دو رکعتوں کے قعدہ میں درود چھوڑنا؟ حدیث کی مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 193

سوال

ترمذی شریف جلد اول، باب التشہد میں ایک حدیث ہے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں:

"إِذَا قَعَدْنَا فِی الرَّکْعَتَیْنِ…”
(جب ہم دو رکعتوں میں بیٹھتے تو التحیات إلى عبدہ ورسولہ تک پڑھتے)۔

اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دو رکعتوں کے بعد "أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ” تک پڑھتے تھے اور درود شریف نہیں پڑھتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
کیا اس حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ صرف "عبدہ ورسولہ” تک پڑھنا چاہیے؟ درود شریف نہ پڑھا جائے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے وہ جامع ترمذی جلد اول، باب التشہد میں مذکور ہے:

"إِذَا قَعَدْنَا فِی الرَّکْعَتَیْنِ…”
(جب ہم دو رکعتوں میں بیٹھتے تو التحیات سے لے کر عبدہ ورسولہ تک پڑھتے)۔

آپ کے سوال میں جو بات بیان کی گئی ہے، اس کی بنیاد محض حدیث کے الفاظ کے ظاہری مطلب پر رکھی گئی ہے، بغیر اس کے کہ حدیث کے اصل الفاظ اور ساخت کو مکمل طور پر سمجھا جائے۔

آئیے اب حدیث کے مکمل الفاظ ملاحظہ فرمائیں تاکہ مفہوم واضح ہو:

حدیث کے مکمل الفاظ:

«عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : عَلَّمَنَا رَسُوْلُ اﷲِﷺ إِذَا قَعَدْنَا فِی الرَّکْعَتَيْنِ أَنْ نَّقُوْلَ : اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُه، اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِيْنَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَّ اِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه»

(جامع ترمذی، جلد اول، باب التشہد)

گرامر اور معانی کی وضاحت:

اس حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان میں:

"عَلَّمَنَا” = رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی
"إِذَا قَعَدْنَا” = جب ہم دو رکعتوں میں بیٹھتے
"أَنْ نَّقُوْلَ” = کہ ہم کہیں

لہٰذا "إِذَا قَعَدْنَا”، "أَنْ نَّقُوْلَ” کے لیے ظرف (وقت کا بیان) ہے، اور "عَلَّمَنَا” کا دوسرا مفعول "أَنْ نَّقُوْلَ” ہے۔

یعنی مطلب یہ نہیں کہ صرف "عبدہ ورسولہ” تک پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ یہ تشہد کے بنیادی الفاظ کی تعلیم ہے، جو ہر قعدہ (بیٹھنے) میں پڑھے جاتے ہیں۔

بخاری شریف کی روشنی میں مزید وضاحت:

اسی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بھی ذکر کیا ہے:

"أَشْهَدُ أَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَائِ أَعْجَبَه إِلَيْهِ فَيَدْعُوْا”

(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب)

یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ:

◈ "عبدہ ورسولہ” کے بعد مزید دعا کی جا سکتی ہے۔
◈ درود شریف کی تائید دیگر احادیث سے ہوتی ہے۔
◈ جیسے دعا کا سلسلہ "عبدہ ورسولہ” کے بعد جاری رہتا ہے، ویسے ہی درود شریف بھی اس کے بعد پڑھنا درست اور ضروری ہے۔

نتیجہ:

حدیث ترمذی کا مطلب یہ نہیں کہ صرف "عبدہ ورسولہ” تک ہی پڑھا جائے اور اس کے بعد کچھ نہ پڑھا جائے۔
بلکہ:

◈ یہ تشہد کے ابتدائی الفاظ کی تعلیم ہے جو ہر نماز کے قعدے میں ضروری ہیں۔
◈ "عبدہ ورسولہ” کے بعد درود شریف اور دعائیں پڑھنا احادیث صحیحہ کی روشنی میں درست، بلکہ ضروری ہے۔
◈ اس حدیث سے "درود نہ پڑھنے” کا مفہوم لینا حدیث کے الفاظ اور سیاق و سباق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1