دعا عبادت ہے، بریلوی علماء کا اعتراف
تحریر: ابو الاسجد محمد صدیق رضا

دعا اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، مومن کا اسلحہ ہے، انبیاء کی سنت اور صالحین کا طریقہ ہے۔ وسعت ہو یا تنگی ہر حال میں دعا کی اہمیت مسلم ہے اور مومن کے لئے ہر حال میں یہ ایک مرغوب عمل ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے کئی مراحل آتے ہیں کہ جس میں اسے دعا کی احتیاج پیش آتی ہے، انسان ہی کی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو دعا مانگنے کا حکم دیا، اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں ہر جگہ اللہ تعالی ہی سے دعا مانگنے کا حکم ہے اور اسی کی ترغیب و ہدایت بیان ہوئی ہے۔ غیر اللہ سے دعا مانگنے کا نہ صرف یہ کہ حکم نہیں بلکہ اس کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے۔ بطور مثال چند آیات ملاحظہ کیجئے:
1: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾
(7-الأعراف: 55)
”اپنے رب سے دعا کرو گڑ گڑاتے اور آہستہ بے شک حد سے بڑھنے والے اُسے پسند نہیں ۔ “
(ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
① اس آیت کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا: ”دعا اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ داخل عبادت ہے“ (نوار العرفان)
② جناب محمد کرم شاہ الازہری صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں بارگاہ الہی میں رجوع کا حکم دیا جا رہا ہے؟ (ضياء القرآن (38/2)
یہ ان لوگوں کی تفسیریں ہیں جو غیر اللہ سے دعا و فریاد کے قائل و فاعل ہیں اور اس پر مصر بھی ہیں، لیکن قرآن مجید کی ان آیات کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اعتراف کر چکے ہیں کہ اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا حکم ہے۔ کاش ! عملا بھی اسے تسلیم کرتے۔
2: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ‎﴾
(7-الأعراف: 56)
”اور اس (رب ) سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے بیشک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکی کرنے والوں سے ۔“
(ترجمه از احمد سعید کاظمی صاحب، البيان ص (252)
3: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿‏ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾
(2-البقرة: 186)
اس آیت کا ترجمہ و تفسیر جناب غلام رسول سعیدی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کیجئے، لکھا ہے:
ترجمہ: ”اور (اے رسول) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو آپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو چاہیے کہ وہ (بھی) میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان برقرار رکھیں تا کہ وہ کامیابی حاصل کریں“ ۔
(تبیان القرآن 690/1)
اور اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ہمارے زمانے میں بعض جہلا اللہ تعالی سے دعا کرنے کے بجائے اپنی حاجتوں کا سوال پیروں، فقیروں سے کرتے ہیں اور قبروں اور آستانوں پر جا کر اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اور اولیاء اللہ کی نذر مانتے ہیں، حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے اور اس کی نذر مانی چاہیے، کیونکہ دعا اور نذر دونوں عبادت ہیں اور غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں ۔
(تبيان القرآن 691/1 ، 692 مطبوع فريد بك سٹال، لاهور)
سعیدی صاحب یہاں اعتراف کر رہے ہیں کہ بعض لوگ اللہ سے دعا کے بجائے ۔ پیروں فقیروں ، قبروں اور آستانوں پر اپنی حاجات کا سوال کرتے ہیں، حالانکہ ہر چیز . کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے، لیکن ان کے ہم مسلک سعیدی صاحب کی بات مانتے ہم نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ کے بجائے اونچی قبروں والوں سے دعائیں مانگتے ہیں !!!
سعیدی صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا کہ دعا عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں البتہ یہ نہیں بتلایا کہ یہ نا جائز کی کونسی اقسام میں سے ہے؟ اس کی وضاحت مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب سے سن لیں، لکھتے ہیں:
”غیر خدا کی عبادت مطلقا شرک ہے زندہ کی ہو یا مردہ کی ۔“
(جاء الحق ص 218 مطبوع ضیاء الدین پبلیکیشنز)
المختصر ! سعیدی صاحب کو تسلیم ہے کہ دعا عبادت ہے اور نعیمی صاحب کا اعلان ہے کہ غیر اللہ کی عبادت مطلقاً شرک ہے اللہ تعالی ان کو شرک سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
باقی رہا سعیدی صاحب کا یہ کہنا: ”ہمارے زمانے کے بعض جہلا تو عرض ہے کہ بعض جہلا نہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ پھر آپ قبروں و آستانوں پر اور پیروں فقیروں سے اپنی حاجات طلب کرنے والوں کو جہلا قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ان کے مسلک میں بڑے بڑے القابات کے حامل لوگ اس کے مرتکب ہیں، جو علماء سمجھے جاتے ہیں۔
1: جناب مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب نے لکھا:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیائے کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ اہل قبور سے دعا مانگنے کا بہت سے فقہاء نے انکار کیا ہے اور مشائخ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو ثابت کیا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ موسیٰ کاظم کی قبر قبولیت دعا کے لئے آزمودہ تریاق ہے اور امام غزالی نے فرمایا جس سے زندگی میں مدد مانگی جاسکتی ہے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جا سکتی م ہے۔“
(جاء الحق ص 204)
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب بات غیر ثابت اور بے اصل ہے، باقی اپنے حکیم الامت صاحب کی اس عبارت سے جناب سعیدی صاحب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اولیاء کی قبروں پر جا کر ان سے اپنی حاجات طلب کرنا صرف ”جہلا“ ہی کا عقیدہ و عمل نہیں بلکہ ان کے ہاں تو فقہاء سمجھے جانے والے لوگ بھی ایسے اعمال کے مرتکب ہیں باقی صوفیا کے جو عقائد و نظریات ہیں ان سے تو یہ قطعاً بعید نہیں۔
2: مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:
”در مختار جلد سوم باب اللقطہ کے آخر میں گمی ہوئی چیز تلاش کرنے کیلئے ایک عمل لکھا: جس سے کوئی چیز گم ہو جاوے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملا دے تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرے پھر سیدی احمد بن علوان کو پھر یہ دعا پڑھے اے میرے آقا، اے احمد بن علوان اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپکو دفتر اولیاء سے نکال لونگا۔ پس خدا تعالیٰ اس کی گمی ہوئی چیز ان کی برکت سے ملا دے گا۔ اس دعا میں سید احمد بن علوان کو پکارا بھی ان سے مدد مانگی اور گمی ہوئی چیز بھی طلب کی اور یہ دعا کس نے بتائی حنفیوں کے فقیہ اعظم صاحب دور مختار“
(جاء الحق ص 207-206)
یہی بات محمد فیض احمد اویسی صاحب نے اپنی کتاب ”ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع جدید اضافہ“ (ص: 198) میں نقل کی۔
3: اور یہی عبارت جناب غلام نصیر الدین سیالوی صاحب نے اپنی کتاب ”ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، (ص 210) میں بحوالہ رد المحتار (جلد 3 ص 355 )نقل کی ہے۔ کیا اتنے بڑے بڑے القاب والے لوگ بھی آپ کے ہاں جہلاء میں شمار ہوتے ہیں، جوغیر اللہ سے دعا کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾
(40-غافر: 60)
”اور تمھارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھینچے (تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ۔ ذلیل ہو کر“
(ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الدعاء هو العبادة ثم قرأ: وقال ربكم ادعوني استجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»
دعا ہی عبادت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (آیت ) تلاوت فرمائی: ”اور تمہارے رب نے کہا: مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“
(سنن الترمذي: 3372 وسنده صحیح)
آیت کے پہلے حصے میں دعا کا حکم ہے اور دوسرے حصہ میں عبادت سے سرکشی کا برا انجام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ عبادت سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی جو دعا مانگنے سے سرکشی کرے اپنے رب سے نہ مانگے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ پھر دعا عبادت مانگنے ہونا فریق ثانی کے بہت سے علماء نے تسلیم کیا ہے۔
1 : مفتی احمد یار خان نعیمی نے لکھا: ”دعا کے بعد عبادت کا ذکر فرمانے سے معلوم ہوا کہ دعا عبادت ہے۔
(مرآۃ المناجیح اردو شرح مشکوۃ المصابح 294 /3 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
2 : مراد آبادی صاحب نے آیت بالا کی تفسیر میں لکھا: آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دعا سے مراد عبادت ہے اور قرآن کریم میں دعا بمعنی عبادت بہت جگہ وارد ہے حدیث شریف میں ہے الدعا هو العبادة
(ابود او دو ترمذی ، خزائن العرفان)
پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے لکھا: ”حضرت ابن عباس سے ادعوني استجب لكم کی یہ تفسیر منقول ہے ۔
اعبدوني اثيبكم: تم میری عبادت کرو میں تمہیں اس کا ثواب اور اجر دوں گا۔ یہ قول ضحاک ، مجاہد اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے ۔ دیگر علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان فرمایا ہے ۔
اسئلوني اعطيكم: یعنی تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ (معانی) حقیقت میں یہ دونوں تفسیر میں ہم معنی ہیں۔ ان میں اصلاً کوئی تفاوت نہیں دعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ کیونکہ انتہا درجہ کی عاجزی و نیاز مندی کو عبادت کہتے ہیں اور اس کا ظہور صحیح معنوں میں اسی وقت ہوتا ہے جب انسان مصائب میں گھرا ہو جب ہر طرف سے امیدیں منقطع کر کے اپنے رب کریم کے در اقدس پر آکر سر نیاز جھکا دے نیز اسے یہ پختہ اعتماد ہو کہ یہاں سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔ میں کبھی خالی اور محروم نہیں لوٹا یا جاؤں گا۔ جو معجز و نیاز ، جو غایت تذلل جو خشوع و خضوع اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے اس کی مثال کہاں ملے گی ۔
(ضیاء القرآن 341/4)
بھیروی صاحب کے اس بیان سے واضح ہے کہ دعا صرف عبادت ہی نہیں بلکہ انتہائی عاجزی، انکساری اور انتہائی خشوع و خضوع پر مبنی عبادت ہے ، اور صحیح معنوں میں عبادت کا ظہور دعا کے وقت ہوتا ہے۔ غلام رسول سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: اللہ سے دعا کرنا اُس کی عبادت کرنا ہے (تبیان القرآن 395/10) تو غیر اللہ سے دعا مانگنا غیر اللہ کی عبادت ہو گی۔ الغرض دعا کا عبادت ہونا قرآن مجید کی آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر سے ثابت ہے جو فریق ثانی کو بھی تسلیم ہے۔ عبادت تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت ہو وہ یقینی طور پر شرک ٹھہرے گا۔ جو کوئی اللہ تعالی کے علاوہ دوسروں سے دعا مانگنے کا قائل ہے وہ در حقیقت اُن کی عبادت ہی کا قائل ہے اور اس کا شرک میں ملوث ہونا یقینی ہے۔ (أعاذنا الله منه)
یادر ہے کہ عبادت کے معاملہ میں نہ” ذاتی“ اور ”عطائی“ کی بحث کی کوئی گنجائش: ہے اور نہ ہی حقیقت و مجاز کی ، چونکہ کوئی بھی مسلم ایسا قطعا نہیں کہہ سکتا کہ ”ذاتی“ یا ”حقیقی“ طور پر اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے البتہ من عطائی اور مجازی طور پر اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب پیارے بندے ، جیسے انبیاء کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام بھی عبادت کے لائق ہیں، اُن کی عبادت بھی بطور مجاز برق و دام جائز ہے (نعوذ باللہ) مفتی احمد یار خان صاحب کی بات دوبارہ ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:
” غیر خدا کی عبادت مطلقاً شرک ہے زندہ کی ہو یا مردے کی۔ “
(جاء الحق ص 218)
بات واضح ہے کہ غیر اللہ کی عبادت علی الاطلاق ہر صورت میں شرک ہے، تو جب دعا عبادت ہے بلکہ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے تو یہ بھی لکھ رکھا ہے: ”دعا عبادت کا رکن اعلیٰ ہے۔
(مرآۃ المناجیح اردو شرح مشکوۃ المصابیح 3/294)
عبادت کا ادنی فرد بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں ہو سکتا تو رکن اعلی کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ لیکن ان تصریحات کے باوجود خود مفتی صاحب اپنی تالیف ”جاء الحق“ میں ”اہل قبور“ سے دعا مانگنا جائز قرار دے گئے ہیں۔ حوالے گزشتہ صفحات پر عرض کر دیے گئے ہیں۔ مزید دیکھئے وہ کیا کیا کوششیں فرماتے ہیں، لکھا ہے:
” اللہ تعالی سے دعا کرنا بھی عبادت ہے کہ اس میں اپنی بندگی اور رب تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار و اظہار ہے ، یہ ہی عبادت ہے لہذا اس پر ثواب بھی ملے گا۔ لہذا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بندے سے کچھ مانگنا گویا اس کی عبادت ہے یہ شرک ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا حاکم سے حکیم سے مالداروں سے کچھ مانگنا نہ یہ اصطلاحی دعا ہے اور نہ کفر شر ہے، بندے بندوں سے دروو دعا مانگا ہی کرتے ہیں غرضیکہ دعا شرعی اور ہے اور دعائے لغوی کچھ اور “
(مرأۃ المناجیح 294/3)
مفتی صاحب نے جو عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں محض اپنے خود ساختہ طریقہ کے دفاع میں وہ ان کے کام کی نہیں۔ چونکہ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے سے مدد طلب کرنا ، اولاد کا والدین سے یا والدین کا اولاد سے، بھائی بہنوں کا ایک دوسرے ، دوست و احباب سے، حکومت یا پولیس سے یا مریضوں کا طبیب سے ، دوا سے مدد لینا ”دعا“ قطعا نہیں، پھر ایسی کسی بھی مدد میں دعا کا تصور تک نہیں ہوتا۔
سابقہ بحث کو سمجھنے کے لئے ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کا یہ بیان ملاحظہ کیجئے:

اولیاء اللہ سے استعانت کی تحقیق:

علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں: استعانت میں عموم مراد ہے ہر چیز میں ہم صرف تجھ سے ہی استعانت کرتے ہیں کیونکہ حدیث صحیح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس سے فرمایا: «إذا استعنت فاستعن بالله» (جامع ترمذي ص 361)
جب تم مدد طلب کرو تو اللہ سے۔
اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابن عباس نے استعانت میں عموم کا قول اختیار کیا ہے، سوجس شخص نے اپنے اہم معاملات بلکہ دوسرے غیر اہم معاملات میں بھی غیر اللہ سے مدد چاہی تو اس نے ایک عبث عمل کیا ، اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں مددطلب کی جاتی حالانکہ وہ غنی کبیر ہے اور دوسروں سے کیسے مدد طلب کی جائے جب کہ سب اُس کے محتاج ہیں، اور محتاج کا محتاج سے مدد طلب کرنا نا پختہ رائے ہے اور عقل کی کج روی ، اور میں نے کتنے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے غیر اللہ سے عزت اور دولت طلب کی اور وہ ذلیل اور فقیر ہوئے سو اللہ کے سوا اور کوئی اس لائق نہیں کہ اس سے مدد طلب کی جائے۔
(روح المعانی ج 1ص91 مطبوع داراحياء الثرات العربي، بيروت، تبیان القرآن 1/185)
اس تفسیر میں محتاج کا محتاج سے مدد مانگنے کو نا پختہ رائے اور عقل کی کج روی قرار دیا گیا ہے اور صاف بیان ہوا کہ سب ہی اللہ جل شانہ کے محتاج ہیں۔ اللہ کے سوا اور کوئی اس لائق نہیں کہ اس سے مدد طلب کی جائے۔ اس سے مراد وہی مدد ہے۔ جو اسباب سے بالا تر اورانسانوں کے بس سے باہر ہو، وگر نہ اسباب کے تحت مدد کا ثبوت تو بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔ بہر حال سعیدی صاحب نے اس تفسیر کو نقل کیا اور اس سے اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔ سعیدی صاحب مزید نقل کرتے ہیں: ”علامہ مراغی لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی ایسی تعظیم کریں جیسی معبود کی تعظیم کی جاتی ہے اور اللہ کے سوا کسی سے مدد نہ طلب کریں اور کسی کام کے پورا کرنے کیلئے جو طاقت درکار ہوتی ہے وہ کسی اور سے نہ مانگیں ماسوا ان اسباب کے جن کا کسب کر نا اور جن کو حاصل کرنا ہمارے لئے عام اسباب میں مشروع اور میسر ہے۔
اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اسباب کو مسببات کے ساتھ مربوط کیا ہے، اسی طرح ارتفاع موانع پر بھی ان کو موقوف کیا ہے اور ان اسباب کے حصول کے لئے انسان کو علم و معرفت سے نوازا ہے اور موانع اور رکاوٹوں کے دور کرنے پر انسان کو قدرت عطا کی ہے اور اسی اعتبار سے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں اور تعاون کریں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
(5-المائدة: 2)
”اور تم نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو“
﴿قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا﴾
(18-الكهف: 95)
”ذوالقرنین نے کہا: میرے رب نے جس پر مجھے قدرت دی ہے وہ (تمہارے مال سے ) بہتر ہے تو تم (محنت کے کام میں ) طاقت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان نہایت مضبوط دیوار بنا دوں گا۔“
اسی اعتبار سے ہم بیماروں کی شفا کے لئے اطباء سے دوا ئیں طلب کرتے ہیں اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ہتھیاروں اور سپاہیوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور اپنی فصلوں کی فراوانی کے لئے حشرات الارض اور مصر کیڑوں مکوڑوں کو دور کرتے ہیں اور ان کو ہلاک کرتے ہیں، اور ان اسباب کے بغیر اگر ہم بیماروں کے لئے شفا اور دشمن پر غلبہ چاہتے ہوں تو اس کیلئے صرف اللہ تعالیٰ سے استعانت کی جائے گی اور زمین و آسمان کی تمام حاجات کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے دستِ سوال دراز کیا جائے گا اور نبی کی حیات طیبہ میں ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے، آپ نے مختلف غزوات میں کفار کے خلاف غلبہ اور فتح کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہیں، اسی سے فتح اور نصرت کی دعائیں کی ہیں اور اسی سے بیماری میں حصول شفا کے لئے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اور فرمایا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہوں ۔ سو جو شخص اپنی حاجات پوری کرانے کے جو لئے کسی بیمار کی شفا کے لئے ، دشمن پر غلبہ کیلئے یا اولاد کی طلب کے لئے اولیاء اللہ کے مزارات پر جا کر ان سے مدد مانگتا ہے وہ شخص سیدھے راستہ سے گمراہ ہو گیا، اس نے اللہ کی شریعت سے اعراض کیا اور اس نے زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام کیا۔
(تفسیر المراغى ج 1 ص 3334 مطبوعه دار احياء التراث العربي ، بيروت ، تبيان القرآن 185-1/186)
قارئین کرام یہ ساری عبارت بریلویہ کے سعید الملت نے نقل کی ہے۔ اس سے ان کے حکیم الامت کی پیش کردہ مثالوں کی حقیقت خوب واضح ہو جاتی ہے کہ حکیموں سے حاکموں سے اور مالداروں سے کچھ مانگنا دعا قطعا نہیں بلکہ یہ تو وہ اسباب ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے مقرر کئے ہیں اور یہ نیکی و تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ معاونت ہے جس کی دلیل قرآن مجید میں موجود ہے، غیر اللہ سے دعا کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے ایسی مثالیں دینا یقیناً باطل ہے۔ سعیدی صاحب نے ”تفسیر المرافی“ سے یہ سب کچھ نقل تو کیا مگر ان باتوں سے کچھ اختلاف بھی کیا، چنانچہ لکھا ہے:
”ہمارے نزدیک علامہ مراغی کا یہ فتویٰ علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، زمانہ جاہلیت میں کفار بتوں کو مستحق عبادت قرار دیتے تھے اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرتے تھے لیکن جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو، اور نہ اولیاء اللہ کو متصرف بالذات سمجھتا ہو، ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء اللہ اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے۔ تا ہم ہمارے نزدیک شریعت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ سے استعانت کرنی چاہیے، اولیاء اللہ بھی اللہ کے محتاج ہیں اور ہم بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، تو سلامت روی اسی میں ہے کہ ہر حاجت اللہ سے طلب کی جائے اور ہر ضرورت میں اس کے آگے دست سوال دراز کیا جائے ۔“
(تبیان القرآن 186/1)
سعیدی صاحب کی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تفسیر مراغی کے مندرجہ بالا اقتباس سے متفق ہیں، البتہ انہیں اس بات سے اختلاف ہے کہ مزارات پر جا کر اولیاء اللہ سے مانگنا، ان کے حضور گڑ گڑانا اور دعائیں کرنا زمانہ جاہلیت کا سا شرک نہیں۔ باقی ہم بھی محتاج اور اولیاء اللہ بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں تو مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہیے۔ ان کے اس اختلاف کے جواب میں عرض ہے کہ یہ توسعیدی بریلوی صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ ”دعا عبادت ہے اور عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے، صرف دعا ہی نہیں جس قدر عبادات ہیں سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں، اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے گا تو یہ شرک ہی ہوگا۔ رہا سعیدی صاحب کا یہ اشکال:
”وہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو، اور نہ اولیاء اللہ کو متصرف بالذات سمجھتا ہو، نہ ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو۔ “
(تبیان القرآن 186/1)
تو عرض ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور بریلویہ کی تفاسیر سے بھی یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین بھی اپنے ”آلھ“ کو ”متصرف بالذات“ اور تصرف میں مستقل، قطعاً نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک مانتے تھے اور آج کل کے لوگوں کی طرح یہی سمجھتے تھے ، جیسا کہ آپ نے لکھا:
”بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء اللہ اللہ کی دی ہوئی قدرت (واختیار) اور اس کے اذن سے اس کا ئنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرے۔“ (تبیان 186/1)
مشرکین بھی کچھ ایسا ہی عقیدہ رکھتے تھے ، قرآن مجید کی گواہی ملاحظہ کیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴾
(10-يونس: 31)
اب ان کے ”غزالئی دوراں“ احمد سعید کاظمی صاحب سے ان آیات کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے ، لکھا ہے:
”آپ (اُن سے ) فرمائیں تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون پیدا کرتا ہے زندہ کو مردہ سے اور پیدا کرتا ہے مُردہ کو زندہ سے اور کون تدبیر کرتا ہے تمام اُمور (کائنات) کی تو وہ بول پڑیں (کہ ) اللہ پس آپ فرمائیں کہ پھر کیا( تم اللہ سے) ڈرتے نہیں ۔“ (البیان ص 399)
قرآن مجید کی یہ آیات گواہ ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین بھی یہ مانتے تھے بلکہ اعتراف بھی کرتے تھے کہ تمام امور کائنات کی تدبیر اللہ ہی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان سے رزق دیتا ہے نیز وہی ”سمع و بصر“ ، موت وحیات کا مالک ہے، صریح اعترافات کے باوجود بھی جو پیاروں کی عبادت کرتے تھے تو اس کی وجہ بھی قرآن مجید نے واضح کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾
(10-يونس: 18)
”اور اللہ کے سوا ان چیزوں کی پوجا کرتے ہیں جو انہیں نہ نقصان پہنچاسکتی ہیں اور نہ نفع دے سکتی ہیں اور کہتے ہیں یہ (معبود ) ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس آپ فرما دیں کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اسے معلوم ہی نہیں آسمانوں اور نہ زمینوں میں وہ پاک ہے اور برتر ہے ان سب چیزوں سے جنھیں وہ (اس کے ساتھ )شریک کرتے ہیں“ (ترجمہ از کاظمی صاحب)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفٰي﴾
”اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا شریک بنارکھے ہیں (کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر صرف اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔“
(ترجمه از کاظمی صاحب، البیان ص 733 )

معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ جن واقعی یا اپنے زعم کے مطابق نیک و با کمال لوگوں کی عبادت کرتے تھے اس عبادت سے بھی ان کا مقصد مالک حقیقی اور متصرف بالذات اللہ رب العالمین کا قرب حاصل کرنا تھا، ظاہر سی بات ہے کہ وہ انہیں معبود حقیقی نہیں بلکہ معبود حقیقی کے قریب کرنے والا اور سفارشی سمجھتے تھے ۔ اور وہ بھی اپنے اولیاء کو تصرف میں مستقل سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائی قدرت و اختیار کا مالک سمجھتے تھے۔ پھر اس عقیدہ کے ساتھ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے ، چنانچہ سید نا ابن عباس خلیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كان المشركون يقولون: لبيك لا شريك لك، قال فيقول رسول الله: ويلكم قد قل، فيقولون: إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك يقولون هذا وهم يطوفون بالبيت»
”مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اس طرح کہا کرتے تھے: لبيك لا شريك لك (جب وہ اتنا کہتے ) تو رسول اللہ فرماتے: ”تمہاری بربادی ہو بس بس (اسی پر کفایت کر جاؤ) لیکن وہ کہتے: إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ یعنی اے اللہ ! تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرے لئے ہے تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اس شریک کے اختیار میں ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے، وہ لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے یہی کہتے تھے۔“
(صحیح مسلم: 1185 الرقم المسلسل: 2815)
پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے اپنی تفسیر میں ایک جگہ مشرکین کے عقائد بیان کرتے ہوئے لکھا:
”بتوں کے متعلق مشرکین کا جو عقیدہ تھا وہ متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ۔ نیز حج کے موقع پر جو تلبیہ وہ کہا کرتے تھے اس سے بھی ان کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے وہ کہا کرتے تھے: لبيك اللهم لبيك لا شريك لك إلا شريكا هو لك تملكه و ما ملك ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اس کا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اس کا بھی تو مالک ہے ۔
(ضیاء القرآن 2/462 ، یوسف: 106 کی تفسیر )
حدیث صحیح مسلم میں بھی تملكه و ما ملك ہے جو بھیروی صاحب نے بھی نقل کی ہے۔ ان کے ترجمہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے مشرک بھی اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا ملوک مانتے تھے ، مطلب اللہ کے بندے، اُس کے محتاج ، اُس کے محکوم، اس کے سامنے عاجز اور بے بس۔
وما ملك کے الفاظ سے مشرکین کا یہ عقیدہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹھہرائے شریک کے اختیارات و تصرفات کا مالک بھی اللہ ہی کو تسلیم کرتے تھے اور یہی سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی قدرت و اختیارات نہیں بلکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات ہیں، ان کے اختیارات کا مالک بھی اللہ ہی ہے، لیکن کیا ان کے اس عقیدہ و اظہار نے انہیں شرک کے حکم سے محفوظ کر لیا؟ قطعاً نہیں ، قرآن و احادیث میں انہیں مشرک ہی کہا گیا، ان کی عبادات و دعاؤں کو کفر و شرک ہی بتایا گیا ہے تو آج کوئی ان کا سا ”عطائی“ عقیدہ رکھ کر غیر اللہ کی عبادت کرے، غیر اللہ سے دعائیں مانگے تو ان کے اعمال کو شرک کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ جب کہ وہ شرک ہے۔
بہر حال سعیدی صاحب کا اعتراض بے جا ہے اور احمد مصطفی المراغی کا زیر بحث قول دلائل اور واقعہ کے مطابق ہے۔ جہاں تک تعلق ہے دلائل کا تو سابقہ سطور میں مذکور حدیث دعا عبادت ہی ہے جیسا کہ فریق ثانی کو بھی تسلیم ہے۔ تو یہ حدیث اس مسئلہ کی کافی وشافی دلیل ہے، چونکہ بہت سی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مختص ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت جائز نہیں، لہذا سعیدی صاحب کے اعتراضات محض اپنے ہم مسلکوں کے دفاع پر مبنی ہیں۔ مزید سینیے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‎﴿١٤﴾‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ‎﴿١٥﴾‏
(35-فاطر: 13تا15)
احمد سعید کاظمی ملتانی صاحب نے ترجمہ اس طرح کیا ہے:
”یہ ہے (عظمت والا ) تمہارا رب اسی کا ہے سارا ملک اور وہ (باطل معبود ) جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ (اے مشرکو ) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو وہ تمہاری التجا کو قبول نہ کر سکیں گے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے اور (اے سننے والے ) تجھے کوئی نہ بتائے گا خبر رکھنے والے کی طرح ۔ اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں والا ۔ “
(البيان ص 698)
”ان آیات میں اللہ عز وجل نے بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی بھی چیز کے مالک و مختار نہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار اور دعا نہیں سن سکتے ، اگر تمہاری دعا سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے ، قبول نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں ، اور قیامت کے دن وہ لوگ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، اس سے اپنی برات کا اظہار کر دیں گے۔ ان آیات میں اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے والوں ، اُن سے دعائیں مانگنے والوں کا کونسا شرک“ بیان ہوا جس کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے روز شرک سے وہ اپنی برات ولا تعلقی کا اظہار کر دیں گے۔ اس بیان کے آغاز میں ہی اس کی وضاحت موجود ہے: وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ ”جن لوگوں کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو ۔“ جن سے فریادیں کرتے ہو، دعا کرتے ہو، تو معلوم ہوا کہ اس مقام پر ان کا شرک دعا ہی ہے، جیسا کہ آیت کے الفاظ ہیں: لَا يَسْمَعُوا تَدْعُوْهُمْ ”یہ تمہاری دعا نہیں سن سکتے ۔“ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے ، تمہاری التجا قبول نہیں کر سکتے ، آیت میں دعا‘ کا لفظ موجود ہے جس کا ترجمہ احمد رضا خان صاحب، کاظمی صاحب، بھیروی صاحب اور خود سعیدی صاحب نے بھی پکار ہی کیا ہے۔ تو غیر اللہ سے دعا کا شرک ہونا ان آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ سعیدی صاحب کا انکار محض اپنے ہم مسلکوں کے دفاع کے لیے ہے۔
اسی دفاع کی خاطر بریلوی مترجمین نےوَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ کا ترجمہ ”پوجنا“ کیا۔ دیکھئے:
① احمد رضا خان صاحب نے لکھا: ”اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو“ (کنز الایمان)
② کاظمی ملتانی صاحب نے ترجمہ لکھا: ”جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو“ (البیان)
③ بھیروی صاحب نے ترجمہ کیا: ”اور وہ بت جن کی تم پوجا کرتے ہو اللہ کے سوا“ (ضیاء القرآن 148/4)
④ سعیدی صاحب نے ترجمہ کیا: ”اور جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو“ (تبیان القرآن 656/9)
جبکہ اگلی آیت جو اسی کے تسلسل میں ہے اس میں تَدْعُوهُمْ کے معنی ان سب نے پکارنا ہی کیا ہے، اسی طرح دُعَاءَ كُم میں بھی دعا کا ترجمہ ”پکار والتجا“ ہی کیا ہے۔ ایک ہی بیان کے تسلسل میں یہ ایک ہی مادہ کے الفاظ کا مختلف ترجمہ کیوں؟ کہ ایک جگہ ”پوجا“ دوسری جگہ پکار؟ مقصد اپنا دفاع ہے کہ خود بھی اللہ کے علاوہ اوروں کو پکارتے ہیں۔ ان کے ہم مسلک غیر اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں تو پوجا کا ترجمہ کر دیا تا کہ آیات کی زد میں نہ آئیں، اور عام لوگ سمجھیں کہ بتوں کی پوجا کی بات ہورہی ہے، اللہ کے نیک ، صالح اور مقرب بندوں کو پکارنا اُن سے دعائیں مانگنا، التجائیں اور فریادیں کرنا ان آیات کے خلاف نہیں ہے۔ کاظمی صاحب نے بریکٹ میں (باطل معبود ) بھی لکھ دیا۔ حالانکہ معبود برحق صرف اللہ ہی ہے۔ دعا کا عبادت ہونا حدیث سے، نیز ان کے اپنے بیانات سے ثابت ہے اور بھیروی صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے بریکٹ میں بت بھی لکھ دیا تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ آیت تو بتوں سے متعلق ہیں آگے بھی بتوں کی پوجا ہی کا رد ہے، پھر تفسیر میں تین مفسرین کے اقوال بھی نقل کئے ہیں۔ جن میں سے دو کے اپنے بیانات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ان آیات کو صرف بتوں سے متعلق خاص نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ تفسیر کرتے ہوئے بھیروی صاحب نے لکھا:
1: تدعون من دونه اي الاصنام (قرطبي) (ضياء القرآن 148/4)
بلاشبہ علامہ قرطبی (المتوفی: 668ھ) نے یہ لکھا ہے، لیکن ان کا مقصد ان آیات کو بتوں ہی کی مذمت کے لیے مختص کر دینا نہیں چونکہ انھی آیات کی تفسیر میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے:
«ثم يجوز أن يرجع هذا الى معبودين مما يعقل كالملائكة والجن والأنبياء والشياطين»
”پھر یہ بھی جائز ہے کہ یہ بیان ان معبودوں کی طرف بھی لوٹا یا جائے جو ذی شعور ہیں جیسے ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام اور جن و شیاطین“
(تفسیر قرطبی 293/14 مطبوع ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )
2: بھیروی صاحب نے دوسرا حوالہ تفسیر مظہری سے نقل کرتے ہوئے لکھا: أى الذين تعبدونها من الأصنام. (مظهری) (حوالہ بالا) حالانکہ ثناء اللہ پانی پتی (المتوفی 1225ھ) نے اس عبارت میں اصنام کے بعد بھی کچھ لکھا ہے، پوری عبارت ملاحظہ کریں:
«اى الذين تعبدونها من الاصنام وغيرها كائنة من دونه تعالى ما يملكون من قطمير»
”یعنی: اللہ کے علاوہ جنہیں تم پوجتے ہو بت یا ان کے علاوہ جو بھی ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ “
(تفسیر مظہری: 50/8)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرطبی و مظہری نے بھی اللہ کے علاوہ ہر ایک کو مراد لیا ہے جنھیں اللہ کے علاوہ پکارا جاتا ہے، جن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں، آیات میں صرف بت ہی مراد نہیں بلکہ اللہ کے علاوہ جو بھی ہیں وہ سب مراد ہیں۔ خود بھیروی اور سعیدی صاحب کی تفسیروں سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ بھیروی صاحب نے لکھا: علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ بت تو اس لئے جواب نہیں دیں گے کہ وہ بے جان نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں لیکن جو کم بخت فرشتوں کو یا اللہ تعالیٰ کے مقربین کو پکارتے ہیں وہ اس لئے جواب نہیں دیں گے کہ ان گمراہوں نے انہیں خدا سمجھ رکھا تھا حالانکہ وہ خدا بننے سے بالکل الگ تھے پس وہ ایسے لوگوں کی فریاد کا جواب کیوں دیں گے جو اتنی بڑی تہمت لگا رہے تھے: «و كيف يجيبون زاعم ذلك فيهم و فيه من التهمة ما فيه روح المعاني» (ضیاء القرآن 149/4)
جب معاملہ یہ ہے تو آیت: «مِن دُونِهِ» میں صرف الاصنام لکھنے کا پیر صاحب کو کیا فائدہ؟ پھر بھیروی صاحب نے علامہ آلوسی حنفی کا کلام بس اتنا ہی نقل کیا، آگے جو ان کے خلاف تھا اُسے ترک کر دیا، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ آلوسی نے صرف یہی ایک احتمال بیان نہیں کیا جو بھیروی صاحب نے نقل کیا ہے بلکہ اس کے بالکل متصل یہ بھی لکھا ہے:
«وعدم الاستجابة الفعلية يحتمل أن يكون لهذا أيضا و يحتمل أن يكون لأن نفع من دعائهم ليس من وظائفهم»
”اور عدم استجابت فعلیہ (یعنی نفع نہ پہنچانا ) احتمال ہے کہ اس بنا پر بھی ہو اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس بنا پر ہو کہ جو ان (مقربین ) سے دعائیں مانگیں انھیں نفع نقصان پہنچانا ان کے ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے“ (روح المعانی تحت آیت فاطر: 14)
علامہ آلوسی صاف فرماتے ہیں کہ مقربین کا یہ وظیفہ ہی نہیں کہ وہ اُن سے دعا مانگنے والوں اور التجائیں کرنے والوں کو نفع پہنچائیں ، خواہ کوئی انہیں خدا سمجھ کر پکارے یا اللہ کا مقرب بندہ ہر صورت میں وہ فائدہ پہنچانے والے نہیں۔ یہ بھی یادر ہے کہ آلوسی نے جس طرح بتوں کے سننے کی نفی کی اسی طرح مقربین کے سنے کی بھی نفی ہی کی ہے۔ پیر صاحب نے بتوں کی نفی ذکر کر دی اور مقربین کے عدم سماع کا ذکر نہیں کیا، وہ ہم سے سن لیجئے علامہ آلوسی نے لکھا:
«ويحتمل أن يكون مع عبدتها و عبدة الملائكة و عيسى وغيرهم من المقربين ، و عدم السماع حينئذ إما لأن المعبود ليس من شأنه ذلك كالاصنام و إما لأنه فى شغل شاغل و بعد بعيد عن عابده كعيسى عليه السلام، و روي هذا عن البلخى أو لأن الله عزوجل حفظ سمعه من أن يصل اليه مثل هذا الدعاء لغاية قبحه و ثقله على سمع من هو فى غاية العبودية لله عزوجل، فلا يرد أن الملائكة يسمعون وهم فى السماء كما ورد بعض الآثار دعاء المؤمنين ربهم سبحانه»
اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ کلام بتوں کی عبادت کرنے والوں سے بھی ہو اور ملائکہ اور عیسی علیہ السلام اور ان کے علاوہ دیگر نیک صالح لوگوں کی عبادت کرنے والوں سے بھی ہو، تو اس صورت میں اُن کی دعاؤں کا نہ سننا اس بنا پر ہے کہ یہ اُس معبود کی شان ہی نہیں جیسے بتوں کی ، یا اس بنا پر ہے کہ معبود کسی مصروفیت میں مشغول ہو یا اپنی عبادت کرنے والے سے بہت دوری پر ہو جیسے عیسی عالیہ السلام یہ تفسیر بلخی سے بھی مروی ہے۔ یا عدم سماعت اس بنا پر ہے کہ اللہ عز وجل نے ان کی سماعت کو اس قسم کی دعا کے پہنچنے سے محفوظ کر لیا چونکہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے اعلیٰ درجہ پر ہو اس کی سماعت پر یہ دعا انتہائی قبیح و گراں گزرے گی، پس یہ بات بھی وارد نہیں ہوتی کہ ملائکہ ایسی دعاؤں کو سن لیتے ہیں آسمانوں پر رہتے ہوئے ، جیسا کہ بعض آثار میں مومنین کا اپنے رب سے دعا کے بارے میں وارد ہوا ہے۔
(روح المعانی ، حوالہ بالا)
الغرض کہ پیر کرم شاہ بھیروی صاحب کی اپنی ہی تفسیر سے واضح ہو جاتا ہے کہ سورہ فاطر کی یہ آیات بت اور ان کے پجاریوں ہی کے لئے خاص نہیں بلکہ نیک صالح اور مقرب بندوں کی عبادت کرنے والے اور ان سے التجائیں اور فریادیں کرنے والوں کے بارے میں بھی ہیں۔
اب سعیدی صاحب کی تفسیر بھی ملاحظہ کر لیجئے، لکھتے ہیں:
”اور اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد ان کے وہ معبود ہوں جو ذوی العقول ہیں جیسے حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ملائکہ اور وہ قیامت کے دن مشرکین کی عبادت سے برأت کا اظہار کریں گے، قرآن مجید میں ہے:
﴿وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْۗ-بِحَقٍّ﴾
(5-المائدة: 116)
”اور اس وقت کو یاد کیجئے جب اللہ فرمائے گا: اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو عیسی کہیں گے تو پاک ہے میرے لئے یہ جائز نہ تھا کہ میں وہ بات کہتا جو حق نہیں ہے“
(تبیان القرآن 667/9)
جب دونوں بریلوی مفسرین کو یہ تسلیم ہے کہ سورہ فاطر کی یہ آیات اللہ کے نیک بندوں ، مقربین وصالحین کی بندگی کرنے والوں کے متعلق بھی ہیں تو خود ہی غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کیا فرمایا ہے:
﴿يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎ ﴿١٣﴾ ‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‎ ﴿١٤﴾
(35-فاطر: 13تا14)
”تم اللہ کے سوا جن کو (اپنی مدد کے لیے ) پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے (بھی) مالک نہیں ۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری التجا کونہیں سن سکیں گے اور اگر (بالفرض ) سن بھی لیں تو وہ تمہاری حاجت روائی نہ کر سکیں گے (بلکہ ) قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے ۔ “
کیا ان آیات سے واضح نہیں ہوتا کہ اللہ کے محبوب اور پیارے بندے بھی کسی کی دعا نہیں سن سکتے۔ اگر بالفرض سن بھی لیں تو نفع نہیں پہنچا سکتے اور قیامت کے دن لوگوں کے اس شرک کا انکار کر دیں گے، اپنی برأت کا اعلان فرمادیں گے۔
غیر اللہ سے دعا کا شرک ہونا، اس آیت سے ثابت ہے۔ اسی طرح ان آیات سے یہ بات بھی غلط ثابت ہو جاتی جس کی تعلیم دیتے ہوئے سعیدی صاحب نے لکھا: زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہماری حاجت روائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیں“ (تبیان القرآن 187/1)
زندہ اولیاء اللہ بلکہ ہر مسلم سے دعا کی درخواست میں کسی کو اختلاف نہیں ، لیکن سعیدی صاحب نے جس تسلسل میں یہ بات لکھی ہے اس سے ان کی تفسیر کے دیگر بعض مقامات سے واضح ہوتا ہے کہ موصوف فوت شدہ اولیائے کرام سے بھی دعا کی درخواست کے قائل ہیں۔ اسی طرح سرفراز خان صفدر صاحب نے لکھا: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب سابق مفتی دارالعلوم دیو بند و حال مفتی اعظم پاکستان لکھتے ہیں: اسی طرح غیر مادی اسباب کے ذریعہ کسی نبی یا ولی سے دعا کرنے کی مدد مانگنا یا ان کا وسیلہ دے کر براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا روایات حدیث اور اشارات قرآن سے اس کا بھی جواز ثابت ہے۔
(معارف القرآن ج 1 ص 42) (تسکین الصدورص 415)
اسی کتاب (ص380,381) میں سرفراز صاحب نے ایسی درخواست کو جائز نقل کیا اور تردید نہیں کی، جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ﴾ اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری التجا قبول نہیں کر سکتے۔“ لہذا د یو بندیوں اور بریلویوں کا کسی فوت شدہ بزرگ سے یہ کہنا کہ حضرت! آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اور پھر یہ سمجھنا کہ وہ سن سکتے ہیں اور اللہ سے دعا بھی کر سکتے ہیں اس آیت کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ اگر ان فوت شدہ بزرگوں نے سن لیا تو وہ دعا کر دیں گے یا کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان فوت شدہ بزرگوں نے التجا و درخواست قبول کر لی یا کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی نفی فرماتا ہے ۔ ایک طرف سرفراز اور سعیدی صاحبان کا یہ نظریہ ہے تو دوسری طرف سرفراز صاحب ہی لکھتے ہیں: ”قاضی صاحب نے دوسرا مطلب اس آیت کریمہ کا یہ بیان فرمایا ہے کہ نفی اس سماع کی ہے جس پر کوئی نتیجہ ثمرہ اور فائدہ مرتب ہو اور وہ وہی سماع ہوسکتا ہے جو نافع اور مفید ہو اور مرنے کے بعد سماع کا کیا فائدہ؟“
(تسکین الصدور ص 393)
اپنی ایک دوسری کتاب میں اسی آیت: إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى كا جواب دیتے ہوئے لکھا: الجواب: اس آیت کریمہ کی دو تفسیر میں مشہور ہیں پہلی تفسیر یہ ہے ”کہ اس میں سماع نافع کی نفی ہے“ (سماع موتی ص 279)
اور سعیدی صاحب نے لکھا:
عام طور پر مردوں کا یہی قاعدہ ہے ”کہ وہ کسی بات کوسن کر غور وفکر نہیں کرتے اور نہ کسی پیغام کو قبول کرتے ہیں“ (تبیان القرآن 670/9)
مزید لکھتے ہیں: ”بہر حال اس آیت سے مردوں کے مطلقاً سننے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ کسی بات کو سن کر اس پر غور وفکر کرنے اور کسی پیغام کو قبول کرنے کی نفی ہوتی ہے“ ۔ (حوالہ بالا)
سر دست اس پر بحث نہیں کہ آیت: إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى اور آیت: وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور سے کیا بات ثابت ہوتی ہے اور کیا نہیں؟ ؟ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب سعیدی صاحب کو بھی یہ تسلیم ہے کہ پیغام قبول کرنے کی نفی ہوتی ہے تو پھر قبر والوں سے فوت شدہ سے یہ درخواست کہ آپ دعا کر دیجئے عین وہی چیز ہے جس کی یہی نفی کرتی ہے!! غیر اللہ سے دعا مانگنے کے شرک ہونے کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے، جیسا کہ ہم سید نا نعمان بن بشیر یا ان سے مروی حدیث نقل کر آئے ہیں کہ دعا عبادت ہے۔
(سنن ابی داود: 1479 وسنده صحیح )
جب دعا عبادت ہے تو اللہ کے علاوہ ہر ایک کی عبادت شرک ہے۔ اس حدیث سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ لوگ کس طرح کے چٹکے چھوڑتے ہیں کچھ کا تذکرہ تو آپ پڑھ چکے ہیں اور مزید کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں، ان کے علامہ غلام نصیر الدین سیالوی صاحب طنے لکھا: وہابی حضرات کا یہ شبہ ہے کہ حدیث پاک کے اندر آتا ہےالدعا هو العبادة اور الدعا مخ العبادة دعا عین عبادت اور دعا عبادت کا مغز ہے۔
اس کے جواب میں ہم گزارش کرتے ہیں اگر اس حدیث پاک کا یہ مطلب لیا جائے کہ کسی کو پکارنا اس کی عبادت بن جاتا ہے تو ان آیات کریمہ کا کیا مطلب ہوگا جن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يا يها النبى ، يايها الرسول ، يايها المزمل ، يايها المدثر، يسين يايها الناسُ ، يايها الذين آمنوا، يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا
(ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص 172 مطبوع بزم شیخ الاسلام جامعہ رضویہ حسن القرآن دینہ جہلم)
جواب: آخر کون اس حدیث کا یہ مطلب لیتا ہے کہ کسی کو پکارنا اس کی عبادت بن جاتا ہے ہم تو کہتے ہیں کہ کسی سے دعا مانگنا، عزت، حشمت، اولاد مانگنا اور ان کے لیے فریادیں کرنا عبادت ہے۔ اور حدیث میں یہی بات ہے کہ ”دعا عین عبادت ہے اگر حدیث پر ایمان کامل ہے تو یہ کہنے کی گنجائش نہیں پائیں گے کہ دعا عبادت نہیں ہے“ باقی جناب نے خلط مبحث فرما کر قرآن مجید سے مختلف آیات کریمہ کے کچھ حصے نقل فرمائے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اہل کتاب کو پکارا ہے۔ ہر پکار تو شرک ہے ہی نہیں ، اگر کوئی کہتا تب بھی یہ تمام مثالیں اس کے رد میں پیش کرنا غلط ٹھہرتا ، چونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کے پکارنے کا ذکر ہے۔ احکام بندوں کے لیے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں۔ اس کے بعد سیالوی صاحب نے قرآن مجید کی مختلف آیات کہ جن میں کسی کو پکارنے
کا ذکر ہے نقل کی ہیں اور بار بار پوچھا:
”اگر ہر پکار عبادت ہے تو کیا اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں کی عبادت کا حکم دیا ۔ جب نبی پاک ملایم تمہاری عبادت کریں ۔ “
(ص 72 تا 175)
جواب: نعوذ بالله ثم نعوذ بالله، یہ تو کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہر پکا عبادت ہے بحث کا یہ انداز عجیب ہے کہ اپنے ذہن سے ایک اعتراض یا اشکال گھڑ کر مخالفین کی طرف منسوب کر کے اس کے جوابات دیے جائیں۔ بہر حال سیالوی صاحب نے جتنی بھی مثالیں دی ہیں باستثنائے واحد ہر ایک میں اپنے قریب کے لوگوں کو پکارنے کا ذکر وثبوت ہے جس کے ہم انکاری نہیں۔ ایک مثال سورہ بقرۃ: (260) سے دی ہے تو وہ سیدنا ابراہیم علیہ سلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، یہ ایک خاص معاملہ ہے اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ مردہ جانوروں اور پرندوں کو پکارا جائے۔
سیالوی صاحب نے ان مثالوں کے بعد لکھا:
ان آیات کی رو سے نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث پاک الدعا هو العبادة کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو معبود سمجھ کر پکارنا اس کی عبادت ہے“ (ص175)
جواب : سیالوی صاحب نے جتنی بھی آیات پیش کی ہیں ان میں پکارنے کا ذکر وثبوت تو ضرور ہے مگر ان سے یہ نتیجہ قطع برآمد نہیں ہوتا کہ حدیث پاک: الدعاء هو العبادة کا یہ مطلب ہے کہ کسی کو معبود سمجھ کر پکارنا عبادت ہے۔ حدیث تو واضح ہے اور اگر غیر اللہ سے دعا مانگی گئی خواہ اسے معبود سمجھے یہ نہ سمجھے تو یہ اس کی بھی عین عبادت ہے، لیکن دین اسلام میں یہ عبادت مبغوض و مذموم ہے۔ اس حدیث کا تقاضا ہے کہ دعا جیسی عبادت کو اللہ ہی کے لیے مختص رکھا جائے۔
سعیدی صاحب نے مراغی پر کچھ رد کے بعد مزید لکھا: ”ہم نے ان پڑھ عوام اور جہلاء کو اولیاء اللہ کے مزارات پر بار ہا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، جو منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے ، اسی طرح ان کو مزارات پر صاحب مزار کی نذر اور منت مانتے ہوئے دیکھا ہے حالانکہ سجدہ عبادت ہو یا سجدہ تعظیمی اللہ کے غیر کے لئے جائز نہیں ۔ “ (تبیان 186/1)
اس کے بعد سعیدی صاحب نے جو لکھا وہ اپنی شرح صحیح مسلم میں زیادہ وضاحت سے لکھا ہے تو شرح صحیح مسلم سے بھی اقتباس ملاحظہ کیجئے ، لکھتے ہیں:

مصیبت کے وقت کٹر مشرکین کا اللہ تعالیٰ کی نذر ماننا:

جولوگ اپنی حاجات میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بجائے اولیاء اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اولیاء اللہ سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں انہیں ان آیات پر غور کرنا چاہیے۔
﴿‏ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ‎ ﴿٢٢﴾ ‏ فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم﴾
(10-يونس: 22، 23)
وہی ہے جو تم کو خشک زمین اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوئے اور موافق ہوا کے ساتھ وہ کشتیاں چلیں اور وہ (اس سفر میں ) شادمان تھے کہ اچانک ان کشتیوں کو ایک تیز آندھی نے آلیا اور سمندر کی موجوں نے ان کو ہر طرف گھیر لیا اور وہ سمجھے کہ ہم طوفان میں گھر گئے ہیں، اس وقت انھوں نے اللہ کو پکارا اور آں حالیکہ وہ خالص اسی کے عبادت گزار تھے (اور کہا) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت ) سے نجات دیدی تو ہم ضرور تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہو جائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس (طوفان ) سے بچالیا تو وہ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے، اے لوگو! تمہاری بغاوت تمہاری ہی جانوں پر ضرور ہے ۔
”ان آیات سے معلوم ہوا کہ کٹر سے کر مشرک اور پکا بت پرست بھی سخت مصیبت میں اللہ کو پکارتا تھا، اللہ سے دعا کرتا تھا اور اس کی نذر مانتا تھا۔ اگر ہم مسلمان کہلا کر اپنی حاجات میں اللہ کو چھوڑ کر اولیاء اللہ کی نذرمانیں تو کس قدر افسوسناک اور لائقِ مذمت ہے۔ “
(شرح صحیح مسلم 543/40، تبیان القرآن 186/1)
سعیدی صاحب نے مزید لکھا:
امام رازی سورۃ یونس آیت: 15 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ان کافروں نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی صورتوں کے بت بنا لیے تھے اور ان کا یہ زعم تھا کہ جب وہ ان بتوں کی عبادت کریں گے تو وہ بت اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے، اور اسی زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ بہت لوگ و الیاء اللہ کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ جب وہ ان قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے۔
(تفسیر کبیر بہ ص 556 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1398ھ ) (تبيان 187/1)
سعیدی صاحب کا کہنا ہے کہ ”کٹر سے کٹر“ مشرک بھی سخت مصیبت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے ہم مسلمان کہلا کر بھی اپنی حاجات میں اللہ کو چھوڑ کر اولیاء اللہ کو پکاریں ۔ تو عرض ہے کہ ان کے ہم مسلک لوگ ہیں جو اس قسم کی آیات سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے غیر اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیائے کرام سے دعائیں مانگتے ہیں، کوئی کہتا ہے:
يا رسول الله انظر حالنا يا حبيب الله اسمع قالنا
یعنی اے اللہ کے رسول ! ہمارے حال پر نظر کیجئے۔ اے اللہ کے حبیب ! ہماری فریا دسنیئے ۔
پہلا سوال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴾
(27-النمل: 62)
1: احمد سعید کاظمی بریلوی صاحب نے اس کا ترجمہ لکھا:
”بلکہ (بتاؤ) کون قبول کرتا ہے بیقرار کی فریاد جب وہ اسے پکارتا ہے اور (کون ) تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں (پہلے لوگوں کا ) زمین پر نائب بنا تا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو“ (البیان)
2: پیر کرم شاہ الازہری صاحب نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا:
بھلا کون قبول کرتا ہے ایک بیقرار کی فریاد جب وہ اسے پکارتا ہے اور (کون ) دور کرتا ہے تکلیف کو اور (کس نے ) بنایا ہے تمہیں زمین میں (اگلوں کا ) خلیفہ؟ کیا کوئی اور خدا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ؟ تم بہت کم غور وفکر کرتے ہو (ضیاء القرآن 454/3)
پھر اس آیت کی تفسیر میں لکھا: ”ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی ذی جاہ و ذی مال ہو اس پر زندگی میں کوئی نہ کوئی افتاد ایسی پڑتی ہے جب اُس کی ذاتی قابلیتیں ، ذاتی وسائل، اس کے دوست احباب سب بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کا وہ خود اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس گرداب ہلاکت سے اسے اس کی کوئی تدبیر کوئی حیلہ بچا نہیں سکتا۔ اس وقت اس کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھتی ہے اور وہ یقین کرتا ہے کہ اب اس کی چارہ سازی کے بغیر نجات ناممکن ہے۔ کیونکہ اس قسم کے حالات سے ہرشاہ و گدا، ہرا میر وفقیر، ہر عالم و جاہل کو واسطہ پڑتا ہے۔
اس لئے ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ اس وقت تو تم بھی اعتراف کرتے ہو کہ تمہارے بت، یہ معبودانِ باطل تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہے جو طوفانوں میں ، گھری ہوئی تمہاری کشتی کو سلامتی سے کنارے لگا دے تو پھر تم کیوں نصیحت قبول نہیں کرتے اور کیوں اس کی توحید پر پختہ ایمان نہیں لاتے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلاموں کو حالت اضطرار میں جس طرح اپنے مولا کریم کے سامنے دُعا کرنے کا سبق دیا وہ تحریر ہے تا کہ سب غلامان مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثنا اس سے استفادہ کر سکیں ،
«عن ابى بكرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى دعاء المضطر: اللهم رحمتك ارجوا فلا تكلني إلى نفسي طرفه عين وأصلح لي شأني كله لا إله إلا أنت»
(قرطبی عن ابی داؤد الطیالسی)
”اے اللہ میں صرف تیری رحمت کا امیدوار ہوں۔ مجھے آنکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالہ نہ کر میرے کام درست فرمادے۔ تیرے بغیر کوئی معبود نہیں ۔ “
(ضیاء القرآن 455/3)
از ہری صاحب کی اس تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں ایک سوال ہے کہ مصیبتوں سے نجات دینے والا کون ہے، اور اس کا جواب بھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور ان کے مطابق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اللہ سے دعا کی تعلیم دی۔
3 : جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے لکھا:
” (بتاؤ ) جب بے قرار اس کو پکارتا ہے تو اس کی دعا کون قبول کرتا ہے اور کون تکلیف کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین پر پہلوں کا قائم مقام بناتا ہے! کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے! تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔ (تبیان القرآن 706/8)
”ہم نے سب ترجمے اس طبقہ کے علماء سے نقل کیے جو غیر اللہ سے دعا کے قائل و فاعل ہیں ، ان تر جموں سے بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ مندرجہ بالا آیت در حقیقت ایک سوال ہے کہ (بتاؤ ) کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے. کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟“ اس سوال کا صحیح اور درست جواب کیا ہے؟ یقیناً اس کا درست جواب ہے: لا اله الا الله دین اسلام کو ماننے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وہ امتی یہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس بات کی گواہی دینا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے اولین واہم ترین رکن ہے۔ خود ہی سوچیے لا اله الا الله کے اقرار کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اللہ کے پیارے و مقرب بندے بھی مشکل کشا، حاجت روا اور فریاد رسا ہیں سب کی مشکل کشائی کر سکتے ہیں؟ ایسا کہنے کا مطلب یہی ہوگا کہ زبان سے تو کہہ دیا: لا اله الا الله مگر اس کے مفہوم سے واقف نہ ہوسکا۔

تقلید شخصی ایک انتظامی فتویٰ ہے :

جناب تقی عثمانی صاحب کے والد مفتی محمد شفیع صاحب نے کہا: ”حضرت شیخ الہند فرمایا کرتے تھے کہ تقلید شخصی کوئی شرعی حکم نہیں ہے، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ چاروں ائمہ مجتہدین برحق ہیں۔ اور ہر ایک کے پاس اپنے موقف کے لیے وزنی دلائل موجود ہیں۔“ (ملفوظات مفتی اعظم پاکستان ص 239)
دوسرا سوال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ‎﴿٦٣﴾‏ قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ ‎﴿٦٤﴾‏
(6-الأنعام:63، 64)
1 : ” تم فرماؤ وہ کون ہے جو تمہیں نجات دیتا ہے جنگل اور دریا کی آفتوں سے جسے پکارتے ہو گڑ گڑا کر اور آہستہ کہ اگر وہ ہمیں اس سے بچاوے تو ہم ضرور احسان مانیں گے۔ تم فرماؤ اللہ تمہیں نجات دیتا ہے اس سے اور ہر بے چینی سے پھر تم شریک ٹھہراتے ہوں“
(ترجمه از: احمد رضا خان)
2 : ”فرمائے تمہیں کون نجات دیتا ہے خشکی اور دریاؤں کی تاریکیوں سے جسے تم عاجزی سے اور آہستہ سے پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس ( مصیبت ) سے بچادے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ فرمادیجئے اللہ ہی تمہیں اس سے اور ہر سختی سے نجات دیتا ہے پھر ( بھی ) تم شرک کرتے ہو “ (ترجمہ از: احمد سعید کاظمی)
3: ” آپ فرمائیے کون نجات دیتا ہے تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں جسے تم پکارتے ہو . فرمائیے اللہ ہی نجات دیتا ہے تمہیں اس سے اور ہر مصیبت سے پھر تم شریک ٹھہراتے ہو“
(ضیاء القرآن 565/1)
پیر آف بھیرہ کرم شاہ صاحب نے ان آیات کی تفسیر میں لکھا:
”انسان سے پوچھا جا رہا ہے کہ حضرت جی ! یہ تو فرماؤ جب تمہیں خشکی یا تری میں مصائب کے بادل گھیر لیتے ہیں۔ نجات کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں“۔
اُس وقت تم کس کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہو ۔ کس دامن رحمت میں پناہ تلاش کرتے ہو۔ (ضیاء القرآن 565/1)
”ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب سے بھی ان آیات کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ کیجئے لکھا ہے: آپ کہئے تمہیں خشکی اور سمندروں کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے، جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس ( مصیبت ) سے بچالے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہو جائیں گے۔ آپ کہیے کہ اللہ ہی تم کو اس ( مصیبت ) سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر ( بھی ) تم شرک کرتے ہو “( تبیان القرآن 504/3)
نیز لکھا: ” اس آیت میں خشکی کی تاریکیوں کا ذکر فرمایا ، اس سے مراد حسی تاریکی بھی ، ہے اور معنوی تاریکی بھی ۔ حسی تاریکی رات کا اندھیرا، گہرے بادلوں کا اندھیرا، بارش اور آندھیوں کا اندھیرا ہے، اور سمندروں کی حسی تاریکی رات کا اندھیرا ، بادلوں کا اندھیرا اور موجوں کے تلاطم کا اندھیرا ہے اور معنوی تاریکی، ان اندھیروں کی وجہ سے خوف شدید، نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے منزل کی ہدایت نہ پانے کا خوف اور دشمن کے اچانک ٹوٹ پڑنے کا خوف ہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ جب اس قسم کے اسباب مجتمع ہو جائیں جن سے بہت گبھراہٹ اور شدید خوف لاحق ہوتا ہے اور انسان کو نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور وہ ہر طرف سے نا امید ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس وقت وہ زبان اور دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ اس حال میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی کے فضل و کرم پر اعتماد کیا جائے اور اسی کو ماوی و ملجا اور جائے پناہ قرار دیا جائے اور جب اس حال میں وہی فریا درس اور دستگیر ہے تو ہر حال میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے۔ اسی سے مددطلب کرنی چاہیے اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔
(تبیان القرآن (522/3)
قارئین کرام! بریلوی اہل علم کے ترجمے اور تفاسیر آپ کے سامنے ہیں ان سے آپ بآسانی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام ( کی آیت : 63 ) میں ایک سوال پوچھا ہے ، ”وہ یہ کہ تمہیں خشکی و سمندروں کی تاریکیوں ( مصیبتوں ) سے کون نجات دیتا ہے؟ “اب اس امت کے وہ بہت سے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اللہ کے نیک و مقرب بندوں کو بھی فریا درس، دستگیر و مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ کو مشکل کشائی اور دستگیری کی قدرت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ ان کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب نے لکھا:
1: اولیاء کو اللہ سے یہ قدرت ملی ہے کہ چھوٹا ہوا تیر واپس کر لیں۔ (جاء الحق ص 204)
”مطلب اولیاء کو اتنی قدرت حاصل ہے کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس لوٹا دیں۔ “
2: مزید لکھا: ”شیخ صلاح الدین فرماتے ہیں مجھ کو رب نے قدرت دی ہے کہ میں آسمان کو زمین پر گرادوں اور اگر میں چاہوں تو تمام دنیا والوں کو ہلاک کر دوں اللہ کی قدرت سے لیکن ہم اصلاح کی دعا کرتے ہیں“ (جاء الحق ص 204)
3 :مزید لکھا: ”اولیاء کی حکومت جہانوں میں ہے اور یہ نہیں ہے مگر ان کی روحوں کو کیونکہ ارواح باقی ہیں “(حوالہ بالا)
4 : مزید لکھا: ” بستان المحد ثین میں شاہ عبد العزیز صاحب شیخ ابوالعباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں.“
میں اپنے مرید کی پرا گندیوں کو جمع کرنے والا ہوں جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو تو پکار اے زروق ! میں فوراً آؤنگا (جاء الحق ص 206)
ان بے سند باتوں کی کیا حیثیت ! لیکن ان باتوں کو جھوٹا ثابت کرنا بہت ہی آسان ہے، ان کو حوالہ دکھا کر کہیں : جناب ! اب آپ بولیں : ”اے زروق ! وہ ایک نہیں کروڑوں اربوں بار بھی بولے تو ”زروق “نہیں آئیں گے ۔ مگر ان کا تو یہی عقیدہ ہے۔
5 : مزید لکھا: ” نزہتہ الخاطر فی ترجمہ سیدی الشریف عبد القادر مصنف ملاعلی قاری“ (صفحہ 61) میں حضور غوث اعظم بلای لینے کا یہ قول نقل فرمایا یعنی جو کوئی رنج وغم میں مجھ سے مدد مانگے تو اس کا رنج و غم دور ہوگا اور جو سختی کے وقت میرا نام لے کر مجھے پکارے تو وہ شدت دفع ہوگی (جاء الحق ص 207)
نیز لکھتے ہیں: ”حضور غوث پاک مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ مصیبت کے وقت مجھ سے مدد مانگو اور حنفیوں کے بڑے معتبر عالم ملاعلی قاری رحمہ اللہ علیہ سے بغیرتردید نقل فرما کر فرماتے ہیں کہ اس کا تجربہ کیا گیا بالکل صحیح ہے“ (ص 208)
6 : مزید لکھا:” اس عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ سلطنت امیری ولایت غوثیت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو ملتی ہے۔ “ (ص 209)
گجراتی صاحب کی یہ عبارتیں کسی تفصیل کی محتاج نہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے لیے کیا کیا اختیار د قدرت تسلیم کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اپنی اسی کتاب میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں : ” بتوں کو رب تعالیٰ نے یہ اختیارات نہ دیئے وہ اپنی طرف سے ان کو اپنا مختار مان کر ان سے مدد طلب کرتے ہیں لہذا وہ مجرم بھی ہیں اور اللہ کے باغی بندے بھی“ (جاء الحق ص214)
مسئلہ عقیدے کا ہے حنفی اور بریلوی اصول کے مطابق چاہیے کہ یہ لوگ قطعی الثبوت و قطعی الدلالہ دلیل پیش کریں جس سے اولیاء کی یہ قدرت واختیار ثابت ہو کہ وہ ہر وقت ، ہر لمحہ، ہر جگہ سے ہر ایک کی فریاد سن سکتے ہیں، رنج و غم دور کر سکتے ہیں ،سلطنت و بادشاہت دے سکتے ہیں، صالحیت اور ولایت دے سکتے ہیں ، آسمان کو زمین پر گرا سکتے ہیں اور سب کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ اگر دلیل نہ دے سکے اور یقیناً نہیں دے سکتے تو مفتی صاحب کے مندرجہ بالا فتاوی جات کے مطابق: ”مجرم بھی اور اللہ کے باغی بندے بھی ثابت ہو جا ئیں گے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے باغی مسلم و مؤمن ہو سکتے ہیں، جبکہ بغاوت جرم سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ہر جرم بغاوت نہیں ہوتا۔ “
امداد اللہ تھانوی صاحب نے ( جنھیں دیوبندی سید الطائفہ اور مہاجر مکی وغیرہ کہتے ہیں ) اپنی کتاب میں چلہ کا طریقہ بتاتے ہوئے لکھا: ” مشائخ طریقت کی مقدس روحوں سے مدد مانگ کر خلوت میں آجائے۔
(کلیات امدادیہ میں 68 )
الغرض جن کا ایسا عقیدہ ہو کہ اگر ان کے سامنے قرآن مجید میں موجود اللہ تعالیٰ کا یہ سوال رکھا جائے کہ بتاؤ تمہیں خشکی وسمندروں کی تاریکیوں (مصیبتوں ) سے کون نجات دیتا ہے؟ تو انصاف سے بتائیے کہ ان کا جواب کیا ہوگا ؟ یہی نہ کہ اللہ عز وجل، انبیاء علیہ السلام ، سید ناعلی رضی اللہ عنہ ، بابا عبد القادر جیلانی ، با با معین الدین چشتی ، بابا علی ہجویری، بابا فرید اور بہت سے بابا اور یہ تو کہتے ہی رہتے ہیں:
”اے مولاعلی اے شیر خدا میری کشتی پار لگا دینا ۔ “
”اے معین الدین چشتی پارلگادے میری کشتی ۔ “
”بہاء الحق بیڑا دھک نورانی نور ہر بلا دور ۔ “
”تقدیر بناون والے دا ہے وچ لاہور دے ڈیرہ ۔ “
”با با شاہ جمال پتر دے رتاں لال ۔ “
اور ایسے کتنے ہی نعرے ہیں جو یہ پیش کر دیں گے لیکن اس سوال کے فورا بعد اگلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظلم سے کیا جواب دلوایا ؟ اور ان کے ذریعے سے ساری انسانیت کو کیا تعلیم دلانا چاہی، کیا سکھلا نا چاہا: قُلِ اللهُ!
