دوسری جماعت سے متعلق 2 صحیح احادیث و فتاویٰ

دوسری جماعت کا حکم

نبی کریم ﷺ کی رہنمائی:

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو ارشاد فرمایا:

’’اس پر کون صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لے۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی الجمع فی المسجد مرتین، ۴۷۵۔ امام ترمذی، امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں "بحوث العلمیۃ والافتاء” (سعودی عرب) کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کچھ افراد مسجد میں اس وقت آئیں جب امام نماز مکمل کر چکا ہو اور سلام پھیر چکا ہو، تو ان افراد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ پہلی جماعت کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری جماعت قائم کریں۔ اس میں کوئی قباحت یا ممانعت نہیں۔

(فتاوی اسلامیہ، جلد اول، صفحہ ۹۶۴)

دوسری جماعت کے لیے اذان اور اقامت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل:

صحابۂ کرام سے اذان اور اقامت کے متعلق دونوں طرح کے اعمال ثابت ہیں:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں داخل ہوئے جہاں جماعت سے نماز ادا کی جا چکی تھی۔ انہوں نے وہاں اذان اور اقامت دوبارہ کہلوائی اور نماز ادا کی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث ۸۹۲۲)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں اسود اور علقمہ کو نماز پڑھائی، لیکن انہیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہیں دیا۔
(مسلم، کتاب المساجد، باب الندب الی وضع الایدی علی الرکب فی الرکوع، حدیث ۴۳۵)

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جماعت کا قیام جائز ہے، اور اذان و اقامت کے حوالے سے دونوں طریقے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں، لہٰذا دونوں صورتیں درست ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1