دریائے نیل اور دم پر اجرت سے متعلق 8 تحقیقی نکات
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 33

دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے پرزے کا واقعہ

تفصیلی تحقیقی جواب بمعہ حوالہ جات

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دریائے نیل میں پرزہ ڈالنے کا واقعہ: تحقیق و سند

  • دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے پرزے یا بطاقہ ڈالنے کا واقعہ درج ذیل کتب میں موجود ہے:
    • الخطط المقریزی (جلد 1، صفحہ 58)
    • النجوم الزاهرة (جلد 1، صفحہ 35)
    • تاریخ الخلفاء (صفحہ 49) – یہ حوالہ کتاب العظمۃ لأبی الشیخ سے دیا گیا ہے۔
  • سند کی حیثیت:
    ان روایات کی اسناد میں مجہول اور ضعیف راوی شامل ہیں، اسی وجہ سے یہ روایت قطعی طور پر ناقابلِ اعتبار ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ "یا ساریۃ الجبل”

  • یہ واقعہ درج ذیل کتب میں مذکور ہے:
    • تہذیب الأسماء واللغات للنّووی (جلد 2، صفحہ 10)
    • أسد الغایۃ (جلد 4، صفحہ 25)
    • تاریخ الخلفاء (صفحہ 49)
      بیہقی، ابو نعیم فی دلائل النبوۃ، اللّالکائی فی شرح السنۃ، الدیرعاقولی فی فوائدہ، ابن الأعرابی کی کرامات الأولیاء، خطیب فی رواة مالک، ابن مردویہ
  • سند کی حیثیت:
    حافظ ابن حجر نے الإصابة میں اس واقعہ کو مختصراً بیان کرنے کے بعد فرمایا: "إسنادہ حسن”۔
    لہٰذا اس واقعہ کو ناقابلِ اعتبار کہنا درست نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بسم اللہ والا پرزہ کسی کو دینے کا حکم؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کسی شخص کو پرزہ پر "بسم اللہ الرحمن الرحیم” لکھ کر ٹوپی میں لگانے کا حکم یا مشورہ دینے کا کوئی واقعہ نظر سے نہیں گزرا۔
والله أعلم بحال سندہ

محمد بن اسحق، عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ، اور خارجہ بن صلت پر جرح

مصنفِ رسالہ نے ان افراد پر جو جرح اور فیصلے کیے ہیں، انہیں دیکھ کر بار بار افسوس ہوتا ہے۔
پہلے ان پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے، وہی کافی ہے۔
مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔

آیتِ قرآنی: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا …﴾ (البقرة: 275)

  • اس آیت سے جنوں کے سوار ہونے یا اذیت دینے کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
  • صرف ان لوگوں کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں جو اس کے قائل ہیں۔
  • ساتھ ہی معتزلہ و نیچریہ وغیرہ کی توجیہات بھی بیان کر دی گئی ہیں۔
  • مصنف رسالہ غالباً انہی توجیہات کے قائل ہوں گے۔
  • مفسرین کی تمام آراء سامنے موجود تھیں، اور جسے جس تاویل پر اطمینان ہو، اسے اختیار کرنے کا حق ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی احادیث

  • دونوں احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں:
    • ایک شخص جو سلیم اور لدیغ تھا
    • ایک ہی جماعتِ صحابہ
    • ایک ہی دم کرنے والے صحابی
  • فرق:
    • حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں جملہ "إن أحق ما أخذتم عليه أجراً كتاب الله” موجود نہیں۔
    • حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ جملہ شامل ہے۔
  • اس جملہ کے عدم ذکر سے واقعہ کی صحت یا معنویت پر اثر نہیں پڑتا۔
  • خارجہ بن صلت عن عمہ کی حدیث ایک الگ واقعہ ہے:
    • اس میں صاف الفاظ میں یہ موجود ہے کہ جس پر دم کیا گیا تھا وہ مجنون اور مخبول العقل تھا۔

تعلیم قرآن پر اجرت لینا اور رقیہ پر معاوضہ

تعلیم قرآن پر اجرت:

  • جملہ "إن أحق ما أخذتم عليه أجراً كتاب الله” کے عموم سے اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
  • اس کی ناسخ یا ہم درجہ کوئی حدیث موجود نہیں۔
  • دیگر روایات جو اس کے خلاف معلوم ہوتی ہیں، وہ کمزور درجہ کی ہیں۔
  • موقف:
    • قرآن کی تعلیم یا تراویح میں قرآن سنانے پر شرط لگا کر یا بغیر شرط کے اجرت لینا سخت ناپسندیدہ ہے۔
    • اگر معلم قرآن کی ذمہ داری میں دیگر علوم کی تعلیم بھی شامل ہو تو کراہت کم یا ختم ہو سکتی ہے۔

رقیہ پر اجرت:

  • رقیہ پر اجرت نہ لینے کے حق میں کوئی صریح روایت موجود نہیں۔
  • بلکہ اجرت کے جواز میں تین صریح، صحیح اور معتبر احادیث موجود ہیں۔
  • موقف:
    • اگر کوئی بوقت ضرورت یا بلا ضرورت اتفاقی طور پر جائز رقیہ کے لیے اجرت لے تو یہ جائز ہے۔
    • البتہ اس کو پیشہ یا کاروبار بنانا مناسب نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1