کاظمی ، از ہری اور سعیدی صاحبان نے اس کا ترجمہ کیا: ” کہیے کہ اللہ ہی اور بقول سعیدی صاحب : ”وہی فریا درس اور دستگیر ہے تو ہر حال میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے؟“
تو مصیبتوں سے نجات دینے والا کون؟ اس قرآنی سوال کا قرآنی جواب : ”اللہ ہی ہے۔ اگر غیر اللہ سے مدد کے قائلین بھی یہی قرآنی جواب پیش فرما دیں تو گزشتہ سطور میں مذکورہ نعروں اور دعاؤں کی گنجائش ہی نہ رہے بلکہ یقینی طور پر ان کی نفی ہو جائے اور اگر اپنے عقیدے کے مطابق اس سوال کا جواب دیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے ساتھ ، بابا بابا بابا … تو یہ جواب الفرقان حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب کے جواب سے الگ و مختلف ہوگا اور عقیدتا تو الگ ہے ہی۔ خود سوچئے! جو جواب قرآن مجید کے جواب سے مختلف ہو وہ حق کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے ” مجدد“ اور کثیر الالقاب اعلیٰ حضرت کے چند ملفوظات بھی سنتے چلیے : عرض:” حضرت سیدی احمد زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب کسی کو کوئی تکلیف پہنچے یا زروق کہہ کر ندا کرے میں فوراً اس کی مدد کروں گا۔ “
ارشاد: مگر میں نے کبھی اس قسم کی مدد نہ طلب کی ۔ جب کبھی میں نے استعانت کی یا غوث ہی کہا یک درگیر محکم گیر، میری عمر کا تیسواں سال تھا۔ کہ حضرت محبوب الہی کی درگاہ میں حاضر ہوا معلوم ہوا یہ سب حضرت کا تصرف ہے یہ بین کرامت دیکھ کر مدد مانگنی چاہی۔ بجائے حضرت محبوب الہی کے نام مبارک کے يا غوثاه زبان سے نکلا ۔“
( ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 281 ، نوری کتب خانہ لاہور )
ایک اور موقع پر خان صاحب نے کہا:
”غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اسپر زمین کے مثل چلنے لگے۔ بعد کو ایک شخص آیا اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی۔ کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اُسنے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کی میں کس طرح آؤں فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چل اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب پیچ دریا میں شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا پکارا حضرت میں چلا فرمایا وہی کہہ۔ یا جنید یا جنید کہا دریا سے پار ہوا عرض کی حضرت یہ کیا بات تھی آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں۔ فرمایا ارے ناداں ابھی جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے “(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 97)
بتائیے ! جس مذہب میں یا اللہ کہنا ، رب کو پکارنا شیطان لعین کا وسوسہ ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ تک رسائی جو عین مطلوب ہے اسے ”ہوس“ سے تعبیر کیا جائے وہاں صرف اللہ ہی سے مدد مانگنے کا عقیدہ کہاں ہو سکتا ہے، انہوں نے تو ایک خود ساختہ طریقہ بنا رکھا ہے کہ پہلے جنید تک پھر درجہ بدرجہ اللہ تک حیرت ہے کہ ان کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سید نا علی رضی اللہ عنہ سے مدد مانگنے کیلئے کسی درمیانی واسطہ کی ضرورت نہیں ہر ایک فورا وہاں پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو حقیقی مستعان ومددگار ہے، اللہ تعالیٰ سے براہ راست مدد نہیں مانگی جاسکتی اس کے لیے درمیانی واسطے درکار ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کیسے کہا جاتا ”ناداں ابھی جنید تک تو پہنچانہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے“
المختصر (سورہ انعام آیت:63 ) کے سوال پر غور کیا جائے اور (آیت : 64 )میں تعلیم فرمود جواب کو اپنایا جائے تو یہی عقیدہ واضح ہوتا ہے کہ خشکی وتری کی ہر پریشانی میں اللہ تعالیٰ کو پکارنا چاہیے اور اللہ ہی دعا سن کر ہر تکلیف و تختی سے نجات دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔

تعزیت

❀ ممتاز عالم دین، استاذ الاساتذہ، شیخ الحدیث حافظ عبد الحمید از ہر رحمہ اللہ 14 نومبر 2015 ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے ۔ إنا لله و إنا إليه راجعون .
آپ عارضہ قلب میں مبتلا تھے جس کے باعث اپنی وفات تک ہسپتال ہی میں ایڈمٹ رہے۔
❀ نامور مؤرخ، مصنف کتب کثیرہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ 22 دسمبر 2015 ء کو لاہور میں وفات پاگئے ۔ إنا لله و إنا إليه راجعون.
ادارہ مکتبۃ الحدیث ان دونوں بزرگوں کے لیے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، ان کی سیئات سے در گزر فرما کر حسنات کو قبول کرے۔ آمین
اور ادارہ ان کے ورثاء کے غم میں برابر کا شریک ہے۔
تیسر اسوال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿٤﴾‏ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎﴿٥﴾‏وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ‎﴿٦﴾‏
(46-الأحقاف: 4تا6)
احمد سعید کاظمی صاحب نے ان آیات کا ترجمہ لکھا:
”آپ فرما ئیں ذرا بتاؤ تو تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پوجا کرتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین کا کون سا جز بنایا یا آسمان (کے بنانے) میں ان کا کچھ حصہ ہے؟ لاؤ میرے پاس اس سے پہلے کوئی کتاب یا (پہلے ) علم کا کچھ بچا ہوا (حصہ ) اگر تم سچے ہو اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک ان کی فریاد رسی نہ کر سکیں اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں اور جب (قیامت کے دن ) لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ (جھوٹے معبود ) ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے۔“
(البیان ص 804-803)
غلام رسول سعیدی صاحب نے کچھ اس طرح ترجمہ کیا: آپ کہیے تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو کیا تم نے دیکھا انہوں نے کیا پیدا کیا ہے۔ ذرا مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کا کون سا حصہ پیدا کیا ہے یا آسمانوں کے بنانے میں ان کا کوئی حصہ ہے، میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا (پہلے ) علم کا کچھ بقیہ حصہ اگر تم سچے ہو۔ اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو ان کو پکارے جو قیامت تک ان کی فریاد نہ سن سکیں اور وہ ان (کافروں ) کی پکار سے بے خبر ہیں۔ اور جب لوگوں کو (میدانِ حشر ) میں جمع کیا جائے گا تو (ان کے خود ساختہ معبود ) ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے ۔“
(تبیان القرآن 38/11)
پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے ترجمہ اس طرح کیا:
”فرمائیے (اے کفار ) کبھی تم نے غور سے دیکھا ہے جنھیں تم اللہ کے سوا (خدا سمجھ کر ) پکارتے ہو (بھلا ) مجھے بھی دکھاؤ جو پیدا کیا ہے انہوں نے زمین سے یا ان کا آسمانوں کی تخلیق میں کچھ حصہ ہے لاؤ میرے پاس کوئی کتاب جو اس سے پہلے اتری ہو یا کوئی (دوسرا) علمی ثبوت اگر تم سچے ہو۔ اور کون زیادہ گمراہ ہے اس (بد بخت ) سے جو پکارتا ہے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود کو جو قیامت تک اس کی فریاد قبول نہیں کر سکتا اور وہ ان کے پکارنے سے ہی غافل ہیں اور جب جمع کیے جائیں گے لوگ (روز محشر ) تو وہ معبود ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا صاف انکار کر دیں گے ۔“ (ضیاء القرآن 472/4)
کاظمی صاحب نے تَدْعُونَ کا ترجمہ ”پوجا“ اور سعیدی صاحب نے عبادت کر دیا، جبکہ کئی مقامات پر اس کا ترجمہ ”تم پکارتے ہو“ کیا ہے، جیسا کہ سورہ انعام کی آیت (63) میں کیا ہے، حالانکہ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ تَدعونَ سے مراد یہاں بھی دعا اور پکارنا ہے، چونکہ اسی بیان کے تسلسل میں آگے بھی دعا ہی کا ذکر ہے۔ اس میں تینوں مترجمین نے ”یدعو“ اور ”دعائھم“ کا ترجمہ پکارنا ہی کیا ہے۔
پیر آف بھیرہ نے ترجمہ تو پکارنا ہی کیا لیکن بریکٹ میں ”خدا سمجھ کر“ پکارتے ہولکھ دیا، جبکہ قرآن وسنت اور خود ان لوگوں کی تصریحات سے ثابت ہے کہ مشرکین مکہ اپنے ان معبودوں کو اللہ کی مخلوق سمجھتے تھے، جیسا کہ کاظمی صاحب کو بھی اعتراف ہے:
مشرکین بتوں کی پوجا کرتے تھے ان سے پوچھا گیا کہ تم جو بتوں کی پوجا کرتے ہو ان کو کس نے پیدا کیا؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”کہیں گے اللہ نے پیدا کیا ہے۔“
(توحید اور شرک ص 8 مطبوع جماعت اشاعت اہلسنت کراچی )
پھر یہ کہ جب دعا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت شرک ہے تو یہ عبادت خواہ خدا سمجھ کر کی جائے یا خدا کا نیک بندہ سمجھ کر تو وہ شرک ہی ہوگا، لہذا یہ اضافہ بھی غیر ضروری ہے۔ اس ضروری وضاحت کے بعد دیکھیے اس آیت میں بھی ایک سوال ہے وہ یہ کہ جنھیں تم اللہ کے علاوہ (مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہو ) بھلا بتلاؤ تو زمین و آسمان کا کون سا حصہ ہے جو انہوں نے پیدا کیا؟“
