دو سجدوں کے درمیان دعا کے بارے میں شرعی وضاحت
سوال:
صلوٰۃ النبی کے نئے ایڈیشن میں دو سجدوں کے درمیان "رَبِّ اغْفِرْ لِي رَبِّ اغْفِرْ لِي” دعا درج ہے، جبکہ پرانے ایڈیشن (نمازِ نبوی) میں ایک طویل دعا موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طویل دعا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طویل دعا کی تفصیل:
دو سجدوں کے درمیان پڑھی جانے والی طویل دعا درج ذیل الفاظ پر مشتمل ہے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي
سند کی کیفیت:
- اس دعا کی سند میں حبیب بن ابی ثابت موجود ہے۔
- یہ راوی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار پاتا ہے۔
حدیث کا تقویتی شاہد:
- محترم برادر مولانا غلام مصطفی ظہیر کی نشاندہی پر اس دعا کا ایک شاہد (تقویت دینے والی حدیث) دستیاب ہوا۔
- اس دعا کو من و عن رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، ص: 2697)
نماز کے عموم میں دعا کی شمولیت:
- اگرچہ مذکورہ حدیث میں دو سجدوں کے درمیان کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں ہے،
- لیکن نماز کے عمومی دائرہ میں دو سجدوں کے درمیان کی کیفیت بھی شامل ہے۔
روایت کا درجہ:
اس تقویتی شاہد کی بنیاد پر حبیب بن ابی ثابت کی روایت کو حسن قرار دیا جا سکتا ہے۔
(شہادت، اگست 2001)
نتیجہ:
لہٰذا، دو سجدوں کے درمیان طویل دعا اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي پڑھنا شرعی طور پر درست اور قابلِ عمل ہے، کیونکہ اس کی تائید صحیح مسلم کی حدیث سے ہوتی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب