خطبہ جمعہ کے دوران 2 رکعت نماز: ایک باطل روایت اور 7 دلائل
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 445

سوال

حالتِ خطبہ میں دو رکعت نماز

درج ذیل الفاظ سے منسوب ایک مشہور حدیث کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے:

"اذا صعد الخطيب المنبر فلا يتحدثن احدكم، ومن يتحدث فقد لغا، ومن لغا فلا جمعة له، أنصتوا لعلكم ترحمون”

اس حدیث کی تحقیق کے ساتھ مسئلہ کی محقق و مدلل وضاحت بھی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

➊ روایت کا اصل ماخذ اور درجۂ صحت

یہ روایت حدیث کی کسی معتبر کتاب میں سند کے ساتھ نہیں ملی۔

اسے شیخ عبدالمتعال بن محمد الجبری نے اپنی کتاب:

"المشتهر من الحديث الموضوع والضعيف والبديل الصحيح” (ص 168) اور
"موسوعۃ الآحادیث والآثار الضعیفہ والموضوعۃ” جلد1، صفحہ 503، حدیث 1625
میں ذکر کیا ہے۔

➋ علامہ البانیؒ کی تحقیق

شیخ البانیؒ نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

"باطل، قد اشتهر بهذا اللفظ على الألسنة وعلق على المنابر، ولا أصل له”

یعنی:

یہ روایت باطل ہے۔ یہ زبانوں پر مشہور ہے اور منبروں پر لکھ کر لٹکائی جاتی ہے، مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ 1/122، حدیث 87)

➌ اس روایت کے دو ضعیف شاہد (تائیدی روایات)

(1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ماخذ: السنن الکبریٰ للبیہقی 3/193
سند کی کمزوری کی تین وجوہات:

(الف) الحسن بن علی (یا علی بن الحسن) العسکری کی توثیق نامعلوم ہے۔
(ب) محمد بن عبدالرحمن بن (سہیل یا سہم) کی توثیق بھی معلوم نہیں۔
(ج) یحییٰ بن ابی کثیر مدلس تھے اور روایت "عن” سے ہے۔

ماخذات برائے توثیق:

تقریب التہذیب: 7632
النکت علی ابن الصلاح: 2/643
اتحاف المہرۃ: 3/325، حدیث 3122

امام دارقطنیؒ نے فرمایا:

"ويحيي بن أبي كثير معروف بالتدليس”
(العلل الوارده 1/134، سوال: 2163)

(2) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت
ماخذ: رواہ الطبرانی فی الکبیر، بحوالہ مجمع الزوائد 2/184

یہ روایت المعجم للطبرانی میں نہیں ملی۔
اس کی پوری سند کسی کتاب سے دستیاب نہیں ہو سکی۔
اس میں ایوب بن نہیک راوی ہے جو محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

"والجواب عن حديث ابن عمر بانه ضعيف فيه أيوب بن نهيك، وهو منكر الحديث، قاله أبو زرعة وأبو حاتم، والأحاديث الصحيحة لا تعارض بمثله”
(فتح الباری 2/409، تحت حدیث 930)

➍ نتیجہ:

ایوب سے اوپر اور نیچے کی سند نامعلوم ہے، لہٰذا ایسی بے سند اور باطل روایتوں پر اعتماد جائز نہیں۔

➎ خلاصہ تحقیق:

یہ روایت باطل اور مردود ہے۔

➏ صحیح احادیث کی روشنی میں حکم

صحیح بخاری
(1166) اور صحیح مسلم
(875) میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

"جب تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو یہ شخص دو رکعتیں پڑھے”

یعنی جمعہ کے خطبہ کے دوران اگر کوئی مسجد آئے تو وہ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے۔

➐ صحابہ کرام کا عمل

سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا واقعہ:

نبی ﷺ کی وفات کے بعد جمعہ کے دن خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہوئے۔

دو رکعتیں پڑھیں۔

کچھ مروانی سپاہیوں نے روکنا چاہا تو فرمایا:

"میں ان دو رکعتوں کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ۔۔۔”

ماخذات:

جزء رفع الدین: حدیث 162 (سندہ حسن)
سنن ابی داؤد: حدیث 1675
سنن الترمذی: حدیث 511، وقال: "حسن صحیح”

➑ خطبہ کے دوران گفتگو کی ممانعت:

صحیح بخاری (حدیث 934) اور صحیح مسلم (حدیث 851) میں اس کا ذکر ہے۔

➒ تابعین کا عمل

ابن عونؒ نے فرمایا:

"حسن بصریؒ آتے اور امام خطبہ دے رہا ہوتا، تو وہ دو رکعتیں پڑھتے تھے”
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2، صفحہ 111، حدیث 5165، سندہ صحیح)

➓ نتیجہ:

مذکورہ روایت نہ صرف بے سند بلکہ باطل ہے۔

صحیح احادیث اور صحابہ و تابعین کے عمل سے یہ واضح ہے کہ خطبہ کے دوران آنے والا شخص دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے گا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1