آج جو لوگ اللہ کے نیک بندوں سے دعائیں مانگتے ہیں اور ان سے دعا مانگنا جائز سمجھتے ہیں ، وہ سوچیں اور جواب دیں کہ ان نیک بندوں میں کون ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہو کہ زمین و آسمان میں سے یہ فلاں فلاں حصے کے خالق ہے۔ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں آج ہم بھی یہی سوال پوچھتے ہیں کہ بتاؤ! زمین و آسمان کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے؟ اوروں کا ذکر تو رہنے دیجئے افضل الخلق امام الانبیاء محمد مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی کوئی مومن یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے زمین یا آسمان کا کوئی پیدا کیا اور آپ بعض چیزوں کے خالق ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے اعلیٰ و اولی مقام و مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اللہ کے بعد سب سے زیادہ محبت بھی آپ ہی سے واجب ہے، لیکن کسی ایک چیز کے بھی خالق نہیں، مخلوق ہیں اور مخلوق میں سب سے اعلیٰ و افضل ۔ جب آپ خالق نہیں تو دوسرے مقرب بندے خالق کیسے ہو سکتے ہیں؟ جب وہ خالق نہیں اور یہی اُن سے دعائیں مانگنے والے کا عقیدہ بھی ہے تو پھر اُن سے دعائیں مانگنا اور دعا مانگنے کو جائز سمجھنے کے لیے درست ہوسکتا ہے؟
پیر کرم شاہ صاحب بھیروی نے ان آیات کی تفسیر میں لکھا:
اگر تمہارے بتوں نے زمین و آسمان کی تخلیق میں کچھ حصہ لیا ہے تو اسے دلیل سے ثابت کرو ان میں سے کسی میں یہ لکھا ہوا دکھا دو کہ تمہارے فلاں بت یا فلاں معبود نے زمین و آسمان کی فلاں چیز بنائی ہے اگر تم اس قسم کا کوئی حوالہ کسی آسمانی کتاب سے نہیں دکھا سکتے تو چلو کوئی عقلی ثبوت ہی پیش کردو . یعنی وہ علم جو صرف تمہیں حاصل ہوا تم سے پہلے جولوگ گزرے ہیں ان کی رسائی اس تک نہیں ہوئی ۔ اگر تمہارے پاس نہ کوئی نفلی دلیل ہے اور نہ عقلی دلیل تو پھر بلا وجہ جان بوجھ کر ایسی غلطی نہ کرو جس سے تو بہ ورجوع نہ کیا گیا تو اس کی سزا ابدی جہنم ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ‎﴿٢١﴾
(16-النحل: 20، 21)
”اللہ کے سوا جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں اور وہ خود مخلوق ہیں۔ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ یہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔“
ان آیات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دعا مخلوق سے نہیں اُن کے خالق سے مانگنی چاہیے۔ مخلوق تو فوت ہو چکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی بالآخر فوت ہو جائیں گے۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کب قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ ان آیات کے برخلاف موقف کے حامل بعض لوگوں نے اپنے دفاع کی جو نا کام کوشش کی ہے۔ اس کا جواب ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت میں عرض کیا جائے گا۔
چوتھا سوال: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿٤٠﴾‏ بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ‎﴿٤١﴾‏
(6-الأنعام: 40، 41)
پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے ان آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے: ”اگر آئے تم پر اللہ کا عذاب یا آجائے تم پر قیامت کیا اُس وقت اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو بلکہ اسی کو پکارو گے تو دور کر دے گا وہ تکلیف پکارا تھا تم نے جس کے لیے اگر وہ چاہے گا اور تم بھلا دو گے انھیں جنھیں تم نے شریک بنارکھا تھا۔“ (ضیاء القرآن 553/1-552)
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے ان آیات کا ترجمہ یوں لکھا ہے:
آپ کہیے یہ بتاؤ اگر تمہارے پاس اللہ کا عذاب آئے یا تم پر قیامت آجائے ۔ کیا (اس وقت ) اللہ کے سوا کسی اور کو (مدد کے لیے ) پکارو گے؟ (بتاؤ ! ) اگر تم سچے ہو؟ بلکہ تم اسی کو پکارو گے، پس اگر وہ چاہے گا تو وہ اس تنگی کو کھول دے گا جس کے لیے تم اس کو پکارو گے اور تم انہیں بھول جاؤ گے جن کو (اللہ کا) شریک بناتے تھے ۔“ (تبیان القرآن 450/3)
ان آیات کی تفسیر میں سعیدی صاحب نے لکھا:

مصیبتوں میں صرف اللہ کو پکارنا انسان کا فطری تقاضا ہے:

پہلے اللہ تعالیٰ نے کفار کی جاہلیت کو واضح کیا اور یہ بتایا کہ تمام کائنات میں اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے اور اسی کا ئنات میں وہی حقیقی متصرف ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمادیا کہ جب ان کافروں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ میں آتے ہیں اور اس کی اطاعت کرنے سے سرکشی نہیں کرتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی فطرت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں ہے اور مصیبتوں اور تکلیفوں میں وہی واحد نجات دینے والا اور کارساز ہے۔
اے رسول مکرم ! آپ ان مشرکین سے کہیے کہ جس طرح سابقہ امتوں پر عذاب آئے تھے ، ان کو زمین میں دھنسا دیا جاتا تھا، یا ان پر سخت آندھیاں آتی یا بجلی کی کڑک آلیتی یا طوفان آتا، اگر تم پر ایسا ہی عذاب آجائے یا تم پر قیامت آجائے تو کیا تم اس وقت اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے جو تم سے ان مصائب کو دور کرے گا یا تم اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کو پکارو گے جو تم کو ان تکلیفوں سے نجات دیں گے۔ بتاؤ اگر تم ان بتوں کی عبادت میں سچے ہو؟ (تبیان القرآن 465/3)
گو اس مقام پر بھی سعیدی صاحب مسلک بریلویہ کا دفاع کرنا نہ بھولے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کر لیا کہ مصیبتوں میں صرف اللہ کو پکارنا انسان کا فطری تقاضا ہے اور یہ بھی کہ فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں اور مصیبتوں تکلیفوں میں وہی اللہ واحد نجات دینے والا اور کارساز ہے۔ اب جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اوروں کو سب کا مشکل کشا، حاجت روا، فریا درس ، نجات دینے والا اور کارساز سمجھتے ہیں وہ اپنے ہی اس بیان کے مطابق فطرت سے ہٹے ہوئے ہیں۔
المختصر کہ ان آیات کے بریلوی ترجموں سے بھی ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں سمجھانے کے لیے ایک سوال کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ یہ سوال کیجیے کہ بتاؤ اگر تمہارے پاس اللہ کا عذاب آئے یا تم پر قیامت آجائے تو کیا (اس وقت) تم اللہ کے سوا کسی اور کو (اس مصیبت سے نجات پانے کے لیے ) پکارو گے، دعا کرو گے؟
یہی سوال اگر آج بہت سے مشکل کشاؤں ، حاجت رواؤں کا عقیدہ رکھنے والوں سے پوچھا جائے اور اللہ کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہمیں پوچھنا بھی چاہیے ہم پوچھتے بھی ہیں ، تو سوچیے ان کا جواب کیا ہوگا؟
اگر کہیں کہ ہاں ہم تو سید نا علی رضی اللہ عنہ کو شیخ جیلانی و علی ہجویری و غیر ہم کو بھی مشکل کشا، حاجت روا فریا درس اور کارساز سمجھتے ہیں ، مانتے ہیں تو ہم مصیبتوں، پریشانیوں اور تکلیفوں سے نجات پانے کے لیے ان کو بھی پکاریں گے۔ اگر یہ جواب دیں تو سعیدی صاحب نے لکھا: ”اللہ تعالیٰ از خود اس سوال کا جواب دیتا ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بلکہ تم اسی کو پکارو گے۔“ (بنیان 465/3)
واقعتا اللہ تعالیٰ کا تعلیم فرموده و بیان کردہ جواب یہی ہے کہ بَلْ ايَّاهُ تَدْعُونَ بلکہ تم صرف اسی (اللہ ) کو پکارو گے ۔ تو غیر اللہ سے دعائیں مانگنے والوں کا یہ جواب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے سکھلائے ہوئے جواب سے مختلف ہوگا کہ اس میں صرف اللہ سے دعا کا ذکر ہے، جبکہ مذکورہ بالا جواب میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور لوگوں کے بھی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا نظریہ ہے۔ قرآن مجید کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ جواب اور عقیدہ یقیناً باطل ہے اور اگر وہ اپنے عقیدے و نظر یے اور معمول کے برخلاف یہ جواب دیں کہ ہم تو مصیبتوں اور تکلیفوں سے نجات کے لیے صرف اللہ ہی کو پکاریں گے اسی سے دعا ئیں مانگیں گے تو ان کا عقیدہ ونظریہ اور عمل باطل ثابت ہو جائے گا۔
قارئین کرام! یہ قرآن مجید کی چند آیات تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے کچھ سوالات قائم فرمائے ہیں اور بعض مقامات پر ان کے جوابات بھی بیان فرمادیے ہیں۔ اگر ان سوالات و جوابات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اللہ کے علاوہ کسی سے دعا مانگنے کے جواز و فعل کی گنجائش و تصور تک پیدا نہ ہو۔ اس قسم کی جتنی آیات پیش کی جاتی ہیں ان میں مِن دُونِ اللهِ یعنی اللہ کے سوایا اللہ کے علاوہ کے الفاظ آتے ہیں تو بہت سے لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ مِن دُونِ الله کے مصداق اور اس سے مراد ”بت“ ہیں۔ ان شاء اللہ ہم آئندہ مِن دُونِ الله کے مصداق کون کے عنوان سے ایک مضمون میں اس کی وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین

شذرات الذهب

❀ امام ابوالمظفر سمعانی رحمہ اللہ (متوفی 489ھ) نے فرمایا:
«إن الحق واحد وما عداه باطل»
”بلا شبہ حق ایک ہی ہے اور جو اس کے علاوہ ہے وہ باطل ہے۔ “
(قواطع الأدلة في الأصول: 1/2)
❀ امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:
«من إزالة العلم أن تجيب كل من يسألك»
”علم کے ضیاع میں سے (یہ بھی) ہے کہ آپ ہر سائل کو جواب دیتے جائیں۔“
(العلل و معرفة الرجال للإمام احمد: 534 و سنده حسن)
❀ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لا يكون إماما فى العلم من أخذ بالشاذ من العلم ولا يكون إماما فى العلم من روى عن كل أحد ولا يكون إماما فى العلم من روى كل ما سمع»
”وہ شخص علم میں امام نہیں ہوسکتا؟ جو علم میں سے شاذ اقوال لیتا ہے، نہ وہ امام ہو سکتا ہے جو ہر کس و ناکس سے بیان کرتا ہے اور نہ وہی امام ہوسکتا ہے جو ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے۔ “
(التاريخ الكبير لا بن أبي خثيمة: 1/ 227 و سنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے