دعا میں ہاتھ اٹھانے کی 2 کیفیات اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

دعا میں ہاتھ اٹھانے کی مقدار اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا حکم

(احادیث اور آثار کی روشنی میں مکمل وضاحت)

مقدمہ

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا کے دوران ہاتھ اٹھانا سنتِ نبویﷺ سے ثابت ہے، اور اس کے اٹھانے کی مقدار اور کیفیت کے بارے میں جو احادیث اور آثار موجود ہیں، ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

دعا میں ہاتھ اٹھانے کی مقدار

➊ نمازِ استسقاء میں ہاتھ اٹھانے کی کیفیت

حضرت انسؓ کا بیان:

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نمازِ استسقاء میں نبی کریمﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ میں نے آپﷺ کے بغلوں کی سفیدی تک دیکھ لی۔
(صحیح بخاری: 1029)

➋ چہرے کے برابر ہاتھ اٹھانا

عمر مولیٰ ابی اللحم کی روایت:

عمر مولیٰ ابی اللحم فرماتے ہیں: میں نے نبی کریمﷺ کو نماز استسقاء میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہوئے دیکھا۔

"یستسقی رافعا یدیہ قبل وجھہ لا یجاوز بھما رأسہ”

(سنن ابی داود: 1168)
’’آپﷺ اپنے ہاتھوں کو چہرے کے سامنے اس طرح بلند کر کے دعا مانگ رہے تھے کہ وہ سر سے اوپر نہیں جا رہے تھے۔‘‘

➌ دونوں احادیث سے استدلال

◈ مذکورہ دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ:

  • نبی اکرمﷺ بعض اوقات دعا میں ہاتھوں کو اتنا بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی۔
  • بعض مواقع پر ہاتھوں کو چہرے کے برابر تک بلند کیا جاتا، لیکن وہ سر سے اوپر نہیں جاتے تھے۔

◈ ان روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ:

  • دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب عمل ہے۔
  • یہ خشوع و خضوع اور عاجزی کی علامت ہے۔

دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا حکم

➍ نبی کریمﷺ سے صریح ثبوت

◈ نبی اکرمﷺ سے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کی کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔

➎ صحابہ کرامؓ کا عمل

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے بارے میں یہ اثر موجود ہے:

وہ دعا کے بعد اپنی ہتھیلیوں کو چہرے کی طرف گھما لیتے تھے۔
(الأدب المفرد: 609)

نتیجہ

◈ دعا میں ہاتھ اٹھانا سنت ہے اور اس کی مختلف کیفیات احادیث سے ثابت ہیں۔
◈ ہاتھوں کو چہرے کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ تک اٹھانا جائز اور مستحب ہے۔
◈ دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا عمل نبی کریمﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت نہیں، لیکن بعض صحابہ کرامؓ سے یہ منقول ہے۔

وبالله التوفيق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1