رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے رمضان میں صرف تین راتیں باجماعت نماز تراویح پڑھائی اور پھر اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز باجماعت ادا کرنے سے فرض نہ ہو جائے اور ترک کرنے پر امت گناہگار ہوگی، آپ نے اسے جماعت سے پڑھنا ترک کر دیا اور لوگوں کو گھروں میں پڑھ لینے کا حکم دیا۔ چنانچہ لوگ گھروں میں نماز تراویح پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی طریقہ جاری رہا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی اسی پر عمل رہا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے کا طریقہ مقرر فرمایا۔
(ابوداود: 1371)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
صلى ذات ليلة فى المسجد فصلى بصلاته ناس ثم صلى من القابلة فكثر الناس ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما أصبح قال قد رأيت الذى صنعتم ولم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم وذلك فى رمضان
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی، دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہو گیا تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ نے فرمایا: تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان کا ہے۔“
(صحیح البخاری، کتاب التهجد، باب تحريص النبي صلى الله عليه وسلم على قيام الليل، حدیث: 1129)
رمضان میں جس نماز تراویح کا ذکر ہوا ہے اس میں خواتین بھی شرکت کیا کرتی تھیں۔ ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يصل بنا حتى بقي سبع من الشهر فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل ثم لم يقم بنا فى السادسة وقام بنا فى الخامسة حتى ذهب شطر الليل فقلنا له يا رسول الله لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه فقال إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة ثم لم يصل بنا حتى بقي ثلاث من الشهر وصلى بنا فى الثالثة ودعا أهله ونساءه فقام بنا حتى تخوفنا الفلاح قلت له وما الفلاح قال السحور
”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ رکھا، سو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی یہاں تک کہ مہینے میں سات راتیں باقی رہ گئیں یعنی چھبیسویں شب تو آپ ہم کو لے کر کھڑے ہوئے یعنی نماز تراویح کے لئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ پھر قیام نہ کیا جب چھ راتیں باقی رہیں یعنی چوبیسویں شب کو۔ پھر کھڑے ہوئے ہم کو لے کر نماز میں پچیسویں شب کو یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی اور ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آرزو ہے کہ آپ ہمارے ساتھ اور نفل پڑھتے باقی رات میں۔ آپ نے فرمایا: جو نماز پڑھے امام کے ساتھ یہاں تک کہ امام فارغ ہو تو لکھا جاتا ہے اس کے لئے ساری رات نماز پڑھنے کا ثواب۔ پھر نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ باقی رہیں تین راتیں مہینے سے۔ پھر ہمارے ساتھ نماز پڑھی ستائیسویں کو اور بلایا اپنے گھر والوں اور عورتوں کو اور ہمیں لے کر نماز میں کھڑے رہے یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا فلاح فوت ہونے کا۔ راوی نے پوچھا میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے: فلاح کیا ہے؟ انہوں نے کہا: سحر کا کھانا یعنی خوف ہوا کہ سحر کا وقت نہ جاتا رہے۔“
(جامع ترمذی: 806)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں جو تین رات نماز پڑھائی تھی، وہ گیارہ رکعات ہی تھیں، جن میں تین وتر بھی شامل تھے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں:
صلى بنا رسول الله فى رمضان ثمان ركعات ثم أوتر
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات (تراویح) پڑھائیں پھر وتر پڑھے۔“
(ابن خزیمہ، 2: 138)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله ثم اعتكف أزواجه من بعده
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔“
(صحیح بخاری، کتاب فضل ليلة القدر، باب الاعتكاف في العشر الأواخر، حدیث: 2026)
امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں سلیمان بن ابی حمہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ رمضان المبارک میں مسجد کے ایک کونے میں عورتوں کو تراویح کی نماز پڑھائیں۔
(المحلی: 3/193 بحوالہ فقہ عمر، ص: 275، عنوان حجاب)
یوں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ عورتوں کو مساجد میں نماز کے لئے آنا چاہئے اور اس مسئلہ پر سلف صالحین کا عمل بھی رہا ہے۔ خصوصاً رمضان المبارک میں نماز تراویح کے لئے تا کہ خواتین عبادت اور دینی مسائل سے آگاہی حاصل کرنے میں مشغول رہیں اور دنیاوی خرافات سے محفوظ رہیں۔ تاہم وہ ہر نماز کے لئے مسجد میں آنے کی مکلف نہیں ہیں۔ امہات المؤمنین کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کو بھی اعتکاف مسجد میں ہی کرنا چاہئے، گھر میں اعتکاف نہیں کرنا چاہئے۔