الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على النبى الكريم وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿٣٦﴾رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ
(24-النور:36، 37)
ان گھروں (مساجد) میں جن کے ادب و احترام کا اور اللہ تعالیٰ کا نام وہاں لئے جانے کا حکم ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ
(2-البقرة:114)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کئے جانے سے روکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحب البلاد إلى الله تعالى مساجدها وأبغض البلاد إلى الله أسواقها
”اللہ تعالیٰ کو شہروں کے سب سے محبوب مقام مساجد ہیں اور سب سے مبغوض مقام بازار ہیں۔“
(صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الجلوس في الصلاة، حدیث: 671)
اللہ تعالیٰ کو مساجد اس لئے محبوب ہیں کہ وہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے، ذکر کیا جاتا ہے۔ یعنی مساجد بنانے کی غرض و غایت ہی ان میں اللہ کا ذکر کرنا اور نماز قائم کرنا ہوتا ہے۔ مسجد میں آنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضیافت اور مہمانی جنت میں تیار کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ظالم قرار دیا جو کسی کو مسجد میں آنے سے روکے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے عورتوں کو بھی مسجد میں جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں بازار میں کاروبار کرتے ہوئے جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، مرد و زن کا اختلاط اور بعض اوقات ایسی بے ہودہ باتیں نظر آتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار کو مبغوض مقام قرار دیا۔
خواتین کے مساجد میں آنے کے دو اغراض ہوتے ہیں:
1. نماز باجماعت میں شریک ہونا۔
2. مسجد میں آ کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل اور حمد و ثنا بیان کرنا۔