داڑھی، رخسار اور عنفقہ سے متعلق 14 شرعی ہدایات
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 427

سوال

نچلے ہونٹ کے نیچے اگنے والے بالوں کو کاٹنا جائز نہیں، تو کیا داڑھی کے کناروں، مونچھوں کے کناروں اور چہرے کے دیگر بالوں کو کاٹنا یا نوچنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نچلے ہونٹ کے نیچے کے بال (عنفقہ)

عنفقہ ان بالوں کو کہا جاتا ہے جو نچلے ہونٹ کے نیچے اگتے ہیں۔

یہ داڑھی کا حصہ ہیں، لہٰذا ان کو لینا جائز نہیں۔

ان کے آس پاس اور رخسار (گال) کے ان بالوں کو بھی لینا جائز نہیں جو کان کی سیدھ میں ہوں۔

رخسار کی ابھری ہوئی ہڈی اور اس کے ارد گرد کے بال بھی داڑھی میں شامل ہیں، اور ان کو اکھیڑنا یا کاٹنا ناجائز ہے۔

لغت کے علما نے داڑھی کی تعریف میں ان بالوں کو شامل کیا ہے، اور نبی ﷺ نے داڑھی کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

نبی ﷺ کا حکم

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"داڑھی کو چھوڑ دو (بڑھاؤ)”
اس کے خلاف عمل کرنا نبی ﷺ کے حکم کی مخالفت ہے۔

فقہاء و محدثین کے اقوال

نیل الاوطار کے حاشیہ (1؍143)
امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ چہرے کے بال صاف کرنا کیسا ہے؟ تو فرمایا:
"عورتوں کے لیے کوئی حرج نہیں، مگر مردوں کے لیے مکروہ ہے۔”

المجموع (1؍29)
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
داڑھی کو کم یا زیادہ کرنا مکروہ ہے۔
سر کے بال منڈوانے کے ساتھ داڑھی کے کچھ بال بھی منڈوانا مکروہ ہے۔
داڑھی بچہ کے اطراف کے بال نوچنا بھی مکروہ ہے۔
ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے۔

➌ امام احمدؒ کا قول:
حلق (گلے) کے نیچے والے بال منڈنے اور مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔

داڑھی میں مکروہ خصلتیں

(احیاء العلوم 1؍245، المجموع 1؍291، شرح مسلم 1؍129، نیل الاوطار 1؍143)
◈ کالا خضاب لگانا۔
◈ داڑھی کو گندھک وغیرہ سے جلدی سفید کرنا تاکہ بڑاپن ظاہر ہو اور ریاکاری ممکن ہو۔
◈ نئی داڑھی اکھیڑنا یا کم کرنا تاکہ خود کو جوان یا خوبصورت ظاہر کیا جا سکے – یہ سب سے قبیح خصلت ہے۔
◈ سفید بال اکھیڑنا۔
◈ زینت کے لیے حد سے زیادہ سیٹینگ کرنا تاکہ عورتوں کو پسند آئے۔
◈ کمی بیشی کرنا۔
◈ داڑھی کو پراگندہ چھوڑنا تاکہ زاہد یا بے پرواہ ظاہر ہو۔
◈ تصنع کے ساتھ داڑھی کو لٹکانا۔
◈ خودپسندی کے ساتھ داڑھی کو دیکھتے رہنا – جوانی پر فخر یا بڑھاپے پر غرور کے ساتھ۔
◈ داڑھی کو گرہ دینا

حدیث

(ابو داود) میں رویفع بن ثابتؓ کہتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص داڑھی کو گرہ دے، وتر کا ہار پہنے یا جانور کی لید یا ہڈی سے استنجا کرے، تو محمد ﷺ اس سے بیزار ہے۔”

داڑھی منڈوانا

البتہ اگر عورت کی داڑھی نکل آئے تو وہ اسے صاف کر سکتی ہے۔

زرد رنگ دینا صرف ظاہری مشابہت کے لیے، سنت کی نیت سے نہیں۔

ہر وقت کنگھی کرنا

حدیث:
"نُهينا عن كثيرٍ من الرفاهية”
(نسائی 8؍185، رقم: 5239)
ہمیں بہت زیادہ نرمی و آرام پسندی سے منع کیا گیا ہے۔

ہر وضو کے بعد کنگھی کرنا جیسا کہ بعض صوفی کرتے تھے۔

داڑھی کی شرعی و لغوی حدود

شاہ ولی اللہ دہلویؒ
(مسائل اللِحْیَہ، ص: 29) کے مطابق:
◈ طول میں: داڑھی کی حد، نچلے ہونٹ (داڑھی بچہ) سے ٹھوڑی کے نیچے تک ہے۔
◈ عرض میں: رخسار اور کنپٹی کے بال، جو نچلے جبڑے کے نیچے تک پھیلے ہوں، وہ بھی داڑھی میں شامل ہیں۔

لغوی دلائل

لسان العرب
ابن سیدہ: داڑھی، رخساروں اور ٹھوڑی پر اگنے والے بالوں کو کہا جاتا ہے۔

تاج العروس اور القاموس
داڑھی ان بالوں کو کہتے ہیں جو چہرے کے دونوں طرف اور ٹھوڑی پر اگیں۔

نتیجہ

داڑھی کی حدود لغت اور شریعت دونوں میں ایک جیسی ہیں۔

قرآن و حدیث نے
"وَفِّرُوا اللِّحَى”
(داڑھی کو بڑھاؤ) کا حکم دے کر اس کی قدرتی حالت میں باقی رکھنے کی تلقین کی ہے۔

اس کی ساخت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی حرام ہے۔

غلط آراء کی تردید

جو لوگ رخساروں کے بال لینے کو جائز کہتے ہیں، ان کا قول باطل ہے۔

جیسا کہ
"تاتارخانیہ” میں موجود ہے۔

جو لوگ داڑھی کے بال کاٹنے کو جائز سمجھتے ہیں، ان کی بھی رائے باطل ہے۔

حوالہ: "ادلة تحریم حلق اللحیہ” ص: 83

سبالین (مونچھوں کے دونوں کنارے)

ان کو چھوڑنے میں حرج نہیں، جیسا کہ سیدنا عمرؓ کا عمل تھا۔

ان کو کاٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

امام بیہقیؒ نے ابن عمرؓ سے اس کی روایت کی ہے،
حوالہ: ادلة تحریم اللحیہ ص: 73

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1