و اعتراف اس فطرت کا تقاضا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا فرمایا ہے، حتی کہ مشرکین جن کے درمیان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مبعوث ہوئے ، وہ بھی اس کا اقرار کرتے تھے اور اس کے منکر نہ تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
(10-يونس:31)
”یعنی آپ پوچھئے کہ تمہیں آسمان اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے، یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے، اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور کون تمام امور کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ ۔ تو آپ کہئے کہ پھر تم لوگ شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو۔ “
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ
(43-الزخرف:9)
”اور اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کس نے بنائے ہیں، تو ضرور کہیں گے، ان کو غالب جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔“
مگر دہریے اور کیمونسٹ اور جن کا بھی ذہن ان کی تعلیمات سے آلودہ ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور یہ کائنات اور اس میں موجودہ سب چیزیں خود بخود پیدا ہوگئی ہیں، نیچر ہی ان کا خالق ہے، لیکن وہ اس پر عقل سلیم کو آمادہ نہ کر سکے، اور علت العلل کے نام سے الہی صفات کو انہیں تسلیم کرنا پڑا۔
ہندومت میں تصورِ خدا:
گیتا میں ایک مقام پر لکھا ہے:
”وہ بھگوان پیدا ہی نہیں ہوا وہ امر ہے اور وہ ساری کائنات کا مالک ہے“۔
[بهگوت گيتا، باب 10 اشلوك3.]
اُپنشد بھی ہندوؤں کے مقدس منابع میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اشلوک ملاحظہ فرمائیے :
”وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ “
[چهنڈو گيا اُپنشد باب 6 ، حصه 2 ، اشلوك1 .]
ہندومت کی مذہبی کتابوں میں سے وید سب سے زیادہ مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ اہم وید چار ہیں :
ا۔ رگ وید ۔
2۔ یجروید۔
3۔ سام وید۔
4۔ اتھروید۔
یجر وید میں ایک جگہ درج ہے:
”اس کا کوئی عکس کوئی تمثال نہیں ہے۔ اس کی نشان بلاشبہ بلند ہے، ہر درخشندہ و تابندہ شے اس کے دم سے باقی ہے جیسے سورج وغیرہ۔ وہ مجھے دکھی نہ کرے۔ یہی میری دعا ہے۔ چونکہ وہ نازائیدہ ( ان جنا) ہے اس لیے وہ ہماری پرستش کے لائق ہے۔“
[يجر از ديوي چند ايم اے صفحه: 377]
اتھر وید میں ہے:
”یقینا خدا عظیم ہے۔ “
[اتهرويد ، كتاب 20، باب 58، اشلوك 3]
سکھ مذہب میں تصورِ خدا:
کوئی بھی سکھ اپنے مذہب کے مطابق خدا کی بہترین تعریف ”مول منتر“ (سکھ مذہب کے بنیادی عقائد کا مجموعہ) کے حوالے سے ہی کر سکتا ہے جو گرو گرنتھ صاحب کے آغاز میں موجود ہے جو کہ گرو گرنتھ صاحب کی پہلی جلد کا پہلا منتر ہے جو ”جاپوجی“ کہلاتا ہے:
”ایک ہی خدا وجود رکھتا ہے وہی حقیقی خالق ہے جو خوف اور نفرت سے آزاد ہے وہ نازائیدہ اور لازوال ہے وہ قائم بالذات ( جو خود سے ہو ) عظیم اور رحیم ہے۔ “
زرتشتی مذہب میں تصور خدا:
زرتشتی مذہب میں خدا کو ”اہورامزدا“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ”اہورا“ کا مطلب ”آقا اور خداوند“ کے ہیں اور ”مزدا“ کے معانی” دانائے بزرگ اور دانائے کل“ کے ہیں۔ پس ”اہورامزدا“ کے معنی ”خدائے علیم وخبیر“ کے ہیں۔ ”اہورامزدا“ ہوبہو وحدہ لا شریک خدا کی ترجمانی کرتا ہے۔
دساتیر کے مطابق خدا کی صفات :
[دساتير لگ بهگ سوله كتابوں كے مجموعے كا نام هے جسے آذر كيوان كے پيروكاروں نے عهد صفويه ميں تاليف كيا۔ آذر كيوان زرتشت مذهب كے بڑے عالموں ميں سے تها جس نے اپنے مريدوں كے ايك گروه كے ساته هندوستان آكر ايك مذهبي فرقے كي بنياد ڈالي جو زرتشتي مذهب، اسلام، هندومت اور عيسائيت كا امتزاج هے۔ دساتير ميں آذر كيوان فرقے كے عقائد درج هيں۔]
1 : وہ ایک ہے۔
2: کوئی اُس جیسا نہیں ۔
3 : وہ ابتدا اور انتہا کی حدود سے باہر ہے۔
4 : اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی بچے۔
5 : وہ جسم اور صورت سے ماورا ہے۔
6 : آنکھیں اُسے دیکھتی ہیں نہ خیال اسے تصور میں لاسکتا ہے۔
7 : وہ تمہارے ہر تصور اور تخیل سے بالا تر ہے۔
8: وہ تمہاری ذات سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔
[بحواله : مجهے هے حكم اذاں ۔ از ڈاكٹر ذاكرنائيك۔]
ہم نے سامی مذاہب سے ہٹ کر غیر سامی مذاہب میں سے تصور الہ العالمین کا تجزیہ پیش کیا ہے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس قسم کی توحید کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے، اور وہ بھی تکبر وعناد کی وجہ سے ظاہری طور پر کیا ہے، ورنہ دل سے وہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
(27-النمل:14)
”اور ان نشانیوں کا انہوں نے ظلم و سرکشی کی وجہ سے انکار کر دیا، حالانکہ ان کا باطن ان کی صداقت کا یقین کر چکا تھا۔ پس آپ دیکھیں کہ فسادیوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔“
سوم : توحید اسما و صفات :
توحید اسما وصفات یہ ہے کہ قرآن وسنت سے ثابت شدہ تمام صفات الہیہ پر ایمان لایا جائے اور انہیں بلا تکییف و تمثیل اور بلا تحریف و تعطیل مانا جائے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا
(7-الأعراف:180)
”اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں کے ذریعہ پکارو۔ “
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ
(17-الإسراء:110)
”آپ کہہ دیجیے ! کہ تم لوگ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو، جس نام سے چاہو اُسے پکار وہ تمام بہترین نام اسی کے لیے ہیں۔“
نیز فرمایا:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(42-الشورى:11)
”کوئی چیز اس کے مانند نہیں اور وہ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔“
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ
(16-النحل:74)
”پس تم اللہ کے لیے مثال بیان نہ کرو۔“
اسماوصفات کے متعلق چند اہم اصول وقواعد
پہلا اصل :
اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کے متعلق وارد نصوص کتاب وسنت کو ان کی ظاہری دلالت پر باقی رکھا جائے۔ ان میں کسی قسم کا تغیر اور تبدیلی کی جسارت نہ کی جائے۔ کیونکہ معنی ظاہر کو تبدیل کرنا، اللہ تعالیٰ پر بلا علم بات کرنے کے مترادف ہے، جو کہ شرعی طور پر حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(7-الأعراف:33)
”آپ کہیے کہ میرے رب نے تمام ظاہر و پوشیدہ بدکاریوں کو ، اور گناہ اور ناحق سرکشی کو حرام کر دیا ہے، اور یہ بھی حرام کر دیا ہے کہ تم لوگ اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تمہیں علم نہیں۔“
دوسر اصل :
اس اصل کے تحت چند فروعات ہیں جن کے بیان سے پورا قاعدہ سمجھ آ جائے گا۔
پہلی فرع :
اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء غایت درجہ اچھے اور پیارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ
(17-الإسراء:110)
” آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اللہ کواللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین اور اچھے نام اسی کے لیے ہیں۔“
دوسری فرع:
اللہ تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد میں محصور نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
(18-الكهف:109)
”آپ کہیے کہ میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے سارا سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر خشک ہو جائے گا، چاہے مدد کے لیے ہم اسی جیسا اور سمندر لے آئیں ۔ “
تیسری فرع:
اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ توقیفی ہیں، یعنی ان کا اثبات محض قرآن وحدیث کی دلیل پر موقوف ہے، لہذا اس سلسلہ میں نص شرعی پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ
(17-الإسراء:36)
”اور جس بات کا آپ کو علم نہ ہو اس کے پیچھے مت لگئے ۔ “
چوتھی فرع:
اللہ تعالیٰ کے بعض اسماء متعدی ہوتے ہیں اور بعض غیر متعدی۔
1۔ متعدی اسما:
متعدی اسماء کے متعلق درج ذیل تین چیزوں کا اثبات ضروری ہے۔
1: اللہ تعالیٰ کا ہر نام اُس کی ذات پر دلالت ہے۔
2 : اور اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس صفت پر دلالت کرتا ہے جو اس کے نام کے ضمن میں موجود ہے۔
3 : اللہ تعالیٰ کے اس نام کا اثر اس کی مخلوق پر تعدی کرتا ہے۔ مثلاً صفت الرحمن ہے، یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ اپنے جس بندے پر چاہے رحمت کا نزول فرماتا ہے۔
2۔ غیر متعدی اسما:
غیر متعدی اسما میں مذکورہ تین چیزوں میں سے صرف پہلی دو کا اثبات کیا جائے گا، آخری کا نہیں، مثلاً: السید اسما اللہ میں سے ہے لیکن یہ اسم مخلوق کی طرف متعدی نہیں ہے۔ اس کا تعلق محض ذات باری تعالیٰ سے ہے۔
تیسرا اصل :
اس قاعدہ اور اصل کو سمجھنے کے لیے چند فروعات کا مفہوم انتہائی ضروری ہے۔
پہلی فرع:
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال اور مدح پر مشتمل ہیں، ان میں کسی قسم کا کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔ مثلاً: صفت الحياة ، العلم ، القدرة وغیرہ ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ
(16-النحل:60)
”اور اللہ کے لیے سب سے عمدہ اور اعلیٰ صفت ہے۔“
دوسری فرع:
اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر ہیں:
(1) ثبوتیہ۔
(2) سلبیہ ۔
1۔ صفات ثبوتیه :
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت فرمایا ہے، صفات ثبوتیہ کہلاتی ہیں۔ مثلاً: صفت الحياة، العلم، النزول، الوجه وغیرہ۔
پس ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا انتہائی ضروری ہے، کمایلیق بجلالہ شانہ
2۔ صفات سلبییه :
صفات سلبیہ ، وہ صفات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کر دی ہے۔ ان صفات کی اللہ تعالیٰ کی ذات سے نفی کرنا اور ان کی ضد پر جرائم اس ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے، مثلاً : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ
(25-الفرقان:58)
”اور آپ ہمیشہ زندہ رہنے والے پر بھروسہ کیجیے، جسے موت نہیں آئے گی ۔“
اب ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے موت کی نفی کی جائے ، اور اس کے ساتھ ساتھ موت کی ضد صفت حياة کو اللہ تعالیٰ کے لیے بدرجہ اتم ثابت و تسلیم کیا جائے۔
تیسری فرع:
صفات ثبوتیه کی دو قسمیں ہیں:
(1) ذاتیہ۔
(2) مغلیہ۔
1۔ صفات ذاتیہ:
صفات ذاتیہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیےمصتف ہے، کبھی انقطاع نہیں آیا ، جیسے صفت سمع اور بصر وغیرہ۔
2۔ صفات فعلیه:
صفات فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں، جن کا صدور اس کے ارادے پر موقوف ہے، چاہے تو وہ فعل انجام دے اور چاہے تو نہ دے۔ مثلاً صفت المجئي اور الكلام وغیرہ۔
چوتھی فرع:
ان صفات کے متعلق تین بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1 : اللہ تعالیٰ تمام صفات حقیقی ہیں، ان کی تاویل جائز نہیں ۔ مثلاً : اللہ تعالیٰ کے لیے صفت يد ثابت ہے، تو اس کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا، اس کی تاویل قدرت کے معنی میں کرنا درست نہیں۔
2 : اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی تکییف ( کیفیت بیان کرنا ) جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ
(16-النحل:74)
”پس تم لوگ اللہ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو۔ “
3 : اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ، مخلوقات کی صفات کے مشابہ اور مماثل نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(42-الشورى:11)
” کوئی چیز اس کے مانند نہیں، اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ “
تمثیل اور تکلیف میں فرق:
تمثیل :
سے مراد یہ ہے کہ کسی صفت کی اس کے مماثل کے ساتھ مقید کر کے کیفیت بیان کی جائے ،مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ اللہ کا ہاتھ انسان کے ہاتھ جیسا ہے۔
تکییف :
کا معنی یہ ہے کہ کسی صفت کی اس کے مماثل سے مقید کیے بغیر کیفیت بیان کی جائے، مثلاً کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نزول الی سما الدنیا کی بغیر تشبیہ و تمثیل کے، کسی معین کیفیت کا تخیل کرے۔
تمثیل اور تکییف کا حکم:
تمثیل اور تکییف باطل و ناجائز ہے۔ امام مالک، سفیان بن عینیہ اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«آمروها بلا کيف»
”ان صفات کی کیفیت بیان کیے بغیر بیان کرو۔ “
یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان الرحمٰن على العرش استوي کا کیا معنی ہے؟ تو آپ نے جوابا فرمایا:
«الاستواء معلوم والكيفية مجهول والإيمان به واجب»
[سير أعلام النبلا: 100/8 ، 106]
”استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔“
عقیدہ طحاویہ میں عرش کے متعلق مرقوم ہے:
«والعرش والكرسي حق، وهو مستغن عن العرش وما دونه محيط بكل شيء وفوقه.»
[عقيده طحاويه ، ص: 56، طبعة المكتب الاسلامي.]
”عرش اور کرسی کا وجود حق ہے، اللہ تعالی عرش اور اس کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز کے اوپر ہے۔“
شیخ الحنفیہ ابو الیسر بزدوی رقمطراز ہیں:
”ہاتھ اور چہرے کا اثبات ہمارے نزدیک حق ہے، اس کی اصل واضح ہے۔ وصف اور کیفیت غیر واضح ہے۔ معتزلہ نے کیفیت کو جہالت کی بنا پر اصل کو قبول نہ کیا، اور ان صفات کی تعطیل کر کے معطلہ ہو گئے ۔ “
[شرح الفقه الاكبر للقارى، ص: 93]
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں:
«لا يجوز وصفه بأنه فى كل مكان بل يقال: إنه فى السماء على العرش كما قال: الرحمن على العرش استوى»
”اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہنا کہ ہر جگہ ہے، جائز نہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ آسمان میں عرش پر ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ رحمن عرش پر مستوی ہوا۔ “
ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
«إن الغضب والرضى الذى يوصف الله به مخالف لما يوصف به العبد وإن كان كل منها حقيقة، فإن صرف القرآن عن ظاهره وحقيقته بغير موجب حرام.»
[شرح الفقه الاكبر ص: 96]
”اللہ تعالیٰ کی صفت غصہ اور راضی ہونا ، بندے کے غصہ اور راضی ہونے کے مخالف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ قرآن مجید کو اس کے ظاہری اور حقیقی معنی سے بغیر کسی دلیل کے پھیرنا حرام ہے۔“
عبد اللہ بن ابی الھذیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا، کہ کیا آپ کو یہ علم پہنچا کہ جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، وہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لا بل يضحك ”نہیں بلکہ اللہ رب العزت ہنستا ہے۔ “
[الإبانة: 111/3 .]
امام زہری اور مکحول کہتے ہیں کہ جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے، اُن کو اُسی طرح قبول کرو۔
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي: 431/3.]
امام ابو حنیفہ رحمہ للہ سے منقول ہے:
«ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن تكون له حاجة واستقر عليه وهوحافظ العرش وغير العرش من غير احتياج»
[إيضاح الدليل فى حجج أهل التأويل: 79/1- خلاصة علم الكلام: 9/1 ۔]
”اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی عرش پر اس کے محتاج ہونے کے بغیر مستوی اور مستقر ہے، اور وہی عرش اور غیر عرش کا بغیر احتیاج وضرورت کے محافظ بھی ہے۔ “
چوتھا اصل :
گمراہ فرقوں معطلہ اور مؤدلہ وغیرہ پر رد کا طریقہ۔
ان لوگوں پر رد کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے کہا جائے۔
1: تمہارا یہ قول ظاہر نصوص کے خلاف ہے۔
2 : طریقہ سلف کے خلاف ہے۔
3 : اور تمہارے مذہب کی صحیح دلیل سے تائید بھی نہیں ہوتی۔
4: اور ابوالحسن اشعری، جن کی طرف یہ عقیدہ منسوب کیا جاتا ہے، وہ خود اس عقیدے سے رجوع کر کے سلف صحابہ اور تابعین و ائمہ کرام کے عقیدے کے معتقد ہو گئے تھے۔
توحید کی شروط
توحید کی سات شروط ہیں کہ جن کی عدم موجودگی میں توحید کا وجوہ نہیں ہوگا۔ بعض اہل علم نے ان شروط سبعہ کو ایک شعر میں جمع کر دیا ہے:
عِلْمٌ يَقِينُ وَإِخْلَاصٌ وَ صِدُقُل مَعَ
مَحَبَّةٍ وَ إِنْقِيَادٍ وَالْقُبُولُ لَهَا
سطور ذیل میں ان کو مختصرا مگر جامع انداز میں بیان کر دیا جاتا ہے:
علم:
توحید باری تعالی کی گواہی دینے والے شخص کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، ہر قسم کی عبادت کے لائق وہی ذات باری تعالیٰ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ
(47-محمد:19)
”پس اے میرے نبی ! آپ جان لیجئے کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔ “
اس آیت کریمہ کو دلیل بناتے ہوئے امام بخاری رحمہ للہ نے اپنی صحیح کتاب العلم میں باب قائم کیا ہے: باب: العلم قبل القول والعمل ”اس بات کا بیان کہ علم کا درجہ قول وعمل سے پہلے ہے۔“
اور سورۃ ابراہیم میں بھی لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ عزوجل کی وحدانیت کا علم حاصل کریں، کیونکہ علم توحید کے لیے ایسی شرط ہے جس سے انسان کا یقین محکم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
هَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
(14-إبراهيم:52)
”یہ لوگوں کے لیے اللہ کا پیغام ہے، اور تا کہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے، اور تا کہ وہ جان لیں کہ بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔ “
مزیر برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من مات وهو يعلم أن لا إله إلا الله دخل الجنة.»
[مسند احمد: 229/5. صحيح ابن حبان: 369/1. رقم: 203. سلسلة الصحيحة، رقم: 2278]
”جو شخص اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو وہ آدمی جنت میں داخل ہوگا۔ “
اس حدیث نبوی علی صاحبہا التحیة والسلام سے بھی قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ توحید کے لیے ”علم“ کی شرط انتہائی ضروری ہے۔
یقین :
توحید کا معنی و مفہوم جاننے کے بعد اس عقیدہ پر دل سے یقین رکھنا کہ ” تمام عبادات کے لائق محض ذات باری تعالیٰ“ ہے اور اس میں ذرا بھی تردد نہ کرنا توحید کی دوسری شرط ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
(49-الحجرات:15)
”یقینا مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر شک میں مبتلا نہیں ہوئے ، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی لوگ بچے ہیں۔ “
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ما من نفس تموت وهى تشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله يرجع ذلك إلى قلب مومن إلا غفر الله لها .»
[فتح الباري: 48/1.]
”جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ یقین کے ساتھ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ “
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
«اليقين الإيمان كله.»
”یقین سارا ایمان ہے۔ “
اخلاص:
توحید کی تیسری شرط اخلاص ہے، اخلاص کا مطلب یہ ہوگا کہ عبادت، دین خالصتا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، اس میں ریا، اور اغراض دنیا کا عمل دخل نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
(98-البينة:5)
”اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے یکسو ہوکر “
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من شهد ان لا إله إلا الله مخلصا فى قلبه دخل الجنة.»
” جس شخص نے لا الہ الا اللہ کی شہادت اخلاص قلب سے دی ، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔“
[صحيح ابن حبان: 280/1 ، رقم: 002 ۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 3355]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”اصل الاسلام شہادتین ہے، پس جس نے عبادت میں نمود و نمائش کو طلب کیا ، اس نے توحید کا یقین نہیں کیا۔ “
صدق :
صدق کا مطلب یہ ہے کہ توحید کے مفاہیم و مطالب کو سمجھنے، یقین کرنے اور اخلاص پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان اُمور میں صدق سے کام لے، مگر جو شخص محض زبان سے تو اقرار کرتا ہے لیکن ان اُمور میں صدق سے کام نہیں لیتا، تو وہ منافق ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
(63-المنافقون:1)
”اے میرے نبی ! جب آپ کے پاس منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ آپ بے شک اس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین بے شک جھوٹے ہیں۔“
یعنی منافقین زبان سے آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے، لیکن ان کے دل آپ کی رسالت کی تصدیق نہیں کرتے تھے ، یعنی اُن کا باطن اُن کے ظاہر کے خلاف تھا تو انہیں ان کے اقرار و شہادت میں جھوٹا قرار دیا گیا۔ لہذا صدق و سچائی توحید میں امر لازم ہے۔ اور وہ صدق ایسا ہو جو کذب کے سراسر منافی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
(39-الزمر:33)
”اور جو رسول سچی بات لے کر آیا ، اور جن لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی، وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ “
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں: الصدق سے مراد كلمه توحيد ہے ۔
[تفسير ابن كثير : 484/4_ الدر المنثور : 197/7۔ تفسير طبري: 4/11.]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :
«ما من أحد تشهد أن لا إله إلا الله أن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار.»
[صحيح بخاري، كتاب العلم، رقم: 128 .]
”جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔“
محبت :
جو شخص عقیدہ توحید کا حامل ہو اسے چاہیے کہ وہ اس عقیدہ سے محبت کرے، کیونکہ توحید کی معرفت محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ
(2-البقرة:165)
” اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، اور اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے اور اہل ایمان اللہ سے بے حد محبت کرتے ہیں ۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان ومن كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهها ، ومن أحب عبدا لا يحبه إلا لله، ومن يكره أن يعوذ فى الكفر بعد إذا أنقذه الله كما يكره أن يلقى فى النار.»
[صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 12 ۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 125.]
” جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا: ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں ۔ اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے۔ اور تیسرے یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو ، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو ایسا برا جانے جیسے آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔ “
یحیی بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جو شخص اللہ کی حدود کا پاس نہ رکھے، وہ اللہ سے محبت کے دعوے میں قطعی سچا نہیں ہے ۔ “
[جامع العلوم والحكم ص: 397.]
ابو یعقوب رحمہ للہ فرماتے ہیں:
”کوئی بھی شخص جو اللہ عزوجل سے محبت کا دعوی کرتا ہے، لیکن اللہ کے احکامات بجا نہیں لاتا، تو اس کا دعویٰ باطل ہے، اور جو اللہ سے محبت کا دم بھرتا ہے لیکن اللہ سے نہیں ڈرتا تو وہ مغرور ہے۔ “
[جامع العلوم والحكم ص: 397۔ المحلية: 356/1]
تابع داری:
تابع داری اور اطاعت شعاری توحید کی شروط میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ
(39-الزمر:54)
”اور تم سب اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اُسی کی اطاعت و بندگی میں لگے رہو، اس سے قبل کہ تم پر عذاب نازل ہو جائے، پھر کسی کی جانب سے تمہاری مدد نہ کی جائے ۔“
بلکہ اسلام در حقیقت اپنے جوارح کو اللہ کی توحید کے ساتھ اطاعت شعار بنانے کا نام ہے، اور یہ سب سے مضبوط سہارا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ
(31-لقمان:22)
”اور جس نے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ، در آنحالیکہ وہ نیکو کار ہو، تو اس نے مضبوط سہارا تھام لیا۔ “
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى سے مراد لَا إِلَهَ إِلَّا الله کلمہ توحید ہے۔
[تفسير طبري: 219/10.]
قبول کرنا :
کلمہ توحید ”لا الہ الا اللہ“ کے مطالب و معانی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کرنا بھی توحید کی شرط لازم ہے، تکبر اور کینہ کی بنا پر یا تساہل کی وجہ سے عبادت کو رد نہ کیا جائے ، وگرنہ قبول کی شرط منفقود ہو جائے گی، اور توحید ناقص ہوگی، اللہ تعالیٰ نے کفار کی یہی خرابی بیان فرمائی ہے کہ:
إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ (35) وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ(36)
(37-الصافات:35، 36)
”اُن سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو کبروغرور کا اظہار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک مجنون شاعر کی باتوں میں آ کر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔“
کلمہ توحید کو قبول کرنے والے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیابی اور نجات کی بشارت دی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من قبل مني الكلمة التى عرضتها على عمي فردها على ، فهي له نجاة»
[مسنداحمد: 6/1، رقم: 20- كشف الأستار : 9/1- مسند ابو يعلي: 21/1، رقم: 640. شيخ شعيب نے اسے شواهد كي بنا پر ”صحيح“ قرار ديا هے۔]
”جس نے مجھ سے کلمہ توحید قبول کر لیا تو یہ کلمہ اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا، اس کلمہ کو میں نے اپنے چچا پر بھی پیش کیا تھا لیکن اس نے اسے رڈ کر دیا تھا۔ “